ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی : سو گئے روشنی کے پہلو میں


درمیانہ قد، مسکراتا ہوا سانولا چہرہ، جسم قدرے بھاری، دبیز شیشوں والی عینک سے جھانکتی ہوئی روشن آنکھیں، عموما سفید شلوار قمیص میں ملبوس۔ پان چباتے ہوئے بڑے میٹھے لہجے میں۔ ”شاہ صاحب ہیں“؟ میں اکثر اثبات میں سر ہلاتا اور واپس آکر شاہ جی (نانا) کو بتاتا کہ او آئے نیں۔ وہ یہ نہ پوچھتے کہ کون۔ بس اتنا کہتے، اچھا اور ملنے چلے جاتے۔ میں موقع غنیمت جان کر کھیل کود میں مصروف ہو جاتا۔ شاہ جی واپس آتے تو کہتے۔ آ ہون پڑھ لئے۔ اس دوران میں اماں جی (نانی) ان سے پوچھتیں ”شیرانی صاب ٹُر گے نے“ اور وہ جواب میں کہتے ”آخو، “۔ ۔ ۔ ۔ یاد نہیں ایسا کتنی بار ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ مجھے انداز ہ ہوگیا کہ یہ صاحب جو شاہ جی کو ملنے آتے ہیں، شیرانی صاحب ہیں۔ اختر شیرانی اور حافظ محمود شیرانی کے نام ابھی میری ذہنی لغت کا حصہ نہیں بنے تھے۔ تاہم ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کے نام کا آخری حصہ اماں جی کی زبان سے بار بار سن کر اب میری یاد داشت میں محفوظ ہو چکا تھا۔

یہ میرا پہلی جماعت کا زمانہ تھا۔ شاہ جی اور اماں جی کی باتوں سے مجھے اتنا اندازہ تو ہو چکا تھا کہ شیرانی صاحب کسی بڑے شاعر کے صاحب زادے ہیں لیکن وہ بڑا شاعر کون ہے؟ اور بڑا شاعر کیا ہوتا ہے؟ اس زمانے میں مجھے ایسے سوالوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ بہت بعد کی بات ہے، جب میں نے کسی کتاب میں اختر شیرانی کا نام پڑھا تو میں فورا پہچان گیا کہ یہ وہی بڑے شاعر ہیں جو شیرانی صاحب کے والد ہیں۔ تصویر دیکھی تو ہو بہو وہی نین نقشہ بس عینک کا فرق تھا۔

غالبا 77۔ 1976 کے اوائل میں گھر والوں نے مجھے پڑھنے کے لیے شیخوپورہ شاہ جی کے پاس بھیج دیا۔ تب شاہ جی (پروفیسر سید اکبر علی شاہ) کو گورنمنٹ ڈگری کالج شیخوپورہ سے ریٹائر ہوئے تقریبا پانچ چھے سال ہو چکے تھے۔ اس لیے وہ گھر میں رہ کر ہی لکھنے، پڑھنے اور پڑھانے کاکام کیا کرتے تھے۔ بالِ جبریل کی غزلیات کو منظوم انگریزی میں منتقل کرنا ان دنوں ان کی پہلی ترجیح تھی۔ اس لیے وہ گھر سے بہت کم نکلتے۔ کالج کے احباب خصوصا شیرانی صاحب ان سے ملنے کبھی کبھار گھر پر ہی آ جایا کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے شیرانی صاحب عید پر ضرور ملنے آتے۔ ان کا عید کے عید گھر آ کر شاہ جی سے ملاقات کا سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا لیکن اب شیرانی صاحب کے میزبان ماموں جان پروفیسر انور حسین سید ہوتے۔ ماموں جب تک شیخوپورہ میں رہے وہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ، تقریبا ہر عید پر تشریف لاتے۔ ماموں بتاتے ہیں کہ عید پر شیرانی صاحب کا گھر آ کر ہمیں ملنا دراصل ان کی شاہ جی سے عقیدت مندی کا اظہار تھا۔

14 مئی 1983 میں جب شاہ جی کا انتقال ہوا تو اُن کی تدفین اُن کے آبائی شہر گجرات میں ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ان کی قبر کے گرد پتھر لگوایا گیا تو قبر کے کتبہ پر خصوصی طور پر شیرانی صاحب کا لکھا ہوا یہ قطعہ ہائے تاریخ وفات کندہ کرایا گیا۔

مخدوم اپنے اکبرعلی شاہ خوش خصال

خوش خلق، با وقار، وضعدار، باکمال

وا حسرتا کہ چھوڑ کر ہم سب کو چل دیے

احباب و اقربا کے ہوئے قلب پُر ملال

سید کو اہل بیت کی شفقت نصیب ہو

دائم رکھے عزیز اُنھیں ربِ ذوالجلال

دنیا میں حسنِ خلق کی بنیاد ڈھے گئی

ق۔ 100

علم و ہنر پہ غم یہ پڑا، ہو گئے نڈھال

تاریخ کی تھی فکر کہ ہاتف نے یوں کہا

 ”عالِم کا انتقال ہے عالم کا انتقال“

1403۔ 100۔ 1503

(مجموعہ گلہائے تاریخ، مرتب سید فخر بخاری )

میں اس قطعہ کو جب بھی پڑھتا ہوں، الفاظ کی بندش، روانی اور خاص طور پر آخری مصرع میں موجود عالِم اور عالم کے درمیان تکرارِ حرفی میرے سامنے شاہ جی کو مجسم کر دیتی ہے۔ یہ قطعہ جب میں نے پہلی بار پڑھا تو مجھے نہ صرف پہلی مرتبہ شاعری کی تاثیر کا احساس ہوا بلکہ یہ شعور بھی میرے فہم کا حصہ بنا کہ کس طرح تخلیقی اذہان لفظوں اور مصرعوں کی مخصوص نشت و برخاست سے شاعرانہ معنی کے نئے تشکیلی امکانات لمحہ بصیرت کے دوران میں منصہء شہود پر لاتے ہیں۔ یہ میرا شاعری کا وہ پہلا درس تھا جو میں نے شیرانی صاحب کے لکھے ہوئے اس قطعہ اخذ کیا۔ یہی وہ پہلا مقام ہے جہاں سے میں نے پہلی دفعہ شیرانی صاحب کو سمجھنا شروع کیا۔

شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ شیرانی صاحب بھی اپنے والد احتر شیرانی کی طرح شاعر ہیں لیکن آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ نہیں، وہ تو اپنے دادا ڈاکٹرحافظ محمود شیرانی کی طرح تحقیق و تدوین کے شہسوار ہیں۔ بہر کیف پتا نہیں کیوں، مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ جیسے انھوں نے جان بوجھ کر تحقیق و تدوین کی خاطر اپنے اندر کے شاعر کو دبائے رکھا۔

آج سے تقریبا پندرہ سولہ سال پہلے کا ذکر ہے میں اور میرا دوست فخر بخاری اُن سے ملنے ان کے گھر گئے ان کو یہ تو پتا تھا کہ میرے والد شاعر تھے اور میں کبھی کبھار ہلکے پھلکے مضمون لکھتا ہوں لیکن ان کے علم میں یہ نہیں تھا کہ میں شعر بھی کہتا ہوں۔ پوچھنے لگے، ”آج کل کیا ہو رہا ہے“؟ نجانے کیوں میرے منھ سے ایک دم نکل گیا کہ شاعری۔ انھوں نے بڑی حیرت سے کہا، اچھا! ) (سنائیے! میں گھبرا گیا۔ میں نے کہا، اس وقت ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ کہنے لگے ”یہ لیں کاغذ قلم، لکھیں گے تو اشعار یاد آ جائیں گے“ میں ان کے علمی دبدبے کے سامنے سہما بیٹھا تھا، چاروناچار دو تین اشعار لکھے اور کاغذ قلم ان کی طرف بڑھا دیا۔ ایک شعر میں کچھ ترمیم کرکے کہنے لگے کہ اسے اگر یوں کرلیں تو پہلے اور دوسرے مصرع میں معنوی ربط پیدا ہو جائے گا۔

میں حیرت زدہ رہ گیا کہ معمولی سی تبدیلی کے بعد شعر معنی اور روانی کے اعتبار سے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ کاغذ قلم مجھے واپس کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ”بھئی ہم تو صرف منجی پیڑھی ٹھونکنا جانتے ہیں، بنانا نہیں“۔ یہ محض ان کی عاجزی تھی ورنہ جن علمی و ادبی روایات کے وہ امین تھے وہ سب جانتے تھے لیکن یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ہمیشہ نمود و نمائش اور اپنے آبا و اجداد پر فخر سے گریز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی قد آور ادبی شخصیات کا اکلوتا وارث ہونے کے باوجود، وہ ادبی دنیا میں اپنے علم و فضل کی بدولت پہچانے گئے۔ ان کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ انھوں نے بہت کم ان کی زبان سے ڈاکٹر حافظ محمود شیرانی اور اختر شیرانی کا ذکر سنا لیکن اختر شیرانی پر اُن کا لکھا ہوا خاکہ ”بھاہ جی“ خود بول کر بتاتا ہے کہ یہ کسی ایسے صاحبِ اسلوب کی تحریر ہے جس نے محض اختر شیرانی کو امر نہیں کیا بلکہ خاکہ نگار کو بھی ادبی دنیا کے دربار میں بقائے دوام کی مسند پر بیٹھا دیا ہے۔ یہ خاکہ میں نے جب شیخوپورہ ڈگری کالج کے سالانہ میگزین مرغزار میں پڑھا تو میرا دل کیا کہ میں اختر شیرانی سے متعلق، شیرانی صاحب سے گفتگو کروں لیکن ان کی علمی و ادبی شخصیت کے سامنے کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ کھل کر اختر شیرانی کے بارے میں سوالات کر سکوں۔ بہر حال انھوں نے جس طرح اس خاکے میں اختر شیرانی کی تصویر کھینچی ہے، میری ذاتی رائے ہے کہ اگر غیر جانبداری سے اردو کے دس بہترین خاکوں کا انتخاب کیا جائے تو ”بھاہ جی“ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments