معاف کیجیے گا میں ایک انسان ہوں


دیکھیں جی بات سیدھی سی ہے ریاست کے کہنے پر آپ نے جو خواب دیکھ رکھے ہیں وہ میں نہیں دیکھتا۔ آپ شاید پورا برصغیر فتح کرنے کے چکر ہوں لیکن میں نہیں ہوں اور ہو سکتا ہے آپ اس یقین کامل سے ہوں کہ صبح کا ناشتہ ممبئی، دہلی یا پھر امرتسر میں کریں گے اور فلمی اداکاروں کے ساتھ سیلفیاں لے گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں میں ایسا سوچتا بھی نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے آپ سمجھتے ہوں کہ دنیا آپ کی جاسوسی کر رہی ہے جب کہ آپ کی جیب میں ایک دھیلا تک نہیں اور میرا ماننا ہے دنیا اتنی فارغ نہیں ہے۔

آپ اپنے مذہب کو برتر سمجھتے ہوں گے اور چاہتے ہوں گے کہ دوسرے اس مذہب کو تسلیم کر لیں یا پھر آپ اپنا مذہب کسی پر زبردستی مسلط کرنے کے حق میں ہوں گے لیکن میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا اور نہ کبھی چاہوں گا۔ عین ممکن ہے آپ ثواب کی نیت سے یہ سب کر رہے ہوں معاف کیجیے گا ایسے ثواب کمانے کی میری نیت نہیں ہے۔

میں جانتا ہوں اس ایٹم بم میں بڑی طاقت ہے جہاں گرتا ہے ہر چیز حرارت سے پگھلا دیتا ہے یہ آپ کے لیے ایک فخر اور خوشی کی بات ہو لیکن معاف کیجیے گا میرے نزدیک یہ ایک خود کشی اور بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں۔

آپ جنگی جہازوں کو اپنے گھر کی چھت سے اوپر گزرتے دیکھتے ہوں گے تو خوشی اور مسرت سے جھوم اٹھتے ہوں گے لیکن معاف کیجیے گا میرے لیے یہ صرف روپے پیسے کے نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

آپ نے جس سکول/کالج / یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی عین ممکن ہے وہاں آپ کو ایسے ہیروز سے ملوا دیا گیا ہو جن پر آپ کا یقین کامل ہو گیا ہو اور آپ کی دنیا انہی ہیروز کے گرد گھومتی ہو لیکن میرا حال یہ ہے میں جب تک تحقیق عین سائنسی اصولوں کے مطابق نہ کر لوں تو مجھے سکون نہیں ملتا اور جب تک سارے شواہد میری نظروں کے سامنے نہ ہوں میں تب تک تسلیم نہیں کرتا۔

ہو سکتا ہے آپ نے زندہ کرامات دیکھ رکھی ہوں بہت سے معجزے ہوتے دیکھے ہوں جنات کی شادیاں ہوتی دیکھی ہوں، پہاڑوں پر پریاں دیکھی ہوں، چڑیلیں دیکھی ہوں، کسی جن کے سائے میں رہے ہوں یا پھر کسی جن کی وجہ سے کسی کو مرتے دیکھا ہو، کسی جن کو اپنے مذہب پر لائے ہوں، آپ نے غیبی آوازیں سنی ہوں اور آپ کو رات کے اندھیرے میں سڑک کے درمیان کوئی شخص نظر آیا ہو اور پھر غائب ہو گیا ہو یا پھر کسی کو نظر نہ آنے والی چیز نے چمانٹ کروائی ہو یقین کریں میرا آج تک اس طرح کی کسی چیز سے پالا نہیں پڑا۔

میں جہاں پیدا ہوا، جس دھرتی پر پہلا قدم رکھا، وہ والدین جو مجھے اس گولے پر لائے، مجھے پالا پوسا جوان کیا، میں جہاں بڑا ہوا جن رشتہ داروں سے ملا، جو دوست بنائے، جن کھیتوں میں میرا بچپن گزرا جن لوگوں کی کڑوی میٹھی باتیں سن کر جوان ہوا میری ان سب چیزوں سے محبت ایک فطرتی عمل ہے اور کوئی یہ محبت تلوار، بندوق یا قیدوبند کی صعوبتیں دے کر بھی مجھ سے چھین نہیں سکتا تو بھائی آپ کون ہوتے ہو مجھے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ دینے والے؟

آپ کی ماں بولی کیا ہے، آپ کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کتنے صاحب استطاعت ہیں، آپ کی ثقافت کیا ہے آپ کے رسم و رواج کیا ہیں جن کو آپ نے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اور ان سب چیزوں پر آپ کو کتنا غرور ہے اور آپ خود کو برتر سمجھتے ہوئے دوسروں پر ہنستے ہوں براہ کرم معاف کیجیے گا میں نے ان سب چیزوں پر کبھی نہیں اترایا اور نہ کبھی رولا ڈالا۔

آپ طالبعلمی کے زمانے میں کسی مذہبی جماعت کا حصہ بنے ہوں یا کسی سیاسی جماعت کے کارکن رہے ہوں اور ہو سکتا ہے آپ نے کچھ فوائد حاصل کیے ہوں اور اپنی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے ان سے عہد وفا کیا ہوا ہو لیکن میرا دور دور تک کسی بھی جماعت سے پالا نہیں پڑا اور نہ کسی کا حصہ بنا ہوں۔

آپ شاید اس حق میں ہوں کہ اگر کوئی آپ سے مختلف ہے تو اس پر تشدد کرو، اسے گالیاں دینا عین فرض سمجھتے ہوں، اس پر زمین تنگ کرنا اور روزگار کے مواقع بند کرنا عین جائز سمجھتے ہوں، اسے قتل کی دھمکی دینا یا پھر قتل کر دینا آپ کے لیے ایک معمولی سی بات ہو لیکن میں اختلاف رائے کو حسن سمجھتا ہوں۔ اور کسی کی جان لینا یا کسی کی تضحیک کرنے کے عمل کی میں سخت مذمت کرتا ہوں۔

ہو سکتا ہے آپ کی چودہ سالہ تعلیم لڑکوں کے ساتھ ہوئی ہو اور جب آپ یونیورسٹی میں پہنچے ہوں تو آپ کے اندر کی جنسی فرسٹریشن کا جن باہر نکل آیا ہو اور آپ کی نظروں سے کوئی لڑکی نہ بچ پائی ہو، آپ نے کسی لڑکی کو پٹانے میں زبان کا خوب استعمال کیا ہو، آپ نے محبت کی جھوٹی قسمیں کھائی ہوں، آپ دوستی یا محبت میں کامیاب ہو گئے ہوں لیکن وہ لڑکی سوائے گوشت کے ٹکڑے سے زیادہ آپ کی زندگی میں جگہ نہ بنا پائی ہو، ہو سکتا ہے آپ لڑکیوں یا عورتوں پر تشدد کے قائل ہوں لیکن حضور میرا ایسا رویہ کبھی نہیں رہا۔

میں ایک انسان ہوں۔ میں انسانیت کا اور انسان دوستی کا قائل ہوں میرا یقین ہے جو کام محبت سے ہو سکتے ہیں وہ بم بارود سے نہیں ہو سکتے۔ جو ماضی میں غیبی مسئلے سمجھے جاتے تھے آج انہیں نفسیاتی مسئلے کہتے ہیں۔ میں ایک ایسا انسان ہوں جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرتا ہے اور جانتا ہے دنیا ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے ماضی میں جتنے بڑے مذاہب تھے آج فقط ان کے نشانات ہیں جبکہ ان کا ماننا والا کوئی نہیں۔ کوئی شے حتمی نہیں قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ایک دن انہی تابوتوں سے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور آج آپ دیکھ لیں دنیا بھر سے لوگ صرف ان تابوتوں کو دیکھنے مصر آتے ہیں۔

میں ایک انسان دوست جسے دنیا کے سارے رنگ پسند ہیں سارے پھول اچھے لگتے ہیں چاہتا ہوں ہر کوئی ان رنگوں اور خوبصورت پھولوں کے ساتھ محبت و احترام کی زندگی گزارے۔ جس میں قتل و غارت نہ ہو، کوئی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، علمی مباحثے ہوں ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہو، منافقت، دھوکا بازی اور جھوٹ نہ ہو، نسلی امتیاز نہ ہو، عورتوں اور لڑکیوں کا احترام ہو اور انہیں انسان سمجھ کر تمام حقوق دیے جائیں اور انہیں گوشت کا ٹکڑا نہ سمجھا جائے۔

میں ایک انسان جو پوری دنیا کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے جسے جنگ و جدل اور قتل گری جیسے محرکات کی روک تھام کے لیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کرنا ہے۔ میں ”انسان“ جس کو ہر ظلم، نا انصافی اور ہر تہمت کی نشاندہی کرنی ہے۔ میں انسانیت پسند ہوں۔ میں معاشرے میں یکسانیت اور انصاف کی بات کرتا رہوں گا۔ اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتا رہوں گا۔
نوٹ :اس کالم میں ”میں ایک انسان ہوں“ سے مراد وہ تمام لوگ جو انسان دوست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments