وزیراعظم عمران خان کی ٹائیگر فورس: کورونا ریلیف آپریشن کے لیے قائم کردہ یہ فورس کتنی فعال ہے؟


ٹائیگر فورس

کورونا ریلیف آپریشن میں کام کرنا ہو یا پھر لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچانا ہو، یہی نہیں بلکہ ٹڈی دل کے خلاف آپریشن میں بھی ٹائیگر فورس سے کام لیا جائے گا۔ یہ سب دعوے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے کیے گئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس مارچ میں ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا اور اپریل میں اس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا گیا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ ٹائیگر فورس باخوبی اپنا کام سر انجام دے رہی ہے۔

لیکن لوگوں کے شکوے حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں۔ لوگوں کے مطابق لاک ڈاؤن، ماہ رمضان اور پھر سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران، انھیں کہیں بھی ٹائیگر فورس کے رضا کار نظر نہیں آئے۔

لاہور کے علاقے ڈیفنس کے رہائشی حمزہ شہر کی مشہور شاہ عالم مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں علاقے ہی سمارٹ لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں لیکن انھوں نے آج تک ٹائیگر فورس کا ایک بھی رضاکار نہیں دیکھا۔

یہ بھی پڑھیے

ٹائیگر فورس والے کچھ کر بھی رہے ہیں یا صرف اعلان ہو رہے ہیں؟

‘یہ اوئے عمران، اوئے عمران کرنے کا وقت نہیں’

کورونا متاثرین کی تعداد میں کمی، کیا پاکستان میں وبا کا عروج گزر چکا ہے؟

ٹائیگر فورس کہاں ہے؟

حمزہ اکیلے نہیں ہیں جنھیں یہ شکایت ہے کہ ٹائیگر فورس ان کے علاقے میں نظر نہیں آئی۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے والڈ سٹی کے چند رہائشیوں نے بتایا کہ انھوں نے ٹائیگر فورس کے بارے میں سنا تو ہے لیکن کبھی ان کے رضا کاروں کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔

ٹائیگر فورس

داتا دربار کے قریبی علاقے کے رہائشی انور کا کہنا تھا کہ ’سنا تو یہ تھا کہ یہ لوگ لاک ڈاؤن والے علاقوں میں کھانا، راشن اور ادویات بھی پہنچائیں گے لیکن آج تک ہمارے علاقے میں ٹائیگر فورس کا کوئی رضاکار نہیں پہنچا ہے حالانکہ یہاں ہمارے علاقے میں تو ڈھیروں لوگ ایسے موجود ہیں جو دربار کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں جنھیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔‘

ٹائیگر فورس کہاں ہے؟ یہ سوال پوچھنے کے لیے ہم نے اس فورس کے سربراہ اور پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم ڈی سی لاہور دانش افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فورس میں شامل ہونے کے لیے ہمارے پاس لاہور ڈسٹرکٹ میں تقریباً 81 ہزار لوگوں نے رجسٹریشن کرائی تھی۔ جس کے بعد ہم نے انھیں کالز کی، اس میں سے 26 ہزار لوگ ہی آئے اور جب فیلڈ میں کام کرنے کی بات آئی تو صرف 15 ہزار لوگ ہی آگے آئے۔

ٹائیگر فورس کا ہر رضاکار اپنی سہولت کے مطابق کام کرتا ہے

اندرون لاہور کے رہائشی عمیر نے بھی وزیر اعظم کی ٹائیگر فورس کے لیے رجسٹر کیا تھا لیکن وہ اس کا حصہ نہیں بنے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میری پرچون کی دکان ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھی اس لیے جب میں نے اخبار میں اشتہار دیکھا تو سوچا کہ چلو کسی کی خدمت ہی ہو جائے گی لیکن جب مجھے میسج آیا تو ضلعی انتظامیہ نے مجھے رائیونڈ والے دفتر میں بلایا جو میرے گھر سے بہت دور ہے۔ اس لیے میں وہاں گیا ہی نہیں۔‘

ان کا مزيد کہنا تھا ’اس کے بعد میری دکان بھی کھل گئی اس لیے میں نے سوچا کہ اب دکان پر توجہ دوں گا۔ جب اس فورس میں رضا کارانہ طور پر شمولیت کا کا اشتہار آیا تھا تو مجھے یاد ہے اس پر لکھا تھا کہ آپ کو بغیر تنخواہ اور پیسوں کے کام کرنا پڑے گا۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے جوش میں آکر اس فورس کا حصہ ببنے کے لیے حامی بھری تھی لیکن جب انھیں پتا چلا کہ کوئی پیسے نہیں ملنے بلکہ الٹا اپنی جیب سے لگانے پڑنے ہیں تو سب پیچھے ہٹ گئے۔‘

لاہور کے علاقے سمن آباد میں بطور ٹائیگر فورس رضاکار خدمات سرانجام دینے والی گل مہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ اور دیگر لوگ فیلڈ میں کام کے لیے جاتے ہیں لیکن ہر بندہ اپنی سہولت کے مطابق کام کرتا ہے۔ جو جس وقت فارغ ہوتا ہے اسی وقت ڈیوٹی کے لیے نکلتا ہے۔‘

ٹائیگر فورس

انھوں نے دوران ڈیوٹی اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ لوگوں کو سمجھانا اور خاص طور پر ماسک پہننے کے لیے قائل کرنا بےحد مشکل کام ہے۔

وہ کہتی ہیں ’جب ہم لوگوں کو آگاہی دیتے ہیں یا پوچھتے ہیں کہ آپ ایس اور پیز پر عمل کیوں نہیں کر رہے ہیں تو وہ ہم سے الٹا لڑتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم گرمی میں اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر باہر نکلتے ہیں اور ہمیں انتطامیہ کی جانب سے تعاون بھی نہیں ملتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے ماسک اور دیگر اشیا بھی اپنے خرچے سے خریدی اور لوگوں میں بانٹی ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو مختلف محکموں کے سپرد کیا گیا ہے جیسے کہ وہ خود میونسیپل کارپوریشن کے ماتحت کام کر رہی ہیں لیکن ان کے مطابق چند محکمے ایسے ہیں جو ان رضا کاروں سے کوئی کام نہیں لے رہے مثلاً صوبائی محکمہ صحت وغیرہ۔

ٹائیگر فورس کے ہی ایک اور رضاکار کا کہنا تھا ’ہم فیلڈ میں جا کر خوار بھی ہوں اور پھر لوگ گالیاں بھی نکالیں اور پھر اپنی جیب سے خرچہ بھی کریں اور انتظامیہ تعاون بھی نہ کرے تو ویسے ہی بندہ تنگ آکر گھر بیٹھ جاتا ہے اور کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔‘

ٹائیگر فورس کے ہی ایک رضاکار محمد عرفان کے مطابق وہ روزانہ اپنے علاقے میں جاتے ہیں اور لوگوں تک آگاہی پہنچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اکیلے نہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی ٹیم کے دیگر 14 ممبران بھی روزانہ گرمی میں نکلتے ہیں اور ان کے سپرد کی گئی ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہیں۔

انھوں نے مزيد بتایا کہ پہلے جب وہ اور ان کی ٹیم کے لوگ فیلڈ میں نکلتے تھے تو ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ کون ہیں؟ جس کے بعد ڈی سی لاہور کی جانب سے ہماری پہچان کو ظاہر کرنے کے لیے ٹائیگر فورس کی ٹوپیاں بنوا کر دی گئیں۔

ٹائیگر فورس نے کیا کام کیے؟

پالسیی کے مطابق اس فورس کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ شامل تھا کہ یہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں لوگوں کے گھروں تک راشن اور خوراک فراہم کریں گے اور انتطامیہ کو جہاں بھی ان کی ضرورت ہو گی ان کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

اس کے علاوہ یہ رضا کار فورس یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح تک قومی اور صوبائی محکمہ قدرتی آفات کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں شامل رہیں گے۔ یہ رضا کار مستحق افراد کی نشاندہی کریں گے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کریں گے جس پر پولیس کارروائی کرے گی۔

ڈی سی لاہور دانش افضل نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے ماہ رمضان میں ٹائیگر فورس کے رضا کاروں کی ڈیوٹی مختلف بازاروں میں لگائی تھی تاکہ وہ ہمیں یہ اطلاع دے سکیں کہ کوئی کسی چیز کے زیادہ دام وصول تو نہیں کر رہا۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے علاقوں کو جانتے ہیں اور وہاں کے رہائشی بھی ہیں اس لیے انھیں حالات کا اچھا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو مساجد میں ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کی ہدایات بھی کی گئی تھیں۔ ان کی شکایات پر ہم نے بہت سی کارروائیاں بھی کیں۔‘

ٹائیگر فورس

دوسری جانب لاہور کی ہی ٹائیگر فورس میں کام کرنے والی خاتون رضاکار گل مہر نے یہ شکوہ کیا کہ ’ہمیں انتظامیہ کا تعاون درکار نہیں ہے کیونکہ جب بھی ہم کسی کے خلاف شکایت کرتے ہیں، انتطامیہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔‘

ڈی سی لاہور دانش افضل نے مزید بتایا کہ ’عید الفطر کے نزدیک جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی اس وقت ہم نے ان کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ یہ تمام مارکیٹوں میں جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا وہاں سے ہمیں اطلاع دیں گے۔ ہم نے انھیں خود سے کارروائی کرنے سے روکا تھا کیونکہ لوگ پھر ان سے الجھتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمیں روکنے والے۔‘

انھوں نے بتایا ’اب سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران یہ علاقوں میں کورونا کے حوالے سے کیے جانے والے سروے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔ اب مون سون آ گیا ہے تو ان کی خدمات ہم اس دوران بھی حاصل کریں گے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ٹائیگر فورس کام نہیں کر رہی غلط ہو گا۔‘

’ان کی تو کوئی ٹریننگ ہی نہیں ہے‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس ڈی آئی جی آپریشن اشفاق خان نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے ٹایئگر فورس کے رضاکاروں کو مکمل تعاون درکار ہے۔ وہ جہاں بھی جس بھی علاقے میں جانا چاہتے ہیں انھیں نہیں روکا جاتا۔

دوسری جانب نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پولیس کے ہی چند افسران نے بتایا کہ ’ٹائیگر فورس کا وجود زیادہ تر کاعذات میں ہے، اگر ہیں بھی تو بامشکل ہی نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ انھیں بغیر ٹریننگ کے کورونا سے متاثرہ علاقوں میں بھیج دیا جائے۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ جو اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں ان کے مطابق 26 ہزار رضا کار صرف لاہور میں ہیں تو وہ نظر بھی تو آنے چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp