آمر کی طاقت کے راز کیا ہیں؟


 پہلے ایک جوک، جوک سے قبل ایک وضاحت، وضاحت سے پہلے ایک تبصرہ کیوں کہ موضوع خاصا سنجیدہ ہے۔ تبصرہ ایڈیٹر صاحب کا یوں ہے کہ ہماری حس مزاح کچھ ایسی ہے کہ ہم تحکم اور تمسخر دونوں معاملات میں انگریز بیوروکریسی اور میمن گجراتی بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تو تھا وضاحت سے پہلے والا تبصرہ

جوک سے قبل والی کی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے جوک کی جگہ مروجہ اردو لفظ لطیفہ اس لیے نہیں لکھا کہ اب لطیفہ اور خلیفہ جیسے الفاظ گندی گندی عورتوں نے اپنے نام کا حصہ بنا لیے ہیں۔ لطیفہ کی ابھی باری نہیں آئی مگر مسلمان حاکم کو پہلے تو پنجابیوں نے بہت بچھڑا(سندھی میں گند ا کرنا)کیا۔ اپنے نانبائی نائیوں کو خلیفہ پکارنا شروع کردیا۔ اس زمین میں نئی طرز ایک لبنانی امریکی جوڑے نے نکالی جنہوں نے اپنی نورالعین کا نام میا خلیفہ رکھ لیا۔ بیٹی نے بھی پورن فلموں میں خوب نام روشن کیا۔ امریکن یوں خوش تھے کہ اپنے عزائم کی تکمیل پر مسرت کے لیے القاعدہ کے علاوہ میا خلیفہ کا سہارا بھی مل گیا تھا۔ پاکستانیوں نے بھلا کہاں پیچھے رہنا تھا۔ گوگل کو بھی اچھا لگا کہ پاکستانیوں سنی لیونے کے بعد سب سے زیادہ میا خلیفہ جی کو مسلمان باجی سمجھ کرکھوجتے تھے۔ جب کہ وہ راندہءدرگاہ مذہباً مسیحی ہے۔

ہمارے اس جوک کا براہ راست تعلق بارہ اکتوبر کی اس رات سے ہے جب ڈھائی بجے کے قریب جنرل پرویز مشرف ٹی وی پر قوم سے خطاب کے لیے جلوہ نما ہوئے۔ ان کے انتظار میں آدھی قوم تو پہلے ہی وادی نوم میں بھٹکنے لگی تھی۔ باقی ماندہ آدھی قوم دوران تقریر ایک کمانڈو صدر کے ہاتھ میں عنان حکومت دیکھ کر اپنا اور نواز شریف کا نصیب ان کے حوالے کر کے چین کی نیند سو گئی۔

اگلے دن جنتا نے دیکھا کہ لیڈر اچھا ہے۔ جان ابراہام جیسا نہ سہی مگر باوردی، کھلے عام سگریٹ بھی پیتا ہے، گولی بھی چلاتا ہے اور کتوں کو لے کر کیٹ واک بھی کرتا ہے۔ مملکت اللہ داد پاکستان میں کسی حاکم کا جدید، روشن خیال اور امریکہ کے قریب ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ قوم کو تو جہاں چاہے رکھے، کتوں کو البتہ دل سے لگا کر رکھنا لازم ہے

 اب جوک۔ سعدیہ اور فرخ عم زاد تھے۔ دس برس کے فاصلے نصیب تھے۔ وہ لاہور کے ایک بہت ٹونی ادارے سے پڑھی۔ بخدا وہ بہت دلفریب تھی۔ دوران تعلیم ہی اسے بہت سے مردوں نے شادی کا کہا مگر نہ مانی۔ اسے Long-Distance Relationship کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا۔ پاکستانی مرد آپ کو معلوم ہے عورتوں سے اپنا مطلب پورا کرنا ہو تو جو حفاظت کرے سرحدوں کی، وہ فلک بوس دیوار کتنی جلدی بن جاتے ہیں۔ فرخ عہد وفا نبھانے دولہا بن کر آیا تو فرانس برطانیہ اور امریکہ کی پڑھائی نوکری سے سوا، تھائی لینڈ کے بھی کئی پھیرے لگا چکا تھا۔ پتایا کو تو ایسے جانتا تھا جیسے دادو کی گلیوں کو۔

شادی ہوگئی۔ سہاگ رات ساحر لدھیانوی کی نظم “کبھی کبھی” کا وہ گھونگٹ والا حصہ ایک طرف۔ سعدیہ نے بانہوں میں پگھلتے ہوئے جب اپنی قدافی اسٹیڈیم جتنی بڑی آنکھیں کھولیں تو دور افتادہ حسد کے مارے دولہا فرخ نے پوچھ لیا کہ”Am I the first?”  سعدیہ نے فرخ کو ویسے ہی بے یقینی سے دیکھا جیسے نیم خوابیدہ قوم نے جنرل پرویز مشرف کو 12 اکتوبر سنہ 1999 کی شب پامال کو دیکھا تھا اور مزید سپردگی سے کہنے لگی۔ ” کمال یہ ہے کہ آپ کے ساتھ اجنبیت کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہوا“۔

اب اصل موضوع کہ فوجی حاکم اور سویلین حکمرانوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کل ساڑھے پانچ فرق ہوتے ہیں مگر تفصیلات ان گنت ہیں۔

پہلا فرق تو فوجی حاکم نامانوس اجنبی ہوتا ہے جنرل پرویز مشرف آئے تو تاریخ کا کوئی بوجھ کاندھے پر نہ تھا۔ انہوں نے جس خاندان شریفاں کو گھر بھیجا اس کے اہم کرتا دھرتا کے دامن داغدار میں لاہور ہی کی دو حسین گلوکاراﺅں، ایک پردیسی اداکار کی حسین ہمشیرہ، ایک پیپر مل، بہت سے سرکاری قرضے، کئی پولیس مقابلے اور جانے کیا کیا تھا۔ سو پہلا فرق تو مانوسیت کا ہوتا ہے جسے انگریز ی میںFamiliarity  کہتے ہیں۔ اسی انگریز ی زبان کا یہ بھی کہنا ہے کہFAMILIARITY BREEDS CONTEMPT۔ مانوسیت سے تحقیر جنم لیتی ہے۔

پہلے باقاعدہ فوجی سربراہ جنرل محمد ایوب خان تھے۔ ان کے مسند شاہی پر براجمان ہونے سے قبل ان سے قبل خواجہ ناظم الدین جن کے عہد میں پارٹیاں بہت ہوتی تھیں اپنے نام کی رعایت سے دو القاب پا چکے تھے خواجہ ہاضم الدین اور ملک میں گیہوں اور آٹے کے بحران کی وجہ سے قائد قلت کہلاتے تھے۔ آپ کو طیبہ نیب والی اور باجی سنتھیا امریکہ والی اور حریم شاہ وزارت خارجہ والی سے بہت گلہ ہے نا۔ سن لیں کہ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کی اپنی سوئس سیکرٹری رتھ بورال سے چومیوں کی داستانیں عام تھیں۔ ان کا گواہ ان کا جمعدار شادی خان تھا۔ اس کا یہ فریضہ ہوتا کہ وہ لبوں کی دولت چراتے لمحوں میں پہرہ دے۔ شہاب صاحب بھی منھ اٹھائے اس راہداری طرف نکل آتے تھے۔ ایک دفعہ کسی اہم سرکاری میٹنگ شروع ہونے سے پہلے جب غلام محمد اپنی پرائیوٹ سیکرٹری کے لبوں سے شاداب، سیراب ہو کر لعل اور لال کے بیچ کی صورت بنے برآمد ہوئے تو شادی خان نے انہیں میٹنگ میں داخل ہونے سے روک دیا اورکہا کہ سرکار یہ نشان تو مٹا لیں۔ اس کی اس نا وقت مداخلت پر غلام محمد نے ایک شعر بھی پڑھا جو شادی خان کو اپنے عسکری پس منظر، اردو سے کم کم واقفیت اور غلام محمد کی رال ٹپکاتی کریہہ المنظر لکنت کی وجہ سے ٹھیک سمجھ میں نہ آیا۔ قیاس ہے کہ یہ شعر وہی ہوگا جو ایسے موقعوں پر بزرگان قوم و ملت پڑھا کرتے ہیں کہ

یہ نشان عشق ہیں جاتے ہیں نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

ہم مینڈکوں والی جست لگا کر غیر اہم اور جزوقتی سربراہان سے جلدی سے ایوب خان کی طرف نکل آتے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ ایوب خان کو جناح صاحب اس وقت بھی شدید ناپسند کرتے تھے جب وہ ابھی بریگیڈیر ہی تھے۔ اس کا بدلہ ایوب خان نے اپنی صدارتی مہم میں محترمہ فاطمہ جناح سے جی کھول کر لیا۔

اس کی نسبت بھٹو صاحب کے نصرت سے شادی کے راستے سیاست میں چور دروازے سے گھسنے کی داستان عام تھی۔ وہ اسکندر مرزا کی بیگم ناہید کی کزن تھیں۔ شہاب صاحب کے بقول ایوب خان کا ناریل اس وقت چٹخ گیا جب تاشقند معاہدے کے وقت وزیر خارجہ بھٹو نے کسی نکتے پر مداخلت کی اور فیلڈ مارشل نے غصے میں انہیں اردو میں ڈانٹ کر کہا ” الو کے پٹھے بکواس بند کرو“ وہ انہیں عمر ایوب خان کے بقول ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی راہیں تب سے جدا ہو گئیں۔ ایسی  Damning  داستانیں کیسا بار گراں ہوتی ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ جس میں فوجی صدور اور سویلین وزرائے اعظم ایک دوسرے سے بہت جدا ہوتے ہیں وہ میڈیا کنٹرول کا ہے۔ فوج کے پاس نفسیاتی جنگ کے ماہرین سے لے کر ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر صحافی، لکھاری کا شجرہ نسب اور ڈی این اے رپورٹ ہوتی ہے۔ یہ کام ادارہ اس وقت سے کر رہا ہے جب اس کے سربراہ ایک کمانڈر مقبول صاحب ہوتے تھے۔ 1958 میں جب ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو بریگیڈیئر ایف آر خان وزیر اطلاعات بن گئے۔ خان صاحب ایسے جواں حوصلہ تھے کہ انہوں نے مقبول صاحب کو جو شاہیں بن کر چٹانوں میں بسیرا کرنے آئے تھے واپس سمندر کی جانب لوٹا دیا۔ خود ایک Bureau of National Research & Reconstruction (BNR&R)  بنا کر بیٹھ گئے اور اس میں پولیس اور انٹیلی جینس کو بھی شامل کرلیا۔ دن گزرے تو پھر سے یہ ادارہ کلمہ پڑھ کر ایک سادہ سا ادارہ بن گیا جس کا سربراہ بریگیڈئر اے آر صدیقی بہت عرصے تک اسے بغیر کسی دشواری کے چلاتے رہے۔ اس دوران جنگ بھی ہوئی مگر ترانے لکھنے کا کام جمیل الدین عالی اور رئیس امروہی کے ناتواں کاندھوں ہی پر رہا۔

اب تو نام خدا اس ادارے کا سربراہ ففتھ جنریش وار کی حربی پیچیدگی کی وجہ سے ایک لفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے۔ جو اپنے باس کے ساتھ بیرونی دورے سے لے کرکٹ میچ تک ہر اہم بریفنگ میں شریک ہوتا ہے۔ یوں فوجی حاکم کے پاس مسل اور مال دونوں کی کثرت ہوتی ہے۔ سیاست دان کو یہ سہولت نہیں ہوتی۔ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ ریحام ہو کہ ارشاد بھٹی، کیسے پہلے دن سے حکومت کی موجودہ منی کو بدنام کرنے پر تل گئے تھے۔ گو منی خود بھی اپنی حرکات قبیحہ سے باز آنے والی نہیں۔ سویلین حکومت ہو تو شام کے پرائم ٹائم میں روز کسی مشیر کسی وزیر کو ان اینکروں نے اپنی بکواس کا کک بیگ بنایا ہوتا ہے۔ جب کہ یہی صحافی قریب بیٹھے ہوئے ریائٹرڈ جرنیل سے کیسے مشرقی عورت کی طرح نگاہیں نیچی کرکے بات کرتے ہیں۔ باوردی درست جرنیل کی حکومت ہوتی ہے تو مجال نہیں کہ کابینہ کی کاروائی کے منٹس کا فیئر ڈرافٹ کیبنٹ سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری کی منظوری کے بعد بھی لیک ہو جائے۔ آج کل تو عالم یہ ہے کہ ہر کیبنٹ میٹنگ کے زچہ خانے کے باہر منتظر میڈیا کے ماموں صاحبان کو تولید کے مختلف مراحل سے اندر سے آتی جاتی نرس آگاہ کرتی ہے۔

تیسرا اہم فرق جو ان دونوں حاکموں کا ہوتا ہے وہ افسر سے لے کر وزیر کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ فوجی حاکم چاہے تو اپنی مرضی سے ایک سالم وزیر اعظم شوکت عزیز کے روپ میں امپورٹ کر لیتا ہے۔ اسے بہترین میرٹ پر افسر اور افراد دستیاب ہوتے ہیں۔ ایوب خان کی بیوروکریسی اس کی درخشاں مثال ہے۔ سویلین آتے ہی کم اہلیت کے Loyalist ڈھونڈتا ہے جو اسے بے تحاشا مال بنانے کی تراکیب بتائیں۔ فیصلہ کن پیرا کا آدھا حصہ احمد صادق اور سلمان فاروقی کی طرح آدھی پڑھ کر سنائیں Seen by Prime Minister. Para 7 (iii) stands approved۔ جب کہ محکمے کے سیکرٹری نے اس سے پہلے پیرا چھ میں اس تعیناتی کی کھلی مخالفت کی ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر ڈیپ اسٹیٹ اتنی ظالم ہے کہ باپ بھٹو کے دور میں مبشر کے بعد محبوب الحق کو وزیر خزانہ لگوا دیتی ہے اور بیٹی وی اے جعفری تو کبھی صاحبزادہ یعقوب پر اصرار کرتی ہے۔ آج کل بھی دیکھیں تو تقریباً سب مشیر ڈیپ اسٹیٹ کے ہی من چاہے لگتے ہیں۔

 چوتھا اہم فرق سویلین اور فوجی حاکم کے درمیان اقتدار کی میعاد کے تحفظ کا ہے۔ فوجی حاکم آتے ہی اپنے پہلی تقریر میں یہ بات جنتا پر جتا دیتا ہے کہ مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نیئں مردا۔ اس کے برعکس عسکری میٹرنٹی ہوم میں تولد ہیوی مینڈیٹ کے دوشالے میں لپٹے انگوٹھا چوستے نواز شریف ہوں یا دو دفعہ کی وزیر اعظم بے نظیر، دونوں کی وکٹ ایسے اڑتی ہے جیسے شعیب اختر کا یارکر پیروں میں سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آیا ہو۔ اس کے برعکس فوجی حاکم کو ہٹانے کے لیے یا تو فضا میں بہت سارے ایکسپورٹ کوالٹی کے آم ضائع کرنا پڑتے ہیں یا ایک اولوالعزم ماتحت گھر میں ہی اپنی وردی کے ستارے چمکانے لگتا ہے۔ کبھی ہاتھ ملاتے وقت چیف جسٹس کی ہتھیلی اپنی درمیانی انگلی سے 9 مارچ 2007 کو کھجا کر تسلی دیتا ہے کہ لگے رہو منا بھائی، اپن تیرے ساتھ ہے۔

ہم اب پانچواں اور اہم فرق بتا دیں۔ اس کے دو حصے ہیں کہ الف یہ فوجی حاکم کو عدلیہ کا ڈر نہیں ہوتا۔ عدلیہ اس کی رکھیل ہوتی ہے۔ آپ نے بھٹو کی پھانسی پر دیکھ لیا۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں عسکری افسران کی دست کاری پر عدالت کی بے لطفی دیکھ لی۔ دو ہزار بارہ کے مقدمے کی رپورٹ جب بالاخر عدلیہ کے سامنے ایف آئی اے نے پیش کی تو اس میں درج تھا کہ اس مقتدر تفتیشی ادارے کو ایسا کوئی ثبوت نہیں مل پایا جو کیس میں نامزد ملزمان کو مجرم ثابت کرنے میں مدد گار ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں، جسٹس محمد افضل ظلہ کے معاملے میں جنرل اسلم بیگ کے وہ کلمات کون بھول سکتا ہے جو انہوں نے لاہور میں 4  فروری 1993 کو پریس کانفرنس میں کہے کہ انہوں نے چیف جسٹس پر دباﺅ ڈالا تھا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو بحال کرنے کی ضرورت نہیں، نئے انتخابات کرانے کا حکم صادر کریں۔ اس پر بہت بدمزگی ہوئی۔ جسٹس ظلہ نے کھلی عدالت میں اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود چرخ کہن نے دیکھا کہ کمانڈو صدر کی طرح ان کا بھی بال تک بیکا نہ ہوا۔ فخر الدین جی ابراہیم ان کے وکیل جو جسٹس ظلہ اور سعید الزماں کے پکے دوست تھے انہیں ویسے بحفاظت نکال کر لے گئے جیسے رادھا سولہ سو گوپیوں کے جھرمٹ میں کرشن کہنیا کو اپنی تسکین روح و جاں کے لیے لے جاتی تھیں۔

 ساڑھے پانچواں فرق یہ ہے کہ مال بناتے وقت فوجی کی حکومت خوف خمیازہ سے بالاتر ہوتی ہے۔ سویلین کا تو یہ عالم ہے کہ مراد سعید جیسے معصوم وزیر بھی روز ویلٹ ہوٹل کی نج کاری والی میٹنگ میں ایان علی والے ایام حراست کا سوچ کر پچھلی گلی سے نکل گئے، کابینہ کے اجلاس تک میں نہیں آئے۔ جب کہ ایوب خان کے دور میں انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں گوہر اور اختر کو فوج سے فارغ کرا کے جنرل موٹرز خرید لی تھی اور اس کا نام گندھارا موٹرز رکھ لیا تھا۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ ان کے والد برطانوی فوج کی کیولری یونٹ میں رسالدار تھے۔ یوں جتنا بھی ہن برسا وہ دوران ملازمت ہی برسا تھا۔

ہم نے ساڑھے پانچ اہم فرق بیان کردیے ہیں۔ پچھلے جو ستر اور تین سال گزرے ہیں اس میں دونوں ٹائپ کے حکمرانوں نے اپنے اپنے انداز سے حکومت کی ہے لیکن عوام کا سوچیں تو مصطفے زیدی کے یہ الفاظ دل کو پکڑ لیتے ہیں کہ

میرے وطن میرے مجبور تن فگار وطن

کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے

تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments