ارطغرل غازی: او کون لوگ او تسی؟



”آپ لوگ آزاد ہیں، آزاد رہیں۔ آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں یا مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ کے مذہب کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔“ یہ الفاظ قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء کو کی گئی تقریر سے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کن اصولوں کے تحت وجود میں آیا۔ اس ملک میں اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوں گے۔ ہم بحیثیت پاکستانی شہری رنگ و نسل، قوم و مذہب کے امتیاز کے بغیر برابر ہیں۔ یہ تھی اس ملک کی اساس جس کو لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنایا گیا اور ہم ستر سالوں سے اس کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں۔ کیا قائد اعظم ہم پر فخر کر رہے ہوں گے؟ اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر کچھ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے جو پروپیگنڈا کیا گیا اسے دیکھ کر قائد کی روح ضرور تڑپی ہو گی۔

ایک اور پروپیگنڈا جو مخالفین نے عمران خان کو بدنام کرنے کے لئے کیا کہ انہوں نے یہ زمین الاٹ کی ہے اور ان کو یہودی ایجنٹ بنانے کے ساتھ اب ہندوؤں کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا اور فتوؤں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لیکن حقائق کچھ اور ہیں۔ آئیے پہلے حقائق ملاحظہ فرمائیں،

اسلام آباد کے گردونواح میں قریباً 300 ہندو خاندان آباد ہیں، 2015 میں ہیومن رائٹس کمیشن نے مندر کی تعمیر کے لئے پاکستانی حکومت کو خط لکھا تھا۔ یاد رہے اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، جبکہ ہیومن رائٹس اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے 17 فروری 2016 کو ایک میٹنگ بلائی جس میں یہ ایشو زیر بحث آیا اور ہندو کمیونٹی کو شمشان گھاٹ اور مندر کی تعمیر کے لیے جگہ الاٹ کرنے کے احکامت جاری کیے گئے۔

اس حکم نامے کے مطابق اسلام آباد کے علاقے H 9۔ 2 میں 4 کنال کا رقبہ الاٹ کیا گیا۔ 31 مئی 2016 کو پہلے سے جاری کردہ حکم نامے کی روشنی میں اسلام آباد ہندو پنچائت نے حکومت پاکستان سے زمین کی حوالگی کی درخواست کی۔ جس پر 8 جون 2016 کو چیرمین سی ڈی اے سمیت ہندو کمیونٹی کے نمائندے ڈاکٹر اشوک کمار سمیت تمام فریقین کو بلایا گیا اور زمین کی الاٹمنٹ کا فیصلہ ہوا اور پھر 2017 میں میاں نواز شریف کی حکومت نے باقائدہ الاٹمنٹ کر دی۔ جس کے بعد ہندو کمیونٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کیے اور تعمیر شروع کر دی۔ اب انہوں نے حکومت سے 10 کروڑ روپے امداد کی درخواست کی ہے جس پر غور جاری ہے۔

‌اب آتے ہیں اس کے مذہبی پہلو کی طرف اسلامی تاریخ میں کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا جس میں نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم یا خلفاء راشدین نے غیر مسلم رعایا کو اپنی عبادت گاہ بنانے یا عبادت کرنے سے روکا ہو اور ان کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی بلکہ ان کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا گیا۔ (برادر محترم مفتی عتیق صاحب نے رعایا کا لفط لکھا جسے ادارتی عملے نے رائے کی آزادی کے مطابق تسلیم کیا۔ عرض ہے کہ پاکستان کے ہندو کسی کی رعایا نہیں، مساوی رتبے، حقوق اور صلاحیت سے بہرہ مند شہری ہیں۔ پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ رعایا کو شہری کا درجہ دیا جا سکے۔ برادر عتیق صاحب نے، غالب گمان ہے کہ، بدنیتی سے ایسا نہیں لکھا۔ اسی لئے اس لفظ کو روا رکھا گیا اور وضاحت پیش کر دی ہے۔ و – مسعود) اس حوالے سے جو دلیل بار بار پیش کی جا رہی ہے وہ یہ کی فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ میں موجود 360 بت توڑ ڈالے تو ان کے لئے عرض ہے کہ وہ خانہ کعبہ تھا جس کی بے حرمتی ہو رہی تھی اس لئے ایسا کیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کے دوران بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور پادریوں کو نقصان پہنچانے سے سختی کے ساتھ منع کیا۔

‌حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من قتل معاہداً لم یرح رائحة الجنة، وإن ریحھا توجد من مسیرة اربعین عاماً۔

”جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔“

(بخاری، الصحیح، کتاب الجزیة، باب إثم من قتل معاہدا بغیر جرم، 3 : 1155، رقم: 2995 )

ارطغرل غازی ڈرامہ پاکستان میں نشر ہوتے ہی پاکستانی ڈرامے کی تاریخ کا مقبول ترین ڈرامہ بن گیا اور پوری قوم ارطغرل غازی کے کردار کے سحر میں مبتلا ہو گئی۔ بلاشبہ ڈرامہ دیکھ کر اور ان کی تاریخ پڑھ کر آپ اس کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے سیکھا کیا؟ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ ارطغرل غازی نے سوگوت شہر میں اپنی عیسائی رعایا کے لیے کلیسا تعمیر کروایا، اس کلیسا کے پادری کو وہی عزت ملتی تھی جو سوگوت کے امام مسجد کو دی جاتی تھی۔ اس کلیسا میں اسی طرح گھنٹی بجائی جاتی تھی جیسے کہ مسجد میں پانچ وقت اذان دی جاتی تھی۔ مسلمان اور غیر مسلم تاجروں کے لیے ایک ہی قانون تھا اور ان کو برابر حقوق حاصل تھے۔

سوگوت بازار کا انتظام چلانے کے لیے ایک عیسائی تاجر کو مقرر کیا گیا تھا، اس کی وجہ اس کا مذہب نہیں بلکہ کی اس کی قابلیت تھی۔ ارطغرل غازی کے اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر عیسائی بازنطینی سلطنت کے علاقے چھوڑ کر سوگوت میں آباد ہو گئے تھے۔ اس پوری سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ ارطغرل غازی نے جتنے قلعے، بازار اور علاقے فتح کیے کبھی بھی کسی غیر مسلم عبادت گاہ، صلیب یا عام لوگوں کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ان کے مکمل تحفظ کو یقینی بنایا۔

انہوں نے مال غنیمت مسلمان ترک قبائل کے علاوہ غریب عیسائی آبادیوں میں بھی تقسیم کیا۔ یہ تھا ہمارے اسلاف کا وہ کردار، اصول، انصاف اور حکمت عملی جو سلطنت عثمانیہ جیسی عظیم سلطنت کی بنیاد بنا۔ افسوس کہ ہم نے اپنی تاریخ دیکھی، پڑھی، سراہی اور اس پر اترائے مگر سیکھا کچھ نہیں۔ ہم لوگ کیسی منافقت کا شکار ہیں؟ کہ یورپ یا دوسرے غیر مسلم ممالک میں مسجد بننے پر تو فخر کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں ایک مندر کی تعمیر سے ہمارا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

جبکہ ملاوٹ کرتے ہوئے، حرام اشیا فروخت کرتے ہوئے، دوسروں کی حق تلفی کرتے ہوئے، سود کھاتے ہوئے، ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے، کتے اور گدھے کا گوشت بیچتے ہوئے، رشوت لیتے اور دیتے ہوئے ہمارے ایمان خطرے میں نہیں پڑتا؟ ہمارے ایمان کو کسی مندر نہیں بلکہ ہم سے خطرہ ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اس کردار کے ساتھ ہم خلافت دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اس منافقت کو دیکھتے ہوئے آج ارطغرل غازی رحمت اللہ علیہ جب جنت سے ہمیں دیکھتے ہوں گے تو بلا اختیار ان کے منہ سے نکلتا ہو گا، ”اؤ کون لوگ او تسی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments