پاکستانی عورت کی جہد مسلسل


اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا مسلم ملک ہے جہاں مذہب نظریہ اور دستور میں تو موجود ہے، لیکن عملی زندگی میں ذاتی عبادات اور گناہ اور ثواب کے بھنور میں کہیں کھو سا گیا ہے۔

بات جب انسانی حقوق کی ہو، (خاص طور پر خواتین کے حقوق کی) تو اس حوالے سے نام نہاد مذہبی پیشوا ان حقوق کی تشریح صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے کرتے ہیں۔ یہ بات مایوس کن ہے کہ آزادی کے 72 سال بعد بھی، پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی حیثیت محض محکوم کی ہے۔

آئے روز ونی اور حق بخشش جیسے رسم و رواج، جبری غلامی، کم عمری کی شادی، نیز غیرت کے نام پر قتل وغارت گری، جہیز کے مطالبات اور گھریلو زیادتی کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عورت ہونا ایک مسلسل اور مستقل جدوجہد ہے۔

اپنی روزمرہ زندگی کو ہی لیجیے آپ کو ہر طرف یہی دقیانوسی سوچ اور رویے نظر آئیں گے۔ ہماری گھریلو زندگی، پیشہ ورانہ زندگی یہاں تک کہ تفریحی سرگرمیوں (ڈرامہ، فلم وغیرہ) میں بھی ”اچھی عورت“ کا تصور صرف مرد کی مطیع وفرماں بردار عورت کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جس کی زندگی کا اپنا کوئی مقصد نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اپنی آواز ہے۔ ایک ایسی عورت جو اولاد اور گھرستی کی خاطر اپنی عزت نفس، خودداری، اپنے خواب سب ایک ایسے رشتے کے لئے قربان کرنے کو تیار ہے جس میں شاید محبت تو کہیں نہیں لیکن مرد کا عطاکردہ ایک ٹھکانہ ضرور ہے جو اس کو دنیا میں موجود دوسرے بھیڑیوں سے پناہ دیتا ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ عورت کے اس روپ کو رومانیت اور محبت کے کردار میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ناظرین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کردار سے متاثر ہوں۔ اور بہت حد تک وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر ڈرامہ سیریلز کی بیشتر کہانیوں میں خواتین کے کردار مرکزی ہوتے ہیں۔ لیکن اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس کردار کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کردار اور کہانیاں صنفی متعصب اقدار کو تقویت دیتے ہیں اور ایک مضبوط یا خود مختار عورت کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ ان روایتی کرداروں میں عورت کو غیر محفوظ دکھایا جاتا ہے جہاں وہ دوسری عورت کی زندگی میں موجود مرد سے منسوب پناہ اور محبت کی متلاشی نظر آتی ہے۔

لیکن ناظرین کے لئے جدید دور میں جہاں عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی دھاک جما رہی ہے، ڈرامے میں متعدد کہانیوں کو بیان کرنے والے متضاد پیغامات کو سمجھنا الجھن کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر کام کرنے والی خواتین کو مضبوط اور خودمختار طور پر توپیش کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی ان کو ناقابل اعتبار بھی دکھایا جاتا ہے۔ انہی خواتین کو مردوں کے ذریعہ بے دردی سے ظلم کا نشانہ بنتے دکھایا جاتا ہے۔ انہیں مرد کے ذریعے ذلیل کیا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے اور مرد کو واحد فیصلہ سازکے طور پر دکھایا جاتا ہے، جو عورت کو صرف حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرے یا کیا نہیں۔ اس طرح کے مناظر میں دکھایا جانے والا مردانہ غلبہ اور ظلم انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ یہ عام لوگوں میں بھی ایسے ہی منفی رویے اور سلوک کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح کے کردار خواتین کے بارے میں نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتے ہیں اور خود مختار خواتین کی انتہائی منفی شبیہ پیش کرتے ہیں۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے معاشرے جہاں پدر شاہی غالب ہے، زیادہ تر مرد اپنی خواتین رشتہ داروں (ماں، بہن، بیوی یا بیٹی) کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور گھریلو معاملات خاص طور پر آمدنی اور خرچ پر ہمیشہ ہی خصوصی کنٹرول رکھتے ہیں۔ اسی لئے خواتین کے لئے گھر میں ایک معاون والد یا شوہر کا ہونا بہت ضروری ہے اور اسی معاون مرد کی مدد اور تعاون کی بدولت ایک عورت اپنے کام اور تعلیم کے مواقع کا تعین کرپاتی ہے۔ جب گھر کی خواتین خاندان کے اہم فیصلوں میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیں تو مرد ہمیشہ تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اہم فیصلوں میں ان کے پاس آخری فیصلہ ہونا چاہیے اور عورت کی رائے لینا ضروری نہیں، کیونکہ وہ گھر اور کنبے کے اخراجات مہیا کرتے ہیں۔

خواتین کو نسل در نسل تربیت دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے ماتحت رہیں۔ اور یہی واحد طریقہ ہے خوشگوار خاندانی زندگی گزارنے کا۔ مثال کے طور پر، جب کسی شادی شدہ خاتون سے اپنا تعارف کروانے کو کہا جاتا ہے تو وہ اپنا اصل نام کی بجائے مسز فلاں (شوہر کا نام) کے طور پر متعارف ہونا زیادہ پسند کرتی ہیں۔

میرے حلقۂ احباب میں بہت سی خواتین جو مختلف سماجی ومعاشی طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ مردانہ تسلط اور اس کی تمام اقسام کے بارے میں بہت واضح نقطۂہ نظر رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود کنٹرولنگ مردوں کے ساتھ شادیوں کو قبول کرلیتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید معاشرتی دباؤ ہے۔ بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کو دنیا سے چھپانے کی ناکام کوشش بھی کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو تعلیم اورپیشہ ورانہ حیثیت میں اپنے شوہروں سے زیادہ کامیاب بھی ہیں لیکن اپنی مرضی اور رائے کے اظہار کے لئے روزانہ ایک جنگ لڑتی ہیں اور مسلسل سمجھوتے کرتی نظر آتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے کے لئے یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ عورت غیر شادی شدہ ہونے کا بھی انتخاب کر سکتی ہے۔ خواتین پر شادی کے لئے دباؤ ان کی خود اعتمادی کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی اہمیت اسی صورت میں ہوگی جب وہ شادی کر کے کسی مرد سے منسوب ہو جائے، اس سے قطع نظر کہ وہ انفرادی طور پر کتنی کامیاب ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی شادی شدہ زندگی کتنی کامیاب ہے۔

بدقسمتی سے شادی کا یہ دباؤ عورت کے شعور میں اتنا گہرا ہے کہ جو عورت بھی اس سے انکاری ہو اسے باغی سمجھا جاتا ہے۔ خودمختار، غیر شادی شدہ اور خوش رہنے والی عورتیں، پدر شاہی معاشرے کے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے دوہرے معیار کے حامل معاشرے میں اپنی پسند کی شادی کے لئے لڑکے اور لڑکی کے مابین ملاقات بھی حرام ہے، لیکن چائے کی ٹرالی کے ساتھ کسی اجنبی کی والدہ، والد، بہن، بھائی، بھابی، دادی وغیرہ کے سامنے قربانی کے نمائشی جانور کی طرح پیش ہونا بالکل شرعی اور جائز ہے۔

اس کے بعد لڑکی کو جسمانی و ظاہری شکل کی بنیاد پر مسترد کرنا بھی معمول کی بات ہے۔ لڑکے اور اس کے گھر والوں کی خواہشات اور ڈیمانڈز کی فہرست بہت لمبی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے لڑکی کی تعلیمی یا پیشہ ورانہ قابلیت اور اس کی شخصیت کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی بلکہ انتخاب کا انحصار صرف اور صرف ظاہری شکل و صورت اور جہیز کی مالیت پر ہوتا ہے۔

خواتین کے کام کے لئے مردوں کی مزاحمت اکثر مردوں کی جانبدارانہ رائے اور روایتی صنفی کردار پر ان کے پختہ یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات میں اضافے کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقے کے زیادہ تر مرد صرف اپنی مالی مشکلات اور دباؤ پر قابو پانے کے لئے گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کو قبول کرنے پر راضی ہیں اور اپنے گھر کی عورت کو نوکری کی اجازت دیتے ہیں۔ بیشتر مرد یہ سوچنے پر بھی تیار نہیں کہ کیریئر یا پیشہ اختیار کرنا خواتین کی خواہش یا انتخاب بھی ہو سکتا ہے۔ حالانکہ غریب اور محنت کش طبقے میں یہ خواتین اکثر اپنے کنبے کے لئے واحد روٹی کمانے والی ہوتی ہیں۔

عام طور پر پاکستانی مرد خواتین کے لئے تعلیم اور صحت کی نوکریوں کے حق میں ہیں۔ یہ اس خیال یا قیاس کی وجہ سے ہے کہ یہ پیشہ خواتین کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ایسے پیشوں میں غیر مردوں کے ساتھ کم تعامل کی ضرورت پیش آتی ہے، جس کی وجہ سے وہ خواتین کے لئے ثقافتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو جاتے ہیں۔ اسی منطق کے تحت، بینکنگ یا کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت جس کے لئے غیر مردوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے اور بار بار سفر بھی کرنا پڑتا ہے ان کو خواتین کے لئے انتہائی غیرمناسب سمجھا جاتا ہے۔

صرف مٹھی بھر مردوں نے خواتین کے کام کرنے کے حق اور خواہش کو ان کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے، خواہ ان کو اضافی آمدنی کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اور یہی وہ مرد ہیں جو عورت کی مساوات اور حقوق کے علمبردار ہیں اور حقوق نسواں کی تحریک کو تقویت دینے میں ان کا بہت بڑا کردارہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے ہی مذہب کا نام پر پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تحریک کو خطرہ رہا ہے۔ بہت سے عناصر نے ثقافت اور کلچر کو بھی خواتین کے مساوی حقوق کے مطالبے سے متصادم قرار دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ تحریک نسواں کو تقویت ملی ہے، جس کا سہرا عاصمہ جہانگیر، صبا گل خٹک، کشور ناہید، فوزیہ سعید، طاہرہ عبداللہ اور ان جیسی انگنت خواتین کو جاتا ہے جنہوں نے ہر محاذ پر خواتین کے مساوی حقوق کا الم بلند رکھا اورہمت نہ ہاری۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ آج کے دور کی عورت اسلام کی اصل اور کلاسیکی عبارتوں اور تعلیمات کا حوالہ دے رہی ہے اور مردوں کی صدیوں سے کی جانے والی تشریح پر سوالات اٹھا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments