انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی: کشمیری ٹِک ٹاک ستاروں پر اس پابندی کا کیا اثر ہوا ہے؟


ٹک ٹاک

بھارت میں ٹِک ٹاک سمیت درجنوں چینی ایپس پر پابندی کے بعد کشمیر کے ٹکِ ٹاک ستارے مایوس نظر آتے ہیں۔

بالی وڈ کی چند فلموں اور کئی ٹی وی سیریلز میں اپنی اداکاری کا مظاہرہ کرنے والی ثانیہ میر کہتی ہیں کہ دیگر درجنوں ٹِک ٹاک ستاروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی روز یہی دعا کرتی ہیں کہ انڈیا اور چین کے درمیان تنازعہ ختم ہو جائے تاکہ ٹِک ٹاک پر لگی پابندی ہٹائی جائے۔

اُنھیں حیرت اس بات پر ہے کہ وہ اب تک نہیں جانتی تھیں کہ ٹِک ٹاک ایک چینی ایپ ہے۔

ثانیہ میر کہتی ہیں کہ ’فیس بُک ہو، واٹس ایپ ہو، انسٹاگرام ہو یا ٹِک ٹاک۔ اُدھر پوری دُنیا کے لوگ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔

’وہاں کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ میں ٹِک ٹاک پر اتنی سرگرم تھی اور مُجھے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ یہ چینی ایپ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ٹک ٹاک پر پابندی سے انڈیا کو کیا حاصل ہوگا؟

ڈیوڈ وارنر: ہاں ہم اپنا دماغ کھو چکے ہیں

وہ دہائی جس میں سوشل میڈیا نے زندگیاں بدل کر رکھ دی

ثانیہ کا کہنا ہے کہ روزانہ صبح ٹِک ٹاک ایپ کھولتی ہوں، ویڈیو بناتی ہوں لیکن پھر مایوس ہوتی ہوں کہ اسے اپ لوڈ نہیں کیا جا سکتا۔

’مجھے اگر سلمان خان اور دوسرے بڑے لوگوں سے ملاقات کرنے اور اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو یہ ٹِک ٹاک پر میری موجودگی سے ہی ممکن ہوا۔ ‘

خیال رہے کہ لداخ میں انڈیا اور چین کی سرحد پر ایک جھڑپ میں 20 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی اپپس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

علی بابا گروپ کے یو سی براوٴزر، فیشن ایپ شائن اور بائیڈو میپس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

کشمیر

ثانیہ کا کہنا ہے کہ روزانہ صبح ٹِک ٹاک ایپ کھولتی ہوں، ویڈیو بناتی ہوں لیکن پھر مایوس ہوتی ہوں کہ اسے اپ لوڈ نہیں کیا جا سکتا۔

ثانیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ آج کل پابندی کی وجہ سے ٹک ٹاک پر کچھ اپ لوڈ تو نہیں کرسکتی ہیں لیکن وہ ویڈیو ضرور بناتی ہیں تاکہ جب پابندی ہٹے گی تو یہ سبھی یادیں اپ لوڈ کی جا سکیں۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک نوآموز اداکاروں کے لیے ایک ایکٹنگ سکول کی طرح ہے۔ ’وہاں سینیئر اداکار ہوتے ہیں، ایڈیٹر ہوتے ہیں۔ وہ ہمارا کام دیکھتے ہیں، ہماری غلطیاں نکالتے ہیں، ہمیں سکھاتے ہیں، اور یہ سب چند منٹوں میں ہوجاتا ہے۔‘

آصفہ بھی ایک سرگرم ٹِک ٹاک یوزر ہیں۔

اُنھیں بھی پابندی کے تازہ حکم سے شدید مایوسی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کشمیر ویسے بھی اب ایک قید خانہ ہے۔ اُس پر یہ کورونا وائرس۔ لوگ گھروں میں ہیں، چاروں طرف گھٹن ہے۔ ایسے میں ہماری ویڈیوز دیکھ کر لوگوں کو چند لمحوں تک راحت ملتی تھی۔‘

آصفہ کا کہنا ہے کہ ’اب ہمارے پاس ہے بھی کیا۔ انٹرنیٹ بھی سُست رفتار والا ’ٹو جی‘ ہے۔ ہم ویڈیو بنا کر گھنٹوں تک اپ لوڈ کرتے تھے لیکن اب سب ختم ہو گیا۔‘

جُنید میر بھی ٹِک ٹاک پر کافی مقبول ہیں۔

وہ عام زندگی کے ہلکے پھلکے تجربوں پر طنزیہ اداکاری کر کے لوگوں کو تفریح مہیا کرتے ہیں لیکن ٹِک ٹاک پر پابندی نے اُنھیں بھی سنجیدہ کردیا ہے۔

کشمیر

عام زندگی کے ہلکے پھلکے تجربوں پر طنزیہ اداکاری کر کے لوگوں کو تفریح مہیا کرتے ہیں لیکن ٹِک ٹاک پر پابندی نے اُنھیں بھی سنجیدہ کردیا ہے

وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی فضول کام بھی نہیں ہے، ہمارے یہاں ٹِک ٹاک کئی لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بن رہا تھا۔ کسی کے دس لاکھ سے زیادہ فالورز ہوں تو ٹِک ٹاک سے اُسے باقاعدہ ماہانہ فیس ملتی ہے۔

جنید میر کا کہنا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ ایسا کیوں ہوا حالانکہ ٹک ٹاک کمپنی نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے انڈیا کو تیس کروڑ روپے کا عطیہ بھی دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا نے عطیہ تو لے لیا مگر ایپ پر پابندی عائد کردی۔

لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے ان ستاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد موسیقی، اداکاری، مصوری، ماڈلنگ اور گلوکاری کی طرف مائل ہے لیکن مناسب ماحول اور مواقع کی کمی سے ایسے نوجوان ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے ایسے فنکاروں کے لیے ایک سٹیج مہیا کردیا تھا لیکن کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی اور اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر قدغن نے اِن نوجوانوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp