لگڑ بگے صفت انسان


لاہور کے ایک نجی سکول کے کچھ اساتذہ کے بارے میں سنا کہ وہ مبینہ طور پر سکول کی بچیوں کو ہراساں کرتے رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ گند ہے جسے ہم قالین کے نیچے چھپاتے آئے تھے۔

اس معاملے میں زیادہ پریشانی اس بات کی ہے کہ بظاہر ان سکولوں میں اس طبقے کی بچیاں پڑھتی ہیں جنھیں امیر اور بااختیار اور کبھی کبھار ’بگڑی ہوئی لڑکیاں‘ تک کہا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ بگڑی ہوئی لڑکی ہمارے معاشرے میں اس لڑکی کو کہتے ہیں جو ایک نیک اور شریف ترین پاکستانی لڑکے سے بھی دس فیصد زیادہ مہذب ہوتی ہے۔

یعنی اپنے تئیں جو اپنے لیے آواز بلند کرنے والی اور مضبوط ترین لڑکیاں ہم نے تیار کیں اور انھیں پڑھانے کے لیے جن بظاہر مہذب ترین اساتذہ کا انتخاب کیا وہاں بھی معاملہ وہی رہا جو کچے کے کسی علاقے میں رہنے والی خوفزدہ بچی اور بااختیار مرد کے درمیان ہوتا ہے۔

ہمارا سماجی تجربہ ناکام ہو گیا۔ ہماری بچیاں اسی طرح خوفزدہ اور خاموش رہیں یہاں تک کہ کئی برس بعد اس کھولتے ہوئے پھوڑے کا منہ کھلا اور ایک کے بعد ایک شکایت سامنے آئی۔

یہ واقعات ایک دن میں پیش نہیں آئے، یہ کئی سال یا شاید کئی صدیوں پہ پھیلی کہانی ہے۔ ہمارے معاشرے کے زیادہ تر مرد اسی قدر غلیظ اور موقع پرست ہیں۔

ان اساتذہ میں سے کچھ میرے جاننے والے بھی ہیں لیکن مجھے ان بچیوں کی باتوں پر یقین کرنے میں ایک لمحے کی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ میں پاکستانی مردوں کی ذہنیت سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ لگڑ بگے صفت انسان ہیں جو شیر کے بچوں پر حملہ کرنے سے باز نہیں آتے، ان کی بھوک، زندہ، مردہ، حلال، حرام، کسی شے کی تمیز نہیں کرتی۔

صوبائی وزیر تعلیم مراد راس صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں مبینہ مجرموں کی تصاویر دکھائیں اور کہا کہ کوئی ایک بھی بچی یا اس کے والدین ان کے پاس با ضابطہ شکایت لے کر نہیں آئے ہیں۔

مراد راس صاحب کا جذبہ قابل قدر ہے لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ کس ملک، کس معاشرے کی بات کر رہے ہیں؟ یہاں ٹھوکر پلنگ کے پائے سے لگتی ہے اور گالی پلنگ بنانے والے کی ماں بہن کو دی جاتی ہے۔

اس معاشرے میں کون اپنی ماں بہن کو لے کر ایک جنسی درندے کے خلاف شکایت درج کرانے آئے گا؟

یہ بچیاں جن عمروں میں ہیں وہاں ماں باپ کو یہ ہی فکر ہوتی ہے کہ سکول ختم ہو، یونیورسٹی شروع ہو، اچھا رشتہ آئے اور پڑھتے پڑھتے لڑکی کی شادی کر دی جائے، باقی تعلیم شادی کے بعد مکمل ہوتی رہے گی۔

اس خوف اور ہڑبونگ کے پیچھے یہ ہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کی بچی پر کسی قسم کا الزام نہ لگ جائے۔ جی ہاں!

ہمارے معاشرے میں اگر کوئی استاد کسی بچی کو ہراساں کرے اور وہ یہ بات کسی کو بتائے تو الزام بچی ہی پر لگتا ہے۔

مراد راس صاحب نے ایک اور درخواست بھی کی کہ لڑکیوں کے سکول میں مرد اساتذہ کو نہ رکھا جائے۔ مگر اس بات کا کیا علاج کہ ان ہی سکولوں کی خواتین ایڈمنسٹریٹرز بھی مبینہ طور پر اس جرم کو چھپانے میں شامل تھیں؟

تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ آج اگر پاکستان کی پڑھی لکھی خواتین سے حلف لیا جائے اور ان سے سچ بولنے کو کہا جائے اور وہ سچ بولیں تو یقین جانیے کہ وہ چہرے بے نقاب ہوں گے کہ آپ کے تصور سے باہر ہیں۔

پروفیسرز، کالجوں اور اکیڈمیوں کے اساتذہ، ٹیوشن سنٹرز والے، گھر آ کے پڑھانے والے ماسٹر جی، پی ایچ ڈی کا تھیسس کرانے والے بگلا بھگت ڈاکٹر صاحب، ڈرل کرانے والے سر پی ٹی اور حد یہ کہ قرآن پڑھانے آنے والے قاری صاحب بھی۔

کون ہے جو بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور اپنا مستقبل بنانے سے روکنے کے لیے نہ تلا ہوا ہو؟

یہاں راہ چلتا بھی سکول جاتی بچی دیکھ کر درندے کا روپ دھار لیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا کالج جیل روڈ پر تھا اور جن درختوں کے نیچے لڑکیاں کھڑی ہو کے بس کا انتظار کرتی تھیں وہیں کچھ لڑکوں نے آکے اپنے زیر جامے اتار دیے۔

لڑکوں کے خلاف ایکشن لیا گیا مگر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ان ہی بچیوں میں سے ایک نے گھر جا کے بتایا تو اس کی ماں نے اسے کالج سے اٹھا کے گھر بٹھا لیا کہ تمہارے ابو سر پر نہیں کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو میں خاندان کو کیا منھ دکھاؤں گی؟

وہ لڑکے کہیں گھوم رہے ہوں گے اور انھیں یاد بھی نہ ہو گا کہ کبھی تشریف پر پولیس سے ڈنڈے پڑے تھے اور اگر یاد ہو گا بھی تو لڑکپن کی ایک دلچسپ شرارت کے طور پر سناتے ہوں گے۔

یونیورسٹی میں نمبروں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی شرط کسے معلوم نہیں؟ پی ایچ ڈی کی قیمت کیا ہے؟ کون نہیں جانتا؟ کس قدر کہانیاں، گذشتہ برسوں میں بیان کی گئیں، کتنے چہرے سامنے لائے گئے، کتنے لوگ مجرم نکلے، کیا اب بھی کسی کو شکایت کرنے کی ضرورت ہے؟ اور کیا ان چار اساتذہ کے نکال دینے سے لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات کم ہو جائیں گے؟

نہیں ہوں گے۔ معاشرے میں بگاڑ رات بھر میں نہیں آتا تو سنوار بھی جادو کی چھڑی سے ممکن نہیں۔ جن بچیوں نے یہ ہمت کی وہ قابل تحسین ہیں لیکن معاملہ حل تب ہو گا جب والدین اور لڑکیاں ڈرنا چھوڑ دیں گے۔

جب معاشرے میں جنسی بھوک کا برملا اظہار کرنے والے ان رنگے سیاروں کو عزت دینے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور اس بات کی شکایت کرنے والی لڑکیوں کو عزت ملنا شروع ہو گی۔

مجھے اپوا کالج کی وہ استانی بھی یاد ہیں جو شام کو ایک مضبوط سی لکڑی لے کر واک پر نکلتی تھیں اور سرعام موتنے والے مردوں کو ڈانٹتی تھیں۔ وہ بطور استانی اپنا فرض سمجھتی تھیں کہ معاشرے کے اس بگاڑ کو روکا جائے۔

آج کتنے لوگ ہیں جو کسی معاشرتی بگاڑ کو دیکھ کے آگے بڑھتے ہیں؟ خاص کر ہمارے معاشرے کے مرد، یہ سب اساتذہ اپنی ان حرکتوں کا ذکر لازمی اپنے دوستوں میں فخریہ کرتے ہوں گے؟ کیا کسی نے ہمت کی کہ ان کا سماجی مقاطعہ کیا جائے؟

جب تک آپ اپنے دوست، کولیگ یا ساتھی سے اس کی جنسی فتوحات یا عورتوں کے ساتھ روا رکھی ہوئی دیگر بد تمیزیوں کا ذکر سن کے لطف لینے کی بجائے اس کے منھ پہ طمانچہ مارنے کی ہمت پیدا نہیں کریں گے یہ معاشرہ نہیں سنور پائے گا۔

آج یہ جنگ کسی اور کی بیٹی لڑ رہی ہے کل یہ آگ آپ کے گھر بھی آ سکتی ہے، یہ بچیاں ہراول دستہ ہیں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں، بد تمیز مردوں سے سختی سے نمٹیں اور ان کا مقاطعہ کریں تاکہ کل یہ جنگ آپ کو اور آپ کی بیٹی کو نہ کرنی پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).