شاہ عنایت قادریؒ، ہاری اور جاگیرداری


شاہ عنایت کی جھوک حیدر آباد سے 80 کلو میٹر کے فاصلے پہ ہے۔ سڑک کہیں مناسب اور کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ کہیں روڑی، پتھر اور ریت، راستے پہ ستاروں کی طرح بچھے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے میں یاتری وہاں تھا۔ سفید بالوں والے نانک پنتھی پروفیسر ناگ پال کی باتوں سے سندھ کی خوشبو آتی ہے۔ ان سے ملاقات اسلام آباد میں مادری زبانوں کے میلے میں ہوئی تو معلوم نہ تھا کہ زندگی کے سندھی موڑ پر ”مچاٹا“ ہوگا۔ وہ صوفیوں اور سنتوں کے قصہ گو ہیں۔

اڈیرو لال کے قصے سے یہ راز کھلا کہ سندھو، نے دھرم کو کربلا نہ سجانے دی اور ظالم کا راستہ روکا، کہ سندھ فرات نہیں ہے! اپنے سورماؤں کی موت پر سیلاب نہ لا سکے تو کناروں سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔ صوفی شاہ عنایت قتل ہو کر سندھ کے سورماؤں کی دیو مالا کا حصہ بن گئے۔ شاہ لطیف کی ست سورمیون مر کر وصل اور وصال سے ماورا ہو جاتی ہیں۔ سوائے نوری کے جس کا وصل کامل تھا کہ اس کا عاشق پورا آدمی تھا۔ سوال یہ ہے کہ بالعموم عاشق مرد اور عورت اس طرح کیوں مرتے ہیں؟ محمود درویش جواب دیتے ہیں :

میں جانتا ہوں، عورتیں آئینوں کے سوا
اپنے تمام عاشقوں کے لئے بے وفا ہوتی ہیں
وہ اپنے تمام عاشقوں کو بھول جاتی ہیں
سوائے ان کے جو مر چکے ہوں
میں جانتا ہوں
زمین بھی جان دینے والوں کے سوا
اپنے تمام عاشقوں کو بھول جاتی ہے

یاتری کے لاشعور میں سندھی سورماؤں کے خون آلود چہرے روشن ہو گئے تھے، دل مونجھا تھا۔ گرو نانک کے دو بیٹے، سری چند اور لکھمی چند تھے۔ بڑے بیٹے سری چند دنیا کے آدمی نہ تھے، اداس رہتے تھے۔ ان کے ماننے والے اداسی یا اداسین سکھ ہیں۔ ”سلسلہ اداسیہ“ کے لوگ مسافر کا ہمزاد ہیں۔ شاہ عنایت کے مزار کو لپٹی اداسی کا سبب کیا تھا؟ شاہ عنایت کے فقیر جوگیوں والا گیروے رنگ کا لباس پہنتے تھے جو اداسی کی علامت ہے۔ گنج شہیداں جہاں ہزاروں فقیر دفن تھے، یا شاہ عنایت کے کھیتوں کی طرح پھیلے ہاتھ جن سے خون رستا تھا!

درجنوں تیرتھ اور سینکڑوں مزار دریا کنارے آباد ہیں۔ تیرتھ، موت کے ملک میں جانے کے گھاٹ تھے۔ اس لئے تو سیاں پار اترنے کی ٹھمری کی للک، جان لیتی ہے۔ ”مورے سیاں اتریں گے پار، ندیا دھیرے بہو ناں“ ! جھوک کے مقام پر 1718 میں بہت سے سوشلسٹ صوفی موت کے گھاٹ اترے تھے۔ شہید کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، انھیں رزق ملتا ہے۔ یوں لگا جیسے شاہ عنایت خون آلود لباس میں ندیا کنارے بیٹھے ہوں اور ہاریوں کے حقوق کا مطالبہ لے کر بھوک ہڑتال پر ہوں!

چپ چاپ اور اداس مزار پر میری ڈائری کے علاوہ کوئی میرے ساتھ نہ تھا۔ زمین جنگ کے میدان کی طرح گرم تھی، پاؤں جلتے تھے۔ گنج۔ شہیداں میں ہاریوں کے خواب دفن تھے۔ قبریں تھیں کتبے نہ تھے، انقلاب کے غم نام سپاہی۔ نمانڑے لوگ اور چند مریض گرم سیمنٹ کے فرش پر ننگے پاؤں مزار کی طرف جاتے تھے۔ وہ رزق اور شفا مانگنے آئے تھے۔ شاہ عنایت کا ”جو بوئے، سو کھائے“ کا خواب ریزہ ریزہ تھا۔ دعا کا رشتہ قائم تھا! میری ڈائری کے پنے پہ لکھے لفظ میری آنکھوں کے پانی سے بھیگ گئے تھے!

سندھو کا دھارا میرے لاشعور میں بہتا تھا میں نے ڈائری بند کر دی تو سندھ وادی کی تہذیب کے پنے لداخ سے لاڑکانہ تک کھل گئے۔ جھولے لال نے جنم بھومی کو متعصب دھرم بھومی نہ بننے دیا تھا۔ دسویں صدی کا وسط تھا۔ عربوں کی تین صدیاں بیت چکی تھیں۔ محمود غزنوی ملتان میں اسماعیلی حکومت کا خاتمہ کر چکے تھے۔ رومیلا تھاپر راوی ہیں کہ فتح مکہ کے بعد کعبہ میں رکھے بت توڑے گئے تو منات کا بت عرب تاجر سومنات لائے تھے۔ محمود غزنوی منات کی مت مارنے سومنات آئے تھے۔

دوسری روایت ہے کہ غزنوی کبھی سومنات گئے ہی نہیں۔ تیسری روایت میں وہ سونا لوٹنے سومنات گئے تھے۔ نفرتیوں کے لئے تیسری روایت مستند ہے! کہ سامراجی تاریخ، ماضی کی رنجشوں کو تقویت بخشتی ہے۔ اسی زمانے میں داتا گنج بخش رح لاہور میں ”کشف المحجوب“ لکھتے تھے۔ ایم ایل بھاٹیہ داتا کا قول نقل کرتے ہیں۔ ”صوفیوں کی دعاؤں سے بارش ہوتی ہے۔ اور ان کے پاک نفوس کی برکت سے زمین ثمر بار ہوتی ہے اور ان کے روحانی اثر سے مسلمانوں کو کافروں پر فتوحات ملتی ہیں“ ۔

33 کروڑ دیویوں اور دیوتاؤں کے دیس میں ہر آدمی کا اپنا پیر تھا اور اپنا دیوتا تھا۔ انصاف کے ادارے نہ ہوں۔ کوئی مدد کو نہ آئے تو آدمی دیوتا کا دیا جلاتا اور پیر کو پکارتا تھا۔ بادشاہ سخت گیر تھے اور صوفی، دست گیر تھے اور صوفیوں میں کچھ بادشاہوں کے پیر بھی تھے، اسٹیبلشمنٹ ملا کے ساتھ صوفی کو کبھی خراج دیتی ہے تو کبھی قتل کرتی ہے۔ اسماعیلی پیر، اسلام کو مقامیت اور مقامی زبانوں سے جوڑتے اور گنان لکھتے تھے۔

ملتان میں شاہ شمس اور کوٹھے وال ملتان کے بابا فرید اجودھن ( پاک پتن) میں بیٹھے اشلوک کہتے تھے! سومرا سلطنت ڈیڑھ صدی دور تھی! گورکھ ناتھ ٹلہ جوگیاں پہ دھونی رمائے تھے! مرکھ شاہ نے دھرم کو دھمکی سے تبدیل کرانے کی کوشش کی تو دریا کا اوتار دریا کنارے آیا اور قتل۔ عام ٹل گیا۔ لوک دانش، موت سے بچانے والوں یا سچ کے لئے مرنے والوں اجتماعی حافظے میں محفوظ کرتی ہے۔ سقراط، ہنی بال، حسین علیہ السلام، منصور، سرمد اور صوفی شاہ عنایت ہمارے دلوں میں بستے ہیں!

قدیم روایت سے جڑا لوک حافظہ ذوالفقار علی بھٹو کو جھولے لال، اور بے نظیر بھٹو کو ”سندھو کی لالڑی“ بناتا ہے۔ کلچر چولے بدل کر کرشمے کرتاہے۔ بھٹو ساگا، صوفیوں اور بھگتوں کی روایت میں سانس لیتا ہے۔ شاہ عنایت کے بعد بھٹو صدیوں بعد غریب کے نام کی مالا جپتے تھے، روٹی، کپڑا اور مکان میں جو بوئے سو کھائے کی گونج ہے۔ وہ کثرت سے عوام کا ذکر کرتے تھے، عوام ان کا ذکر کرتے ہیں۔ غریب کی چھت سے ٹپکتا بھٹو، قلندر کی قوالی اور جھولے لال کے پنجڑے میں خلقت کی آواز ہے۔

ہیرو جس میں ”ٹریجک فلا“ تھا۔ بادشاہ، قاضی اور ملا نے جس لال کو مٹی میں اتارا، لوک حافظہ اسے جھولا جھلاتا ہے، لوریاں دیتا ہے۔ لوکائی جب جھولے لال قلندر اور دما مست قلندر پر دھمال ڈالتی ہے تو ان کے قدموں کے نیچے دھرتی دھڑکتی ہے! بھٹو کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اسے اجتماعی لاشعور سے نکالنے کے سب حربے نا مراد ہیں۔ کہ اس کے اساطیر کو لوگوں نے محبت سے مکت کیا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

سندھ سورماؤں کا دیس ہے۔ راجہ داہر، دودو سومرو، مخدوم بلاول، دولہہ دریا خاں، صوفی شاہ عنایت اور ذوالفقار علی بھٹو لوک ہیرو ہیں۔ دیو مالا کا حصہ ہیں اور شاہ عنایت کا مزار حریت کی اسی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ مزار پہ بیٹھے بیٹھے دھوپ تیز ہو گئی تھی، ہلکی لو چلتی تھی۔ یاتری روش پہ درگاہ کی طرف چل پڑا تھا۔ پیر جلنے لگے تھے اور مجھے اپنے پیروں کی قسمت پہ ناز تھا کہ اس مٹی کو چومتے تھے جسے شاہ عنایت نے اپنے خون سے سینچا تھا!

صوفی شاہ عنایت کی طبعی زندگی 63 سالوں پر محیط تھی، وہ 1655 میں پیدا اور 1718 میں شہید ہوئے۔ ان کے والد مخدوم فضل اللہ اور والدہ ملتان کے لنگاہ خاندان سے تھے۔ ملتان میں لنگاہوں کا اقتدار سو سال کی حکمرانی کے بعد 1526 میں ختم ہوا تھا۔ آپ نے روحانی تعلیم مخدوم عبدالمالک قادری برہانپوری سے حاصل کی تھی اور آپ کا تعلق قادریہ سلسلے سے تھا۔ 1707 میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت 1757 اور 1857 کے انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔

دلی کے تخت پر فرخ سیر بیٹھا تھا۔ مغل سامراج عالمگیر کی تلوار بازی سے گھائل تھا۔ ٹھٹھہ میں اعظم خاں مغل صوبیدار تھا۔ شاہ عنایت کی شہادت کے وقت شاہ لطیف بھٹائی کی عمر 28 سال تھی اور مارکس ( 1818 ) کے پیدا ہونے میں پورے ایک سو سال باقی تھے۔ پیرس کمیون کا یوٹوپیا جو صرف دو مہینے قائم رہا، 1871 کہ بات ہے۔ سندھ کے مقامی سومرا 350 سال اور سمہ خاندان 170 سال عہد وسطی کے سندھ کی زبان، کلچر، شناخت اور خود اعتمادی میں اپنا حصہ ڈال کر قابل بازیافت ماضی بن چکے تھے۔

کلہوڑا خاندان نے سبی اور شکار پور میں قدم جما لئے تھے۔ یہ ایک رو بہ زوال جاگیردارانہ سماج تھا جسے ایک سوشلسٹ صوفی اور اس کے فقیروں کے کمیون سے خطرہ تھا۔ فرخ سیر اور صوبیدار اعظم خاں کی مغل فوج، یار محمد کلہوڑا، مقامی پیروں، ملاؤں اور جاگیرداروں کے رجعتی اتحاد نے اداس گیروے رنگ میں ملبوس فقیروں کی جھوک کا محاصرہ کر لیا تھا۔ شاہ عنایت کے ہاری، جاگیرداری کے لئے سنجیدہ خطرہ بن گئے تھے اور مارکس کی پیدائش سے ٹھیک ایک سو سال پہلے سندھ میں ”جو بوئے سو کھائے“ کے کمیونسٹ منشور کے ساتھ مسلح ہاری ایک صوفی کی قیادت میں انسانی مساوات، آزادی اور اخوت کا خواب دیکھتے تھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments