جادوگروں کی جادوگرنی


پاکستان میں جادوگروں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جس سے آپ جڑ جائیں توآپ کے لیے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن اگر انہیں کسی کی ضرورت ہو یا وہ کسی کو استعمال کرنا چاہیں تو وہ اپنے بندوں کے لیے تمام جرائم معاف، قانون موم کی ناک، ضابطے پائوں کی جوتی اور روایات کاغذ کے ایسے ٹکڑے بنا دیتے ہیں جنہیں کسی بھی وقت کہیں بھی پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔

اسی اصول کو مدنظررکھتے ہوئے ہماری سیاست، صحافت، عدالت اور معاشرت کے کئی نامور چہرے ان جادوگروں کے قدموں پر سر رکھ کر اس ملک خداداد میں کامیابی و سرخروئی کی منزلیں طے کر لیتے ہیں۔

پہلے پہل تو اس فہرست میں صرف پاکستانیوں کو ہی جگہ ملتی تھی مگر اب پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے نام پر غیر ملکیوں کی خدمات بھی مستعار لی جاتی ہیں۔ ایسے ہی افراد میں ایک نام امریکی ریاست لوئیزیانہ کی دوشیزہ سنتھیا ڈی رچی کا ہے۔

سنتھیا ڈی رچی اپنے تئیں پہلی بار نومبر2009 میں پاکستان کے ایک مختصر دورے پر کراچی آئی اور وہاں متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ایک ریسرچر کی حیثیت سے ملی۔

امریکہ واپسی پر سنتھیا نے پاکستانی ویزہ کے بہ آسانی حصول کے لیے امریکی شہر ہیوسٹن میں پاکستانیوں کی طرف سے بنائے گئے چیمبر آف کامرس میں جان پہچان بنائی اور یوں اس کے پاکستان آنے جانے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔

امریکہ سے سنتھیا کو نوشہرہ میں موجود ایک پاکستانی امریکن کاروباری شخصیت ڈاکٹر اشرف عباسی کے بارے میں پتا چلا۔ اشرف عباسی ہیوسٹن میں پاکستان چیمبر آف کامرس قائم کرنے والی کاروباری شخصیات میں سے ایک تھے جو ان دنوں کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر امریکہ چھوڑ کر اپنے آبائی شہر نوشہرہ منتقل ہو چکے تھے۔

سنتھیا نے ان سے ان کے فیس بک پیج پر رابطہ کرکے ان دنوں سیلاب کے شکار نوشہرہ کے عوام کے لیے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اسے خوش آمدید کہا گیا یوں وہ پاکستان میں فلاح و بہبود کے کاموں سے منسلک ہوگئی۔ پتا نہیں اس وقت اس کے دل میں کیا تھا لیکن وہ مانسہرہ، ایبٹ آباد اور کوہستان کے علاقوں میں جانے کی بڑی خواہشمند تھی۔

یہ وہ دور ہے کہ جب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی ادارہ سی آئی اے بھی انہی علاقوں میں سال2011 کے آپریشن کی خفیہ تیاریوں میں مصروف تھا جس کا ذکر سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ لیون پینٹا بھی اپنی خودنوشت میں کر چکے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے محض چند ماہ قبل سنتھیا ڈی رچی کو ایبٹ آباد میں انٹیلی جینس بیورو کے اہلکاروں نے روکا اور اسے فوری اس علاقے سے نکل جانے کا کہا گیا۔

سنتھیا رچی کا ویزہ ختم ہورہا تھا لہٰذا اس نے ویزے کی توسیع کے لیے ڈاکٹر اشرف عباسی سے مدد کی درخواست کی جنہوں نے اپنے قریبی عزیز موجودہ وفاقی وزیر اعظم سواتی سے رابطہ کیا۔ اعظم سواتی نے سینیٹ میں اپنے دوست اور اس وقت کے وزیر داخلہ سینیٹر رحمٰن ملک سے فون پر سنتھیا کی سفارش کی، بعد میں اعظم سواتی کی بیٹی سنتھیا ڈی رچی اور ڈاکٹراشرف عباسی کے ہمراہ رحمٰن ملک سے ان کے دفتر میں ملی۔

یہ وہ موقع تھا کہ جب سنتھیا کسی پاکستانی وزیر سے پہلی بار مل رہی تھی۔ رحمٰن ملک نے فوری ویزہ دینے کے بجائے ویزہ درخواست کو انٹیلی جینس کلیئرنس کے لیے معمول کے عمل سے گزارنے کا حکم دیا۔

اسی دوران اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں امریکی دوشیزہ کی ملاقات اس وقت کے وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین سے بھی ہوئی جو جلد ہی باہمی قربت میں بدل گئی۔ یوں اس کے پیپلز پارٹی حکومت کے اہم عہدیداروں کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوا اور وہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی مختلف تقاریب میں ملی۔

مخدوم شہاب الدین سے سنتھیا رچی کے معاملات خراب ہوئے تو انہوں نے اسے دی گئی رہائش کی سہولت واپس لے لی۔ سنتھیا اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان سے بھی جا ملی جنہوں نے ایک دوست کو کہہ کر اس کی رہائش کا بندوبست کرا دیا۔

پاکستان آتے جاتے اس نے اسٹیبلشمنٹ سے بھی اپنے گہرے تعلقات استوار کیے۔ اس دوران سنتھیا نے خود کو ایک ڈاکیومینٹری فلم میکر کے طور پر متعارف کرایا یوں اسے ڈاکیومینٹری بنانے کے نام پر مختلف اداروں سے پیسے بھی دلائے گئے جبکہ اہم اور حساس مقامات پر بھی لیجایا گیا۔ سنتھیا ڈی رچی قومی منظر نامے پر اس وقت آئی جب اس نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو پر اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ کے ذریعے غیر اخلاقی اور نازیبا الزامات عائد کیے۔

پیپلز پارٹی نے اس پر ردعمل کے طورپر ایف آئی اے سے رجوع کیا تو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین پر جنسی ہراسگی جبکہ سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک پر زیادتی کے الزامات لگا دیے گئے۔

ایف آئی اے میں سنتھیا نے بینظیربھٹو پر لگائے الزامات کا کوئی جواب تو نہ دیا تاہم یہ انکشاف ضرور کیا کہ وہ کچھ اداروں کی مدد سے پیپلز پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک حیران کن بات ہے۔ ایک غیر ملکی خاتون کو کس طرح پاکستان میں رہ کرپاکستان کی ہی سیاسی جماعتوں کے خلاف تحقیقات کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟

تادمِ تحریر سنتھیا اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعے مختلف سیاسی شخصیات بالخصوص پیپلز پارٹی پر الزامات عائد کر رہی ہے۔ اس کے الزامات کی تحقیقات ضرور کرائیں مگر ان جادوگروں کے خلاف تحقیقات بھی ہونی چاہئیں کہ جن کی دوستی کے باعث پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم یہ عورت ایسا گند اچھال رہی ہے جو کل کلاں خودجادوگروں کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی جادوگروں کو امریکی جادوگرنی ٹکر گئی ہے۔

(مصنف کی خصوصی اجازت سے شائع کیا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments