ایڈی پس، ہیملیٹ اور ہمارا مردہ احساس گناہ


سفید سفید ہوتا ہے اورسیاہ سیاہ، سفید سیاہ نہیں ہوتا، سیاہ سفید نہیں بن سکتا۔ زمانہ قدیم سے ہی نیکی اور بدی کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی تھی۔ زمانے آئے اور چلے گئے، لو گ آئے اور چلے گئے، قومیں آئیں اور چلی گئیں، مگر سفید سفید ہی رہا سیاہ سیاہ۔ بدی کو نیکی کہنے سے انکار کی پاداش میں لوگوں نے یہاں زہر بھرے پیالے بھی پئے، مگر آج تک پینے والا زندہ ہے اور پلانے والے کا نام تک بھی مٹ گیا۔ قدرت کی جانب سے ہمارے اندر سیاہ و سفید کو پرکھنے والا آلا لگا ہوا ہے جو نیکی کے لیے اثبات اور بدی کے لیے نفی کا میکینزم لیے ہوئے ہے۔ جس لمحے ہم کسی دانستہ و نادانستہ لغزش کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں خود ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ ”وی سلپڈ“ ۔

ایڈی پس تھیبز کا ایک عالیشان بادشاہ گزرا ہے۔ اس کی داستان ایک ٹرائیلوجی کی شکل میں موجود ہے۔ یونانی ادب سے یا ادب سے دلچسپی رکھنے والے تمام لوگ اس کی آزمائش سے آگاہ ہیں، اس کے انجام سے خائف بھی اور اس کی سزا کے حوالے سے دوسری رائے بھی رکھتے ہیں۔ جنگل میں پھینکے جانے سے لے کر بادشاہ بننے تک اس کے کردار میں کوئی سقم، کوئی کمی یا کجی نظر نہیں آتی۔ مگر اپنے ”ہمارشیہ“ کے ہاتھوں جب وہ ایک ایسے راز پر سے خود بضد ہو کر پردہ اٹھا بیٹھتا ہے جسے قدرت نے صیغۂ راز میں رکھا تھا۔

راز افشاہ ہو جانے کے بعد، ایک ایسا راز جس میں اس کی کوئی دانستہ غلطی نہیں ہے، وہ احساس گناہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مگر اخلاقی اعتبار سے اتنی بلند روایات کا حامل ہے کہ سچ کا سامنا کرتا ہے، خود کو شہر کی گندگی ٹھہراتے ہوئے وہ اپنی آنکھیں سزا کے طور پر خود نوچ ڈالتا ہے۔ اپنی زندگی اس لیے ختم نہیں کرتا کہ رہتی دنیا تک اپنے آپ کو عبرت کی مثال بنا ڈالتا ہے۔ اس کا احساس گناہ زندہ تھا، اس نے تلخ حقیقت کا سامنا کیا، اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھی خود تجویز کی مگر سچ سے منہ نہ موڑا۔

خوبصورت اور دانشور ہیملیٹ سے بھی آپ یقیناً آگاہ ہوں گے۔ سیاہ و سفید کی کشمکش کے درمیان مقید نوجوان بادشاہ اپنے اند ر کے ”کانفلکٹ“ سے مسلسل لڑتا رہا۔ سچ کی تلاش کرتا رہا۔ زہر ہلاہل کو لیکن کبھی قند نہ کہا۔ اس کی گہری خود کلامیاں، اس کی ٹوٹ کر محبت اور اس کا انجام، رشتوں کا نازک پن، باپ کا انتقام اور اپنوں کی بے وفائی اس کے ضمیر کو سلا نہ سکی اور وہ حق و باطل کی اس کشمکش میں سچ کے درخت کی آبیاری اپنے خون سے کر گیا۔ اس کا احساس گناہ یا سفید و سیا ہ کو شناخت کرنے کی حس تاباں و توانا ہی رہی، جان تو دے دی مگر غلط کو صحیح نہ کہا اور ہمارے لیے ایک مثال چھوڑ گیا۔

رہتی دنیا سے آج تک ہر دور میں، ہر مذہب میں اور ہر خطے میں سچ سچ ہی کہلایا ہے اور جھوٹ جھوٹ۔ اگر کوئی غلطی کرتا پایا گیا تو وہ اس کے عذر تلاش نہیں کرتا پایا گیا یا اس کی تاویلیں گھڑنے کی حماقت سے دور ہی رہا، سوائے ہم لوگوں کے۔ عذر گناہ، بدتر از گناہ۔ آج ہم گناہ کو گناہ جانتے ہی نہیں۔ ہم لوگ گناہ کرتے ہیں مگر اس کی تاویل گھڑ لیتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور اگر کوئی سچ بولنے کی جسارت کر بیٹھے تو سب لوگ خنجر لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا احساس گناہ مر چکا ہے۔ ایسی نابغۂ روزگار شخصیات سے بھی آپ یقیناً آپ واقف ہی ہیں جو نہ صرف یہ کہ غلطی پلان کر کے کرتے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ سیاہ سفید ہے اور سفید دراصل سیاہ ہے۔

دور نہ جائیں، ماضی اور حال پر نظر دوڑائیں۔ بہت سی درخشاں مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ مثال اس طیارے کے حادثے کی ہے۔ غلطی چاہے کسی کی بھی ہو ہمارا ’کٹا‘ چٹا ہی ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف سے قرضہ نہ لینے کے دعوؤں کو پر کہ لیں، آٹے، چینی اور دالوں کے نرخ بارے بنے سکینڈلز کو دیکھ لیں، چھوٹی کابینہ اور عمدہ کارکردگی جو پھرتی سے کہیں غائب ہو گئی ہے اس کو تلاش کر لیں، گائیں اور بھینسوں کو بیچ کر ملک کے پیسے بچانے کی مثال قائم کرنے والوں کا ہیلی کاپٹر کا سفر مطالعہ کر لیں یا پھر میٹرو بس پر شدید ترین تنقید کرنے اور اس عوام کے قیمتی پیسے کا ضیاع قرار دینے والوں کا بی۔آر۔ ٹی منصوبہ اور اس پر ہوئے اخراجات کا مطالعہ ایک ”کمپیریزن شیٹ“ بنا کر یا ”وین ڈایاگرام“ کے ذریعے کر لیں۔ جو چیز ماضی کی حکومت کے لیے حرام تھی، وہ حال کی حکومت کے لیے حلال کیسے ہو گئی اور اس پر ”احساس گناہ“ سے اور شرم سے عاری ”جسٹیفیکیشنز“ سن لیں۔ بات حالیہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے متضاد بیانات کی ہو، اکنامک ایکٹیوٹی کا سرے سے مفتود ہونا ہو، سٹیل مل کو چلانے پر ایک خوبصورت یو۔ ٹرن کی کہانی ہو، حکومت چلانے کی بجائے کرکٹرز کو مشورے دینے کی ’ابسرڈ‘ روایت ہو، تیزی سے ابتر ہوتی ہوئی لا اینڈ آرڈر کی سچؤیشن ہو، ٹوٹتی ہوئی، جانے کب سے اپنی مرمت کی منتظر سڑکیں، گلیاں اور شاہرائیں ہوں، 350 روپے بکنے والا چکن ہو، انتہائی مہنگاہ دودھ ہو، کرنا کی وجہ سے مزیدلاکھوں افراد کی بے روزگاری ہو، کرپشن کا ناسور ہو، بجلی کی بندش ہو، فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی روایتی اجارہ داری ہو، گزشتہ حکومت پر سارا ملبہ گرانے کا بندوبست ہو، ، کنسڑکشن کے بزنس کو دی جانے والی قابل غور مراعات ہوں، صوبوں اور وزارتوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی کا فقدان ہو، چاند کی چوری ہو، پیف اور دیگر اداروں کا بر ا حال ہو، ، ساہیوال کا سانحہ ہو، زینب کیس ہو، وکلاء اور ڈاکٹرز کا ٹکراؤ ہو، وینٹی لیٹرز کی کمی ہو، کرونا سے لڑتے تمام تر طبی وعملے کو بنیادی حفاظتی سامان نہ فراہم کرنے کی ذمہ داری ہو، کرونا کی ابتر صورتحال میں حکومتی پلاننگ کی کمی ہو، ناپید ٹائیگر فورس کے نادیدہ کارنامے ہوں یا غریبوں کی محبت کے دعوے میں گرفتار لوگوں کی مری میں منائی گئی عید ہو، ہر سطح پر آ پ کو کوئی نہ کوئی جواز پیش کر دیا جائے گا۔

آپ کبھی یہ بات نہیں سنیں گے کہ سفید سفید ہے اور سیاہ سیاہ ہے۔ آپ کو سیاہ کو سفید بنا کر پیش کیا جائے اس اصرار کے ساتھ کہ یہی سفید ہے، کیونکہ ہمارا احساس گناہ اب کاغذوں میں بھی زندہ نہیں رہا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اگر آج کے دور میں ایڈی پس یا ہیملیٹ زندہ ہوتے تو شاید برین ہیمبرج کا شکار ہو کر مرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments