رشید مصباح کے لئے


”کبوتر بازی اور غزل بازی میں کیا فرق ہے“ جب تین چار شاعر اکٹھے ہو جاتے اور کوئی اپنے نئے شعر سنا رہا ہوتا تو وہ درمیان میں یہ سوال اچھالتا۔ غزل دھری کی دھری رہ جاتی اور بحث شروع ہو جاتی۔ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے مخصوص انداز چچلی انگلی میں سگریٹ پھنسا کر مٹھی سے زور دار کش لگاتا۔ ایسا بارہا ہوا اور شاعر ہر بار اس کے جال میں پھنس گئے۔ بات ویسے پھینکنے والی نہیں کہ کبوتر بازی اور غزل کہنے کے عمل میں کیا مماثلت ہے؟

کبوتر اڑانے کے فن میں بھی مخصوص گردانوں میں مہارت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ کہ کس آواز کی گردان سے کبوتر اڑانے، لڑانے یا بلانے ہیں اسی لئے ایک زمانے میں عروض کے ماہر اساتذہ اور شعرا کبوتر بازی کے بھی رسیا ہوتے تھے۔ اس نے اپنی زندگی بھی ایک بازی کی طرح گزاری۔ اس کی زندگی اتار چڑھاؤ کا ایک ردھم تھی لیکن کورونا کی وبا کے سامنے بے بس ہو گیا۔ زندگی تھم سی گئی۔ لوگ گھروں میں مقید ہو گئے پڑھنے پڑھانے سے جو زندگی کی ڈور جڑی تھی وہ بھی ٹوٹنے لگی تھی۔

پاک ٹی ہاؤس انارکلی اور ناصر باغ کی محفلیں اجڑے ویسے ہی عرصہ ہو گیا۔ وبا نے نہیں زندگی نے رشید مصباح کو مار دیا۔ گزشتہ کچھ ہفتوں سے اب فیس بک کھولتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ فیس بک اموات کا روزنامچہ بن گئی ہے۔ پہلے باکمال شاعر محمد خالد کی خبر آئی پھر آصف فرخی، ناصر زیدی اور اب رشید مصباح۔ یہ تو شعر و ادب سے جڑے احباب تھے۔ باقی حلقہ ہائے احباب کی جانب سے بھی کوئی ہواکا خوش گوار جھونکا نہیں آتا۔ موت شاید اتنی ہی ارزاں تھی۔

وبا نے بس نظروں کے سامنے سے ایک پردہ اٹھا دیا۔ زندگی اور موت کا ردھم۔ اب تو اسے گزارنے کے لئے غزل کے دو مصرعوں کے درمیان کا سا توازن چاہیے۔ رشید مصباح ایک نڈر انقلابی، کٹیلا نقاد اور بھڑکیلا افسانہ نگار تھا۔ اس کی کتابوں اور افسانوں کے عنوان ایک باغی کا پتہ دیتے تھے، سوچ کی داشتہ، اور ننگے درخت، وہ اپنے آپ کو ایک انقلابی سیاست دان سمجھتا رہا۔ انقلابی جماعتیں بھی بنائیں، لیکن یہ محض مغالطہ ہی تھا کہ وہ سیاستدان ہے۔

ایک سیدھی سمت میں سوچنے والا۔ کڑھ کڑھ کر سماجی سائنسدان تو بن سکتا ہے لیکن سیاستدان نہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے جلسے الٹ سکتا ہے نظام کو تلپٹ نہیں کر سکتا۔ حلقہ اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے انتخابی عمل کو متاثر کر سکتا ہے لیکن قومی انتخابی عمل پر محض رائے زنی کر سکتا ہے۔ جو گزر جائے اس کی اچھی باتیں بھی کرنی چاہیں۔ جوانی کے اوائل میں رشید مصباح کو یوگا کا شوق بھی چرایا تھا۔ پروفیسر طارق اور ڈاکٹر عالم کے ساتھ ریواز گارڈن کے فلیٹ میں رہتا تھا۔

اپنے اس شوق کی وہ اپنے دوستوں کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ صبح سویرے اٹھتا اور انارکلی کے تھڑے سے خریدی ہوئی ایک سستی کتاب یوگا سیکھئے کھول کر سامنے رکھتا اور مختلف آسن بنا کر ورزش کرتا۔ ایک دن ڈاکٹر عالم کی آنکھ جلدی کھل گئی۔ کیا دیکھا کہ رشید مصباح سادھو کے آسن میں بیٹھا ہوا میں اڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں کی نظریں ملیں تو رشید مصباح نے کھسیانے انداز میں پوچھا ”عالم یہ یوگا کس نے شروع کی تھی؟

” ڈاکٹر عالم نے جواب دیا یوگا شروع کس نے کی یہ تو پتہ نہیں، البتہ خاتم تو ہی ہے“ رشید مصباح چلا گیا۔ لاہور کے ادبی حلقوں کا ایک باب تمام ہوا۔ وہ ساری زندگی زمانہ ساز، آمروں اور مقتدر طبقے کے کاسہ لیس ادیبوں اور شاعروں کا کٹر مخالف رہا اور جہاں موقع ملتا، آواز بلند کرتا۔ وہ ”یس سر“ کے عہد میں ”نہیں جناب“ کی صدا بلند کرتا رہا۔ رشید مصباح ایک باوقار آدمی تھا، انا پرستی میں گندھی شخصیت کے اندر ایک انسان دوست اور دوست پرست روح چھپی تھی۔

اس کی محبتیں اور مخالفتیں دوستوں کے ساتھ تھیں۔ یہ جاوید آفتاب سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ دونوں اکٹھے رہے، لڑتے رہے کبھی دوسرے سے کبھی مل کر دوسروں سے۔ جاوید آفتاب میں رشید مصباح کی روح ہے۔ جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو کہانی کاروں کی تنظیم میں رشید مصباح کے حوالے سے بے سروپا خبروں کا پتہ چلا۔ یہ واٹس اپ گروپ ناول نگار عاصم بٹ نے بنایا ہے اور بڑے کام کا گروپ ہے۔ رشید مصباح کے متعلق ایک دوست آدم شیر نے اس کے دوستوں کے تعزیتی پیغامات اکٹھے کر دیے۔

چند ایک ملاحظہ فرمائیں : خالد فتح محمد نے لکھا کہ رشید مصباح ایک باکردار اور حق گو تھا۔ سید کاشف رضا: رشید مصباح صاحب شاید مجھے جانتے بھی نہ ہوں مگر ان کے بارے میں ایک ایسی رائے پڑھی کہ ایک گواہی کے لیے خود کو مجبور پاتا ہوں۔ سات آٹھ سال پہلے میں لاہور گیا تو ایک دوست ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں لے گیا۔ اس روز وہاں ذکاء الرحمان اور رشید مصباح میں اس بات پر بحث ہو گئی کہ ادب کو ترقی پسندی کے پیمانے سے آنکا جائے یا نہیں۔

خیر ذکر اس بات کا کرنا تھا کہ اجلاس کے بعد شرکاء میں سے نصف کی ٹولی خراماں خراماں لاہور فوڈ اسٹریٹ کی جانب چلی۔ فاروق خالد بھی ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور ایک سائیکل ان کے ہم راہ تھی۔ میں ان کے ساتھ پیدل اس ٹولی کے پیچھے پیچھے چلا۔ فوڈ اسٹریٹ پہنچ کر سب کے لیے کھانے کا آرڈر دیا گیا۔ شرکاء اتنے زیادہ تھے کہ انھیں دو میزوں کے اردگرد بیٹھنا پڑا۔ کھانے کے بعد سب ادیب ہاتھ جھاڑ کر چلنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ ہم سب کے کھانے کا بل رشید مصباح ادا کر رہے تھے۔

مجھے حیا آئی اور میں نے ان سے کہا کہ پیسے زیادہ بنے ہوں گے، کچھ میں ادا کر دوں مگر انھوں نے سختی سے انکار کر دیا۔ میں ان کا دوست نہیں تھا نہ ان کی کتابیں پڑھیں مگر جو آنکھوں دیکھا وہ آپ تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ ”ناصر علی : رشید مصباح دوستوں پر خرچ کرنے والا انسان تھا، اپنے نظریات کے ساتھ مدلل انداز میں جڑا اور جذباتی انداز میں دفاع کیا کرتا تھے، ترقی پسندی ان کی نس نس میں رواں تھی، بہت کم پائے جاتے ہیں اس نوع کے انسان۔ ۔ ۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments