پاکستان کو ایٹم بم کی کیا ضرورت ہے؟


\"abdulکسی بھی ملک کو اپنی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لئے فوج اور ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے ہمسایے جارحیت کے متمنی ہیں تو اسے اپنا دفاع مضبوط رکھنا پڑتا ہے۔ جنگ کا بنیادی اصول ہے کہ جس کے پاس اسلحہ زیادہ ہو گا، جیت اسی کا مقدر بنے گی۔ مئی سنہ 1974 میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مطابق یہ دھماکہ ’پرامن‘ مقاصد کے لیے تھا۔ بھارت اس سے قبل 1962 میں شمالی محاذ پر چین اور 1965 میں مغربی محاذ پر پاکستان سے جنگ کر چکا تھا۔ چین سے شکست کھانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ بہتری آئی تھی۔ پاکستانی فوج کو 1971 کی جنگ میں شکست دینے اور کئی ہزار فوجی تحویل میں لینے کے بعد بھارت کو مغربی محاذ سے اس وقت خطرہ نہیں تھا۔ اس ایٹمی دھماکے نے پاکستانی پالیسی سازوں کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششیں بڑھانے کی ترغیب دی۔ جوہری ہتھیار بنانے کا روایتی طریقہ پیچیدہ اور صبر طلب تھا لہٰذا یورپ میں دریافت کئے جانے والے ایک مختلف طریقے کے بلیو پرنٹ عبدالقدیر خان کے ذریعے پاکستان پہنچے اور یہ بیل منڈھے چڑھی۔ دس سال کی محنت اور چوری چکاری (چونکہ عالمی طاقتیں مزید ممالک کے پاس ایٹم بم نہیں دیکھنا چاہتی تھیں) کے بعد پاکستان جوہری صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ ایٹم بم بنانے کا بنیادی مقصد Deterrence حاصل کرنا تھا۔ اس انگریزی اصطلاح سے مراد ہے طاقت کے مظاہرے کی بنا پر غنیم کو جارحیت سے روکنا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سویت یونین نے بہت سے ایٹم بم اس لئے بنائے تاکہ دوسرا فریق حملہ کرے تو اس کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جا سکے۔ ایٹم بم اصل میں چلانے کے لئے نہیں بلکہ ڈرانے کے لئے بنائے جاتے ہیں

(اسی وجہ سے انہیں پر امن بم بھی کہا جاتا ہے)۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے ہولناک تجربے کے بعد دنیا بھر کے ممالک ایسے کسی ایڈونچر سے خوفزدہ ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم بنانے کا بنیادی مقصد بھارت کو جار حیت سے باز رکھنا تھا لیکن بعد ازاں ایک نئی حکمت عملی تیار کی گئی۔ اس نئی حکمت عملی کے مطابق چونکہ پاکستان کی جوہری صلاحیت کے باعث بھارت ہم پر براہ راست حملہ نہیں کر سکتا لہٰذا ہم غیر سرکاری طاقتوں کے ذریعے بھارت میں انتشار پھیلا سکتے ہیں اور بھارت صرف ہمارا منہ چڑا سکے گا۔ اس حکمت عملی کا مظاہرہ کارگل، لوک سبھا پر حملے، ممبئی پر حملے اور ماضی قریب میں پٹھان کوٹ اور اڑی کے مقامات پر ہوا۔

دسمبر سنہ 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر پانچ دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں جیش محمد اور لشکر طیبہ کی شرکت کے شواہد ملے تو پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہوئے۔ دونوں ممالک کی فوجیں دس ماہ سرحد پر آمنے سامنے کھڑی رہیں اور کسی بھی موقعے پر جنگ شروع ہو سکتی تھی۔ اس تنازعے کو بھارت میں Twin Peaks کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیوبن میزائل کرائسس(1962) کے بعد پہلی دفعہ دو جوہری طاقتیں میدان جنگ میں مد مقابل تھیں۔ بھارتی منصوبہ سازوں نے اس واقعے کے بعد Cold Start Doctrine نامی ایک خفیہ حکمت عملی تیار کی۔ اس حکمت عملی کے مطابق لوک سبھا پر حملے جیسے واقعات کی صورت میں بھارت پاکستان کے خلاف محدود جارحیت کا مظاہرہ کرے گا۔ اس محدود جارحیت کا مقصد پاکستان کو بہت کم وقت میں مخصوص مقامات (جیسے مرید کے یا بہاولپور کے مخصوص علاقے) پر سزا دینا تھا تاکہ پاکستان کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا جواز نہ مل سکے۔ دراصل Twin Peaks کے دوران بھارتی افواج کو سرحد تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا تھا اور جنگ کی صورت حال میں رفتار کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں نے جواب میں Tactical Nuclear Weapons تیار کرنے شروع کئے۔ یہ چھوٹے درجے کے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا مقصد میدان جنگ میں انہیں بھارتی افواج کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ ان ہتھیاروں کا حجم چھوٹا ہے لہٰذا جانی نقصان کم ہو گا اور بھارت کو ایٹم بم چلانے کا جواز نہیں ملے گا۔ کچھ ذرائع کے مطابق یہ ہتھیار اس لئے بنائے گئے ہیں کہ اگر بھارتی افواج سرحد پار کر کے پاکستان کی حدود میں آ جائیں تو یہ بم پاکستانی سرزمین پر گرائے جا سکیں۔ اڑچن یہ ہے کہ برصغیر جیسے گنجان آباد علاقے میں جوہری بم چلانے کا مطلب دو طرفہ تباہی (Mutually Assured Destruction) ہے۔ ہم روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے ہم نے جوہری ہتھیار بنا لئے ہیں۔ اب ہم بھارت پر حملے کریں گے، سیاست دانوں کو ’قومی سلامتی کے لئے رسک‘ قرار دیں گے اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر دنیا کا منہ چڑائیں گے۔

دروغ بر گردن راوی، کچھ سال قبل راولپنڈی جی ایچ کیو میں سیاچن سے فوجوں کے انخلاء اور وہاں ایک پارک کی تعمیر کے منصوبے پر بات ہو رہی تھی۔ اس دوران ہم جیسے ایک سویلین نے بھارت کی فوجی برتری کا ذکر کیا تو ایک جرنیل صاحب چنگھاڑے: ’اگر انہوں نے ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم بنگلور کو ایٹم بم سے تہس نہس کر دیں گے‘۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments