سمارٹ لاک ڈاؤن کی کامیابی کی حقیقت


پنجاب میں سمارٹ لاک ڈاؤن سے کیسز میں واضح کمی ہوئی ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران بڑے شہروں کے مخصوص کاروباری اور رہائشی علاقوں کو سیل کیا گیا۔ جہاں پر کیسز کی تعداد زیادہ تھی۔ وہاں پر آمدورفت کم سے کم رکھی گئی رہائشی علاقوں کے اندر واقع مارکیٹیں بند کی گئیں۔ زیادہ رش والے بازار بند رکھے گئے انتظامیہ نے کافی تندہی سے کام کیا اور سیکورٹی فورسز بھی ان کی مدد کے لئے موجود رہیں۔ حکومت لاک ڈاؤن کو اپنی بڑی کامیابی بتا رہی ہے۔

تاہم کئی علاقوں کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے خدشہ ہے کہ کیسز دوبارہ نہ بڑھ جائیں۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کو سیدھے لفظوں میں جزوی لاک ڈاؤن کہیں گے سمارٹ کا لفظ تو ویسے سمارٹ لگنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اب ثابت یہ ہوتا ہے کہ جب جزوی لاک ڈاؤن سے یہ حوصلہ افزا نتائج حاصل کر لئے گئے تو مکمل لاک ڈاؤن اگر کچھ ہفتے ہی لگا لیا جاتا تو یہ کیسز لاکھوں میں کبھی نہ پہنچتے۔ اب تو ہم دو لاکھ کے کیسز والے ایلیٹ کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔ آج ہم دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کے ہوتے ہوئے بارہویں نمبر پر موجود ہیں اور عظیم براعظم ایشیا میں تیسرے نمبر پر براجمان ہیں اور موجودہ رفتار سے کچھ دن میں ایشیا میں دوسرے نمبر پر اور دنیا میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہوں گے لیکن لگتا ہے موجودہ حکمران تو سمجھتے ہیں کہ

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہیں ہو گا

ہمارے حکمرانوں کے لئے جو چیز وجہ اطمینان ہے وہ مودی کے ہندوستان کی کرونا کے حوالے سے ناقص کارکردگی ہے۔ ہمارے وزیراعظم بھی اپنی ہر تقریر میں اس کا ذکر کرنا نہیں بھولتے، ہندوستان کے سخت ترین لاک ڈاؤن کی ناکامی کی وجوہات کا بھی انہیں درست ادراک ہونا چاہیے ماہرین کے مطابق اس کی جو وجوہات ہیں اس میں ہمارے ساتھ بھی ان کی کافی مماثلت بن جاتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کی طرح مودی بھی مشاورت پر زیادہ یقین نہیں رکھتے ان کے ارد گرد بھی چند لوگ ہیں جن سے وہ بات کر لیتے ہیں ورنہ ماہرین سے کوئی رائے نہیں لی جاتی۔

اس سخت ترین لاک ڈاؤن کا ڈرامائی انداز میں اعلان کرنے سے پہلے لیبر منسٹری کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ وہ کچھ انتظامات کرتی جس کی وجہ سے بڑے شہروں میں کام کرتے لاکھوں مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ان مزدوروں کو پیدل ہی اپنے گھروں کی جانب نکلنا پڑا اور سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے سینکڑوں مزدور ہلاک ہو گئے اور ہزاروں وائرس کا شکار ہو کر اس کو ملک کے طول و عرض میں پھیلانے کا سبب بن گئے۔ لاک ڈاؤن کی ٹائمنگ بھی انتہائی غلط تھی پاکستان اور ہندوستان دونوں دو ہفتے مزید انتظار کر سکتے تھے اس سلسلہ میں سرد خطہ کے ممالک کی نقل کرنا درست نہ تھا چونکہ یہاں اس وقت وائرس کا پھیلاؤ بہت سست تھا۔

اس طرح لاک ڈاؤن کو کھولنے کی ٹائمنگ بھی غلط تھی اس وقت لاک ڈاؤن کھول دیا گیا جب کیسز تیزی سے اوپر جا رہے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کہ پشت پر موجود سرمایہ دار معیشت اور دراصل اپنے سرمایہ کو ڈوبتا دیکھ کر بھوک اور غربت کے نام پر لاک ڈاؤن کھلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم ہمیں اپنے آس پاس موجود اچھی مثالوں سے بھی استفادہ کرنا چاہیے چین جاپان ویت نام کوریا فلپائن اور تھائی لینڈ یہ سب با آسانی کرونا کو شکست دے چکے ہیں۔

چین جیسے دوست ملک کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ اب اگر کیسز سات ہزار سے کم ہو کر تین ہزار روزانہ رہ گئے ہیں تو اس پر حکومت اور عوام کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کیسز کافی نیچے جا کر پھر ابھرے ہیں۔ حکومت کو خاص کر پنجاب میں قبل از وقت اپنی فتح کے شادیانے نہیں بجانے چاہیں کیونکہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے کم ہوا ہے۔ البتہ کراچی میں کیسز کم نہیں ہو رہے اور کراچی جیسا کہ ہمارا معاشی صدر مقام ہے وفاق کو وہاں سیاست سے بالا تر ہو کر اپنا بھر پور کردار ادا کر نا ہوگا اس حوالے سے ایک مشیر خاص کا سندھ حکومت پر حملہ آور ہو کر یہ کہنا کہ باقی ملک میں تو سب اچھا ہو گیا ہے صرف سندھ کنٹرول نہیں کر پا رہا۔

یہ نہایت ہی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ کیا باقی پاکستان میں کراچی جتنا بڑا شہر ہے؟ یا جتنی بین الاقوامی اور علاقائی نقل و حرکت کراچی میں ہوتی ہے وہ کسی اور شہر میں ہوتی ہے؟ کیا بیرون ملک سے آنے والا سارا تجارتی سامان کراچی سے ملک کے طول و عرض میں نہیں جاتا اور وہاں سے جو ڈرائیور اور عملہ واپس کراچی پہنچتا ہے وہ وائرس لانے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ تو کیا سندھ حکومت کو سارے ملک میں تجارتی مال کی نقل و حرکت بند کر دینی چاہیے؟ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کو اپنے سارے وسائل کراچی میں وبا ختم کرنے پر لگانا ہوں گے۔ اور اپنے نادان مشیروں وزیروں کو معاندانہ بیانات سے روکنا ہو گا۔

سمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران انتظامیہ نے فیلڈ میں قابل تحسین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد کے لئے سیکورٹی ادارے بھی مستعد رہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کے اگر واضح ہدایات اور پالیسی کے تحت کوئی کام کروایا جائے تو ہمارے اداروں میں ابھی اتنا دم خم ہے کہ اس کو بطریق احسن سر انجام دے سکتے ہیں۔ شکر ہے وزیراعظم نے بھی سمارٹ لاک ڈاؤن سے درگزر کیا اور ٹی وی پر آ کر اس کے خلاف تقریریں نہیں کیں عوام کو بھی اندازہ ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ ہے تو ان کی طرف سے بھی دست تعاون بڑھایا گیا۔

تاجر بھی چپکے ہو کر بیٹھ رہے اور اس طرح کیسز میں کمی آتی گئی فیصل آباد جیسے شہر میں جہاں عید کے بعد روزانہ تین سو کے لگ بھگ کیسز آرہے تھے اب تیس چالیس کیسز کی اوسط ہے۔ ہسپتالوں پر بوجھ کم ہو چکا ہے الائیڈ ہسپتال کے دو کرونا وارڈ بند کر دیے گئے ہیں۔ بیشتر ڈاکٹر ایک دفعہ کرونا کا شکار ہونے کے بعد واپس آ چکے ہیں اور امیونٹی آ جانے کی وجہ سے زیادہ پر اعتماد طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ پرانے مریض ریکور ہو رہے ہیں اور لوگوں میں اعتماد لوٹتا نظر آ رہا ہے۔ زندگی دوبارہ رواں دواں ہونے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments