بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’لاپتہ ہونے سے قبل والد کو سیاسی نظریات کی وجہ سے دھمکی آمیز فون آتے تھے‘


اپنے زخمی پیروں کی تصاویر دکھاتے ہوئے سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ کہ جب وہ چلتے ہوئے اپنے پیروں کو زمین پر رکھتی تھیں تو اس سے ہونے والی تکلیف کا اظہار الفاظ میں ناممکن ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھی زخمی پیروں کے ساتھ میں نے دیگر افراد کے ہمراہ جدید انسانی تاریخ کی طویل ترین لانگ مارچ یہ سوچ کر کی کہ شاید ہماری تکالیف کو دیکھ کر انھیں ترس آ جائے اور وہ میرے والد سمیت دیگر لاپتہ افراد کو منظر عام پر لے آئیں۔ مگر انھیں ترس نہیں آیا۔‘

سمی بلوچ 13 سال کی عمر سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے والد کو ریاستی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے لیکن محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت کے ماتحت سکیورٹی کے اداروں کے حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

سمی کا کہنا ہے کہ ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 11 سال پہلے جبری طور لاپتہ کیا گیا جس کے بعد سے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہے۔

سمی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ اور شورش زدہ ضلع آواران سے ہے اور وہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بڑی بیٹی ہیں۔ اس وقت بی ایس میڈیا اینڈ جنرلزم کی دوسرے سال کی طالبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے ’لاپتہ‘ شیعہ کہاں ہیں؟

’دروازے بند نہ کرو نجانے کب میرا بیٹا آ جائے‘

’میری اہلیہ نے وہ 14 ماہ ایک بیوہ کی طرح گزارے‘

ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ نے بولان میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی تھی۔

سمی بلوچ نے بتایا کہ لاپتہ کیے جانے سے قبل وہ آواران سے متصل ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے بنیادی مرکز صحت میں میڈیکل آفیسر تعینات تھے۔

سمی بلوچ کے مطابق ان کے والد کو 28 جون 2009 کی شب بنیادی مرکز صحت سے لاپتہ ہو گئے تھے۔

سمی بلوچ کہتی ہیں کہ ان کے والد لاپتہ کیے جانے سے قبل ان کی تیمارداری کے لیے کوئٹہ میں آئے تھے۔

’دس سال کی عمر میں ٹانسلز کی وجہ سے میں بیمار ہو گئی تھی۔ والد نے آفس سے رخصت لی اور ٹانسلز کا آپریشن کروانے کے لیے مجھے کوئٹہ لے آئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ابھی انھیں کوئٹہ آئے ہوئے تین، چار روز ہوئے تھے کہ ان کے ڈیوٹی پر واپس آنے کو کہا گیا۔

’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد بیماری کی حالت میں مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے مگر واپس آفس جانا بھی ان کی مجبوری تھی، اس لیے وہ مجھے چھوڑ کر اوورناچ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ اوورناچ پہنچنے کے اگلے ہی روز یعنی 28 جون کو انھیں لاپتہ کر دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جس وقت ان کے والد کو اٹھایا گیا اُس وقت ہسپتال کا چوکیدار بھی وہاں موجود تھا۔ ’چوکیدار کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اس کو وہیں چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ ان کے والد کو وہاں آنے والے لوگ ساتھ لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد زمانہ طالب علمی سے ایک سیاسی کارکن تھے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی جرم اور قصور نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ لاپتہ ہونے سے قبل ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ان کو دھمکی آمیز فون آتے تھے اور ان کو یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی ان نظریات اور سیاسی سوچ سے باز آ جائیں۔

کم عمری میں طویل پیدل لانگ مارچ کرنے والی پہلی خاتون

بلوچستان سے لوگوں کی اپنے رشتہ داروں کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے شکایات کا سلسلہ سنہ 2002 سے شروع ہوا۔

سرکاری حکام کا یہ موقف ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن بعض عناصر ریاست کو کمزور کرنے کے غیر ملکی سازشوں کے تحت اس کو ایک ایجنڈا کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

عدالتوں میں اس حوالے سے درخواستوں کی سماعت کے دوران سرکاری حکام کی جانب سے یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ جن لوگوں لاپتہ قرار دیا جا رہا ہے وہ فراری کیمپوں میں ہیں یا بیرون ملک گئے ہیں۔ اس حوالے سے افغانستان کے جنوب مغربی حصوں کے بعض علاقوں کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔

اس سرکاری موقف کے حوالے سے سوال پر سمی بلوچ نے اپنی موبائل فون میں موجود اپنی زخمی پیروں کی تصویر دکھائی اور کہا کہ کوئی ڈرامے کے لیے یا شوقیہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا طویل پیدل مارچ کر سکتا ہے؟ ’یہ بہت اذیت ناک سفرتھا۔ ہمارے پیر اتنے زخمی ہوئے اور ان میں اتنے چھالے پڑ گئے کہ ان کی وجہ سے پیروں کے بعض انگلیوں کے ناخن تک گر گئے۔‘

یہ لانگ مارچ اکتوبر 2013 میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں کیا گیا۔

سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ موسم کی سختیوں کے باوجود میں نے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ طویل مارچ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا کہ میرے والد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جو لوگ گمشدگی کے بعد بازیاب ہوئے ان میں سے بعض لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر دین محمد ٹارچر سیل میں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مرے ہوئے شخص پر صبر آ جاتا ہے لیکن اگر کسی کا پیارا جیتے جی گم ہو جائے تو اس کو زندگی بھر نہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔

انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ’جب ہم گھر میں کوئی اچھا کھانا کھاتے ہیں تو اس وقت والد کی یاد آتی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ ان کو کھانا ملتا بھی ہے یا نہیں۔‘

سمی بلوچ نے بتایا کہ لوگوں کا کسی کے لیے ایک دن کا انتظار قیامت کے برابر ہوتا ہے لیکن ہم 11 سال سے اپنے والد کا انتظار کر رہے ہیں، اگر دنوں میں بات کی جائے تو یہ چار ہزار 15 دن بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی دادی جب اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں تو ان کی زبان پر کلمے کے علاوہ صرف یہ بات تھی کہ ان کو ان کے بیٹے سے ملوا دیا جائے۔‘

’ہم اب نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ہمیں نیند کے لیے گولیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر میرے والد نے کوئی جرم کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کر کے سزا دی جائے۔

انھوں نے کہا کہ جب ہم حکمرانوں کے پاس اپنے والد کی بازیابی کے لیے جاتے ہیں تو کبھی یہ کہا جاتا کہ شاید اس نے کوئی جرم کیا ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فراری کیمپوں میں ہے۔

سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ جب اپنی شناختی کارڈ بنوانے نادرا گئیں تو عملے نے کہا کہ شناختی کارڈ نہیں بن سکتا کیونکہ ان کے والد کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہونے کے بعد دوبارہ نہیں بنا ہے۔

دین محمد بلوچ کی گمشدگی کے بارے میں حکومتی موقف کیا ہے؟

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کا شمار ان لاپتہ افراد میں ہوتا ہے جن کی گمشدگی کے خلاف ان کے رشتہ داروں کی درخواستوں کی سماعتیں عدالتوں میں سب سے زیادہ ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر دین محمد کی گمشدگی کے خلاف درخواست کی سماعت نہ صرف بلوچستان ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ میں بھی ہوئی ہے۔

ان عدالتوں میں محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان اور وفاقی سکیورٹی ایجنسیوں کے حکام بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔

ان کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو نہ کسی سرکاری ادارے نے اٹھایا ہے اور نہ ہی وہ ان کی تحویل میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp