یادیں آصف فرخی کی



میرے ہاتھ میں نوائے معانی زندگی کا مسودہ تھا اور آصف فرخی کا ایک ایک افسانوی مجموعہ میری نظروں سے گزر رہا تھا۔ شام کے سائے ڈھل چکے تھے، میں چھت پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ بہت دن ہوئے ڈاکٹر آصف فرخی سے بات نہیں ہوئی وہ نئے لکھے جانے والے دس افسانے کب بھیجیں گے اور میں ان کے افسانوں کا یہ مجموعہ کب مرتب کروں گی۔ انہوں نے تو 22 اپریل 2020 کو فون پر بتایا تھا کہ رخسانہ نئے افسانے جلد آپ کو بھیج دوں گا کرونا وائرس کی وجہ سے آفس بند ہیں اور وہ میرے آفس کے کمپیوٹر میں ہیں یہی سوچ کر جلدی سے سے فون اٹھایا واٹس ایپ کھولا اللہ رے!

یہ تو سر نے 25 مئی کو آخری دفعہ چیک کیا ہے یہ کیا ہوا اچھا ابھی فون کر لیتی ہوں پھر سوچا چلو یہ سارے کاغذ سمیٹ لو ں تو بات کرتی ہوں ایک دوست کا پیغام آیا اللہ! کیسا نقصان ہوا آصف فرخی نہ رہے یہ پڑھنا تھا کہ نبض کی رفتار سست پڑ گئی، دل جیسے دھڑکنا بھول گیا، دماغ سن ہو گیا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، دل میں ابال آنے لگے کاش کوئی کہہ دے یہ جھوٹ ہے مگر فیس بک تو کچھ اور مناظر دکھا رہی تھی اشکوں کا ایسا تانتا بندھا کہ رات گئے تک قرار نہ آیا یا ماضی کی یادیں پلٹ پلٹ کر آ رہی تھیں۔

ارے یہ 2012 کی بات نہیں یہ تو کل کی بات لگتی ہے جب میرے ایم فل کے مقالے کا موضوع آصف فرخی کی افسانہ نگاری ٹھہرا اور یوں آصف فرخی سے آشنائی کا پہلی بار موقع اس وقت ملا جب وہ بہاولپور ادبی کانفرنس میں آئے ہوئے تھے میں نے انہیں دیکھا نہیں تھا ملنے کے اشتیاق میں گرمی کی پرواکیے بغیر بھاگم بھاگ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پہنچی، ہال کا پتہ کیا پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی تو تقریباً آخر میں جگہ ملی اور بیٹھ گئی کہ اتنے سارے ادیبوں میں آصف فرخی کون سے ہوں گے ان کی شکل کیسی ہوگی میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ برابر کی قطار میں مجھ سے ایک دو نشستیں آگے ایک روشن چہرے والا شخص لب خاموش مگر عینک کے اندر سے بڑی گہری سرمئی آنکھیں سخن گفتہ تھیں اور میرے اندر سے آواز آئی یہی آصف فرخی ہیں میں اپنی نشست سے اٹھی اور ان کے پاس جا کر سلام کیا اور پوچھا آپ ڈاکٹر آصف فرخی ہیں؟

انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا جی جی اور پھر میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے ایک سوالنامہ ان کے آگے رکھ دیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے میرے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا پھر میں نے ان سے پوچھا کہ سر آپ نے افسانہ لکھنا کیوں چھوڑ دیا تو وہ مسکرائے اور غالباً کانفرنس کی وجہ سے کہا چھوڑا تو نہیں بہر طوراس سوال کا جواب میں آپ کو بعد میں دوں گا اور پھر انہوں نے کراچی جا کر میرے سوالوں کے تفصیلی جواب لکھے جن میں اس سوال کا بھی تفصیلی جواب لکھا گیا میں نے افسانہ لکھنا ترک نہیں کیا نہ چھوڑا یوں بھی افسانہ نگاری اس شراب کی طرح ہے کہ چھٹتی نہیں ہے یہ کافر۔

۔ ۔ پھرافسانہ پوری طرح وابستہ اور پیوستہ ہوئے بغیر میں تو نہیں لکھ سکتا میں نے کسی جگہ فرانز کافکا کا حوالہ دیا تھا کہ افسانہ اس کلہاڑی کی طرح ہے جو آپ کے اندر پڑھتے پھیلتے برفانی سمندر کی تہہ کو توڑ دے تو میرے اندر برفانی سمندربڑھ رہا ہے پانی منجمد ہوا جا رہا ہے مگر وہ کلہاڑی ہاتھ نہیں آئی کیا پتا کب ہاتھ آ جائے۔ فون پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، پھر اسی سال 2013 میں گرمیوں کی چھٹیوں میں میرا کراچی جانا ہوا ڈاکٹر آصف فرخی نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی میرے پاس ذاتی سواری نہ تھی میں نے رکشہ کروایا اور ڈیفنس فیز 6 میں ڈاکٹر آصف فرخی کے خوبصورت بنگلے پر اپنی امی اور دو بچوں سمیت پہنچ گئی ڈاکٹر آصف فرخی نے اس طرح گھل مل کر باتیں کی کہ یہ احساس ختم ہو گیا کہ میں ایک بہت بڑے ادیب سے گفتگو کر رہی ہو ں گھر کے لاؤنج میں لگی ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس تصویر میں تمہیں کیا دکھائی دے رہا ہے مجھے تو کچھ پیچیدہ ایسی اشکال نظر آئیں تو کھلکھلا کر بتایا یہ میری تصویر ہے ایک فنکار نے بڑی محبت سے بنا کر تحفے میں دی ہے پھر کہا آؤ میں تمہیں اپنی کتابیں دکھاؤ ں لاؤنج سے تہہ خانے میں اترتی سیڑھی کے ہر قدم پر کتابوں کا ڈھیر موجود تھا تہ خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا انہی میں سے ایک کتاب منٹو حقیقت سے افسانے تک اپنے دستخط اور تحریر کے ساتھ مجھے تحفے میں دی اور میرے بچوں کو اپنی لکھی ہوئی بچوں کی دو کہانیاں تھوڑی تاراما تھے چاند اور بی پٹکی تحفے میں دیں ان کا رویہ نہایت شفیق رہا انہوں نے بڑے شوق سے اپنے لکھنے کی میز دکھائی ان دنوں وہ انتظار حسین کے حوالے سے کام کر رہے تھے جب ہم ان کے گھر سے نکلے تو دروازے تک ساتھ ہی آئے اور باہر آکر رکشے والے سے کہا کہ پاس ہی سمندر ہے انہیں سمندر ضرور دکھانا اس سے احساس ہوا کہ سمندر کے ساتھ آصف فرخی کی ایک مخصوص وابستگی ہے جو خود سمندر جیسا دل رکھتا ہوں سمندر اسے کیوں ہانٹ نہ کرے۔

ان کے افسانوں میں بیشتر جگہ سمندر مختلف حوالوں سے موجود ہے۔ آصف فرخی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے میں ان کے دوستوں سے بھی ملی، کشور ناہید تو اس طرح ان پر وارے جا رہی تھیں جیسے ماں اپنے لاڈلے بچے پر یا بہن اپنے چھوٹے بھائی پر والہانہ قربان ہو جائے کہنے لگیں آصف فرخی نہ صرف خود ہمہ تن ادب کی خدمت میں مصروف رہتا ہے بلکہ ہمیں بھی رکھتا ہے، مجھے فون کر کے کہے گا فلا ں چیز کا ترجمہ کر دو ایسے کر لو ویسے کر لو اور ان کے درد مند دل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور انہوں نے حوالہ دیا کہ 2005 میں آنے والے زلزلے میں آئی ٹی پیز کے حوالے سے جو آصف کا کردار تھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

حمید شاہد نے کہا ملاقات کا عرصہ تو چند برسوں کا ہے مگر رفاقت کا احساس جنم جنم کا ہے اسد محمد خاں نے کہا میں نے اس شخص کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا بس برہمی کی ایک لہر سی آتی ہے پھر چلی جاتی ہے آصف فرخی کی ہمہ جہت شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے حسن منظر نے کہا آصف فرخی کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ خداوند کریم نے انہیں کھنکھناتی مٹی سے بنایا ہے یا آگ سے، اس کے ساتھ تعلق کے بارے میں وہ کہتے ہیں اتنی لمبی قربت 1982 سے اب تک تب ہی ممکن تھی جب وہ تندی مزاج اور برداشت سے عاری نہ ہوتے یا باوجود کتابوں میں گھر کیے رہنے کے ملنے والوں پر علمیت چھانٹنے کے عادی نہ ہوتے تو دوسروں کو مرعوب کرنے کی خو میں نے ان میں نہیں پائی۔

حسن منظر بتاتے ہیں کہ ایک موقع پر ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے جب وہ یونیسف میں ایک اہم عہدے پر تھے ایک نووارد کارکن کے بارے میں کہا کہ وہ تو بہت معمولی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے تو آصف نے بے ساختہ ناگواری سے کہا تھا کام کا اہل ہونے اورقابلیت سے اس کا کیا تعلق ہے۔ شمیم حنفی صاحب سے جب میری ٹیلی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا آصف بہت محبت کرنے والے انسان ہیں ان میں تعلق اور وضعداری بہت ہے اور یہی چیز مجھے ان کی پسند ہے۔

انتظار حسین کو ان کا ساتھ بہت پسند تھا وہ ملکی و غیر ملکی کانفرنس میں آصف فرخی کے نہایت قریب پائے جاتے اور خود آصف فرخی بھی انتظار حسین سے بہت متاثر تھے، اس حوالے سے جب میں مسعود اشعر اور ڈاکٹر انوار احمد سے ملی تو ان کی بھی یہی رائے تھی کہ وہ بہت وضع دار اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ میں نے 2014 میں ایم فل مکمل کر لیا مگر اس کے بعد بھی گاہے بگاہے ڈاکٹر آصف فرخی سے فون پر بات ہوتی رہی کیونکہ میں آپ اپنے مقالے کو کتابی شکل دینا چاہتی تھی اور ان سے رہنمائی لیتی رہی بلکہ کتاب میں انٹرویوز کا شامل کرنا خود ڈاکٹر آصف فرخی کا مشورہ تھا کتاب شائع ہونے کے بعد میں نے ان سے اجازت چاہی کہ میں آپ کے تمام افسانوی مجموعوں کو مرتب کرنا چاہتی ہوں جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔

2017 میں جب میں کراچی گئی اور ان سے ملنا چاہا تو انہوں نے بیدل لائبریری آنے کی دعوت دی۔ زبیرصاحب نے ہماری خوب آؤ بھگت کی اس روز بھی وہ خندہ پیشانی سے ملے اور میری بھرپور رہنمائی کی، اس کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر آصف فرخی صحت افزا مقامات کی سیر کو روانہ ہوئے ان کی صحت اور ازدواجی زندگی کے متعلق مختلف خبریں سننے کو ملتی رہیں مگر میں کبھی جرات نہ کر سکی کہ ان سے اس کے متعلق پوچھوں۔ فون پر وہ اسی خوشگوار انداز میں ہی بات کرتے تھے۔

ایک دلچسپ ملاقات 2019 میں ہوئی جب میں کراچی گئی تو انہوں نے مجھے حبیب یونیورسٹی کراچی آنے کی دعوت دی جب میں یونیورسٹی پہنچی تو وہ خود یونیورسٹی گیٹ پر پہنچے ہوئے تھے اور کہنے لگے دوپہر ہو رہی ہے آپ کو بھوک لگی ہوگی آؤ پہلے آپ کو کچھ کھلا دوں پھر ہم یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں آگئے انھوں نے اپنے اور میرے لئے آرڈر خود اٹھایا مجھے شرمندگی بھی محسوس ہوئی مگر اپنائیت کا احساس غالب تھا، پھر جو بھی ملنے والا وہاں سے گزرتا خوشی خوشی اس سے میرا تعارف کراتے پھر انہوں نے پوری یونیورسٹی سیمینار رو مز اپنا آفس اور لائبریری دکھائی لائبریری کے ریڈنگ رومزجہاں وہ اپنے طلبہ سے خود بھی اشاروں میں بات کرنے لگے تھے اور باہر آکر بتایا کہ اس ایریا میں بات کرنا منع ہے، اس دوران انہوں نے بتایا کہ وہ کس پریشانی اور تکلیف سے گزرے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا اظہار کیا کہ اس عمر میں اس صدمے کوبرداشت کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی تھی۔

اس بار بھی انہوں نے مجھے چار کتابوں کا تحفہ دیا جن میں ایک کتاب حسن منظر کی کتاب وبا تھی اور کہا یہ میری پسندیدہ کتاب ہے میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے افسانوی مجموعوں کی کتاب آخری مراحل میں ہے اور ایک ہزار سے زائد صفحات ہوچکے ہیں تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے ہاں ضرور کیوں نہیں سنگ میل والوں سے بات کرنا وہ مجھے بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ ایک ہزار صفحات کا ناول لکھ کر دو، کراچی سے واپس آنے کے بعد فون پر بات چیت ہوتی رہی آخری بات ان سے 22 اپریل 2020 کو ہوئی جب میں نے انہیں بتایا کہ کتاب مکمل ہے اور مجھے اس کے بارے میں کچھ لکھ کر دیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میری ناصر عباس نیر صاحب سے بات ہوئی ہے وہ بھی اس کتاب کے لئے کچھ لکھ کر دیں گے۔ وہ بہت خوش ہوئے میں نے مجموعوں کے متن کی تصحیح کے لئے وٹس ایپ کے ذریعے ان سے مدد لی۔ انہوں نے خوشخبری دی کہ رخسانہ دس افسانے مزید ہو چکے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے جو کچھ دن گھر میں گزارے تو مجھے لگا کہ اب کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میں نے حمید شاہد سے بھی کہا ہے کہ کچھ لکھو۔ اب جیسے ہی آفس کھلیں گے آپ کو پی ڈی ایف فائل میں بھجوا دوں گا۔ پھر مجھے کہا اس بار کا دنیا زاد بہت شاندار ہے۔ اس میں ناصر عباس نیر کے اور حمید شاہد کے نئے افسانے بھی شامل ہیں۔ میں نے انہیں کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے افسانے پڑھتے پڑھتے مجھ پر اس قدر سحر طاری ہو گیا ہے کہ رات میں خوابوں میں بھی اسی فضا میں گھومتی پھرتی رہتی ہوں یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ میرے گھر بھی آئے ہیں اس پر زور سے ہنسے اور کہنے لگے وعدہ رہا جب بھی ملتان آیا تو آپ کے گھر ضرور آؤں گا۔

اس بات کو ایک ماہ گزر گیا مصروفیت کی وجہ سے بات نہ ہو سکی اور دوسرا کتاب کا کام بھی ابھی نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ناصر عباس نیر صاحب بھی کچھ مصروف تھے اس لیے میں ذرا تسلی میں تھی کہ میں انہیں پریشان نہ کروں مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ ہماری آنکھوں کو نم کر گئے مگر اردو کو ایسا اثاثہ عطا کر گئے جو کئی زاویوں سے یاد رکھنے کے قابل ہے۔

وہ صرف ادیب نہیں تھے وہ زندگی کے سفیر تھے، روشنی کے نقیب تھے، بے ریا جذبوں کے امین تھے، وہ ایسے فنکار تھے جس کے افسانوں سے پھولوں کی مہک آتی تھی ان کے ہاں رات کی رانی اور خوشبو کے سوداگر خوشبو بکھیرتے اور خوشبو بیچتے تھے، وہ ایک سچے ادیب تھے یزید کی پیاس اور کوفے کے شہری لکھنے سے نہیں گھبراتے تھے، وہ انسان کی عظمت کے قائل تھے اسی لئے تو شہر کراچی میں آنے والی خون کی بو نے اس سے نوحے لکھوا دیے، وہ تہذیب و ثقافت کی جڑوں سے اپنا رشتہ برقرار رکھے ہوئے تھے اسی لیے آنول نال پر افسانے لکھ دیے، وہ تو ابر نیساں تھے جہاں انسانیت کی فکر اور احساس کے موتی پرورش پاتے تھے، وہ دنیا زاد دنیا والوں کی آواز بھی تھا اور ان کے دکھوں کے لیے شہرزاد بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments