رشید مصباح۔ دلچسپ و عجیب شخص


لکھاری لوگ بہت ہی عجیب ہوتے ہیں، چاہے وہ کچھ بھی نہ لکھتے ہوں۔ اردو لکھاریوں میں آج کل سب سے پہلے مطالعہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اس سے شاید انھیں لکھنے میں آسانی ہوتی ہے جو بندھے ٹکے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہو، باقی کام سیلف سنسر شپ کر دیتی ہے۔ اس طرح کوئی بھی ایسا عنصر تحریر اور لکھاری کی شخصیت سے خارج ہو جاتا ہے جو ذرا سی بھی ہلچل پیدا کر سکتا ہو۔ ہاں اردو ادب میں جنسی واقعات یا جسم نگاری کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔

نقادوں نے بھی اسی معاشرے اور انھی لکھاریوں میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی اسی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ اور زیادہ تر نقاد تو ویسے بھی ”استاد“ ہیں جو 1980 ء یا 1990 ء کی دہائی والے نوٹس ہی طلبا کو رٹائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پروفیسر ہود بھائی نے اپنے استعفے میں ذکر کیا ہے کہ فزکس کے ایک پروفیسر صاحب کے نوٹس پر 1976 ء کی تاریخ تھی۔ حالانکہ فزکس میں تو سال بہ سال بہت کچھ بدلتا اور نیا شامل ہوتا رہتا ہے۔

اردو ادب میں اب غالب، میر، اقبال اور راشد وغیرہ پر کیا تبدیل ہونا ہے، اور اگر کوئی نیا زاویہ کسی ”محقق“ نے پیش کیا بھی ہے تو اسے پڑھانے کا کیا فائدہ؟ بندہ سیدھی طرح نوکری کرے، ساتھی پروفیسروں اور نوجوان لکھاری لڑکیوں اور خدمت گار لڑکوں یا شاگردوں کی کتب پر تبصرے لکھے، اور بس۔ اگر جنوبی پنجاب سے تعلق ہے تو وہاں کہ گروہ بندی پر توجہ دینا بھی زیادہ مستحسن ہو گا۔

یہی جامد رویہ آپ کے تبصرۂ کتب اور تعزیتی ریفرنسوں میں بھی نظر آتا ہے۔ کوئی کوئی مردود ہوتا ہے جو اس روش سے ہٹنے کی کوشش یا ہمت کرے۔ تین چار سال پہلے ایک تقریب کے سامعین میں شامل ہونے کا موقعہ ملا جو پنجابی کی شاعرہ نسرین انجم بھٹی کی وفات پر تعزیتی ریفرنس کے طور پر اکادمی ادبیات کے دفتر (علامہ اقبال ٹاؤن) میں ہوئی تھی۔ مقررین تقریباً 5 عدد تھے اور سامعین تقریباً 15۔ کنول فیروز اور نذیر قیصر کے علاوہ رشید مصباح نے بھی بولنا تھا۔

دو تین مقررین کے بعد رشید مصباح کی باری آئی۔ اس نے اپنے مخصوص انداز کے مطابق ابتدا اس جملے سے کی کہ ”جتنا میں نسرین انجم بھٹی کو جانتا تھا، اتنا آپ سب میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔“ یہ کہہ کر سامعین پر ایک نظر ڈالی تاکہ لوگوں پر اپنی الفاظ کی کاٹ کا اندازہ لگا سکے۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کیا کرتا تھا۔ چاہے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہو، چاہے کسی محفل میں ہو یا حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں۔ وہ ہمیشہ لہجے میں تلخی بڑھاتا جاتا تھا۔

چشمے کے پیچھے آنکھیں متواتر جائزہ لیتی تھیں کہ کس کو کوئی بات کتنی ناگوار گزری ہے، تاکہ مزید ناگوار بات کرے۔ مجھے اس کا یہ انداز پسند تھا، کیونکہ یہ ”بندھے ٹکے اور قبول شدہ“ پروفیسرانہ انداز کے برخلاف تھا۔ اپنے حصے کا بول کر وہ میرے پاس آ بیٹھا اور بولا: ”کیسا کھڑکایا فیر؟ ایہہ **** **** دو نمبری کردے نیں۔“ میں نے سیگریٹ پیش کیا۔ جلد ہی تقریب رفع دفع ہو گئی۔

رشید مصباح لاہور کے حلقہ ارباب ذوق میں اس زمانے سے آتا جاتا تھا جب سنا ہے کہ نظریاتی اختلاف پر کرسیاں بھی چل جاتی تھیں، بحث ہوتی تھی، دھڑے بازی ہوتی تھی، سیاست ہوتی تھی۔ آج کی طرح نہیں کہ حلقے کا اجلاس ایوان اقبال کے پست خانے میں ہو، سب حاضرین انتظار میں ہوں اور ”صاحب صدر نماز پڑھ کر آ رہے ہیں“ کی خبر سنائی جائے۔ اور کارروائی کے دوران عشاء کی اذان ہونے پر کارروائی کچھ دیر کے لیے روک بھی دی جائے۔ پھر ایک تحقیقی مضمون ”منٹو اور فن تعمیر“ پڑھا جائے اور اس پر گفتگو مضمون سے بھی زیادہ بے وقعت قسم کی ہو۔ رشید مصباح کو ایسے اجلاس اور محافل نہایت ناپسند تھیں۔ وہ ارتعاش پیدا کرنا چاہتا اور جانتا تھا۔ طبعی ہاتھا پائی کو بھی تیار رہتا۔

سبھی شاعروں ادیبوں کی طرح رشید مصباح بھی پاک ٹی ہاؤس سے اٹھ کر پرانی انارکلی میں چائے والے کی دکان کے سامنے سڑک پر رکھی کرسیوں پر جمی محفل میں گھنٹوں بیٹھا کرتا تھا۔ رات کو دو بجے کے بعد صحافی بھی دفتر سے فارغ ہو کر کچھ دیر کے لیے وہاں بیٹھ جاتے اور جاری مناظروں میں حصہ ڈالتے۔ کر کوئی کوشش کرتا کہ محفل برخواست ہونے سے پہلے ہی اٹھ جائے تاکہ چائے کا بل نہ دینا پڑ جائے۔ دوست بتاتے ہیں کہ رشید مصباح کبھی کبھی تو خود سارے پیسے دے کر حیران کر دیا کرتا تھا۔

وہ کبھی فیصل آباد میں وارث شاہ لاء کالج کھولنے اور اس کو مہتمم اور جزوی مالک ہونے کا دعویٰ کرتا، کبھی لاہور میں ایک کامرس کالج میں حصہ دار ہونے کا۔ ان دعوؤں کی حمایت میں وہ لنڈے کے کوٹ اور عجیب و غریب رنگوں کی قمیض اور چوڑی ٹائیاں پہنا کرتا تھا جو قریب ہی نئی انارکلی کی پرانے کپڑوں والی مارکیٹ سے مل جاتی تھیں۔ ہم بھی زمانہ طالب علمی میں پچیس روپے کی شرٹ لے کر پانچ دس روپے میں اس کے کالر چھوٹے کروایا کرتے تھے۔

انارکلی والی محفل میں چودھری منیر نامی ایک وکیل بیٹھتے تھے جن کا رشید مصباح کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ وارث شاہ لاء کالج میں لیکچر دیا کریں گے۔ وہ کچھ عرصہ یہ کام کرتا رہا اور 70 ہزار روپے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ محفل میں شریک لوگوں کو اس سے زیادہ دلچسپ موقع کیا مل سکتا تھا۔ سبھی نے لڑائی کو بڑھاوا دیا۔ خیر رشید مصباح نے اتنی رقم کے جواز کو ماننے سے انکار کیا اور بہت کم کا دین دار ہونے کا دعویٰ کیا۔

کافی بحث کے بعد وہ منیر صاحب سے بولا: ”اچھا چلو، میں بات ختم کرتا ہوں۔ میں مارکسسٹ ہوں۔ ٹھیک؟ تم بھی مارکسسٹ ہو۔ ٹھیک ہے نا؟ میں قرآن اٹھا کر 70 ہزار رکھتا ہوں اور تم قرآن اٹھا کر اٹھا لینا۔“ اس پر بات ختم ہونا ہی تھی۔ بات ختم نہ ہوتی تو شاید بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی جس کو سب اور بھی زیادہ انجوائے کرتے۔

میں اپنے کام کی نوعیت، شام کے وقت سے گھبرانے اور چرس نوشی کا شوق نہ رکھنے کے باعث حلقے اور ادیبوں کی محفلوں سے دور ہی رہا ہوں۔ نیز میری رہائش بھی مرکزی شہر سے کافی دور تھی۔ جن دنوں میں شیراز راج، عاصم بٹ، مرحوم ڈاکٹر جاوید انور اور اشرف سلیم وغیرہ لاہور میں بیڈن روڈ کی ایک تاریک بلڈنگ کے اوپر والے فلور پر کمرہ لے کر محفل جماتے تھے، میں ان سے رخصت لے کر گھر کی طرف چلا جاتا۔

اس گوشہ گیری کی عادت کے باعث رشید مصباح سے میری ملاقات کبھی دو تو کبھی چار سال کے بعد ہوا کرتی تھی۔ لیکن میں اپنے نظریات کی وجہ سے اسے عزیز تھا۔ ویسے بھی کوئی بھی شخص اگر اس کے قریب تھوڑی دیر بیٹھ جاتا تو وہ مندرجہ ذیل میں سے چند باتیں ضرور بتاتا تھا: کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا، بیوی بچوں نے بہت ظلم کیا، ایجنسیاں میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں اور میری شادی ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ وہ آپ کو پانچ لاکھ سے لے کر پانچ کروڑ تک کے نقصان کا سارا حساب بتاتا۔

درمیان میں آپ کو کسی بھی قسم کی جرح کرنے کی نہ اجازت ہوتی نہ ہمت۔ آپ کچھ پوچھ بھی لیتے تو وہ درخور اعتنا نہ سمجھتا اور اپنی بات بلاتعطل جاری رکھتا۔ بات ختم ہونے پر وہ جاتے جاتے آپ سے دو سو تا پانچ سو روپے مانگتا۔ آپ انکار بھی کرتے تو اسے برا نہ لگتا۔ اس کے مانگنے کے انداز میں کوئی درخواست نہ ہوتی، بلکہ وہ دوست یا سامع کے طور پر اپنا حق سمجھ کر مانگتا۔ آپ پچاس روپے بھی دے دیتے تو لے لیتا۔ چاہے پچھلے تیس سال میں ڈالر کی سطح اور مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، لیکن وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے مانگنے تک ہی گیا۔

یہ پیسے ”مانگنا“ جو شاید ان یاریوں سے نابلد افراد کے لیے بہت معیوب بات ہو، لاہور کے ادبی کلچر کا حصہ تھا۔ پبلشروں کے پاس ایسے شاعر ادیب دیکھے ہیں جو صرف چائے کی پیالی پینے کی غرض سے وہاں آتے، یا پھر موقع پا کر کہتے، ”یار دال دی پلیٹ تے منگوا دے۔“ پرانی انارکلی کا ایک کیریکٹر محفلیں اجڑ جانے (فوڈ سٹریٹ بن جانے کے باعث) کے بعد اکثر کتابوں کی دکان اور پبلشر آفس میں آتا تھا، جو جاتے جاتے کوئی چار پانچ سو کی کتاب اٹھا کر کہتا، ”یہ میں پڑھ کر واپس کر دوں گا۔“ اور اگلے بک سیلر کو وہی کتاب دو سو روپے میں بیچ جاتا یا پھر پچاس روپے مانگ لیتا تھا۔ آپ سو روپے دیتے تو انکار کر دیتا، کہ نہیں پچاس ہی چاہئیں۔

سیمابی مزاج کی وجہ سے وہ شاید نجی زندگی کو بھی مستحکم نہ کر سکا۔ غالباً ٹیوشن پڑھنے والی ایک طالبہ سے ہی شادی کی اور گھریلو زندگی میں بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ کافی سال پہلے وہ ایک اشٹام پیپر ساتھ لیے پھرتا تھا تاکہ بیوی کو کھڑے کھڑے طلاق دینے کی دھمکی دے سکے۔

رشید مصباح جیسے کردار اب لاہور میں پیدا نہیں ہوں گے۔ وہ ایک بالکل مختلف دور کا نمائندہ تھا جس نے لیفٹ کی ہر سرگرمی میں حصہ لیا، ادبی محفلوں میں ہلچل پیدا کی، گریبان بھی پھاڑے، بہت سی گالیاں بھی دیں، اور تخلیق کیا کیا؟ وہ افسانے لکھتا تھا۔ لیکن اس کی شخصیت اتنی گوناگوں، بے ترتیب اور نرالی تھی کہ کبھی کسی نے اس کی تحریر پر بات کرنے کی زحمت کم ہی کی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی تحریروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ہی نمایاں اور قابل ذکر بنتا تھا۔

رشید مصباح کا تعارف صرف رشید مصباح ہونا تھا۔ وہ آپ کو کبھی بھی دائیں بازو کے لوگوں اور رجعت پسندوں کی حمایت کرتا ہوا نہیں نظر آ سکتا تھا۔ خود اس نے مارکسزم کو کتنا پڑھا اور سمجھا تھا، یقین سے نہیں کہا جا سکتا، لیکن گفتگو میں آپ اس کو پچھاڑ نہیں سکتے تھے۔ یہی ایک اس کا فن تھا اور اسی میں اس کو پوری قدرت حاصل تھی۔

اس دلچسپ و عجیب شخص کو آپ محض ”آہ رشید مصباح تم بہت یاد آؤ گے“ یا ”تمھاری موت سے ادب کو ناقابل تلافی نقصان ہوا“ کہہ کر ایک طرف نہیں کر دیں تو غلط ہو گا۔ ہمیں اس کو سراہنے اور جاننے کے لیے اس کے تمام رنگوں میں دیکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments