آہ! کامریڈ رشید مصباح


معروف ترقی پسند نقاد اور افسانہ نگار رشید مصباح بھی چل بسے۔ ایک طویل عرصہ تنہائی اور بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے گزری اور دو جون کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے کنارہ کر لیا۔ میرا ان سے محبت کا تعلق دس سالوں پر محیط ہے، کتنی کہانیاں، کتنے واقعات، کتنے سفر، کتنی یادیں اورکتنی تقریبات ہیں۔ کس کس بات کا ذکر کروں، کون سی یاد تازہ کروں۔ ان کی افسانہ نگاری (سوچ کی داشتہ، گمشدہ آدمی، آکاس بیل) پہ بات کروں، ان کے تنقیدی مضامین (تضادات) پر بات کروں یا ان کی سیاسی زندگی پر قلم اٹھاؤں۔

ان کے ترقی پسند تحریک سے تعلق پر گفتگو کروں یا ان کی بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں پر بات کروں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا، بار بار لکھ رہا ہوں، کاٹ رہا ہوں اور پھر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ دماغ میں رشید مصباح سے وابستہ اتنا کچھ ہے کہ ایک کالم میں بیان نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ میں صرف چندیادیں شیئر کرنا چاہوں گا۔ یہ یادیں یقیناً اچھی اور میٹھی ہیں ورنہ کچھ دوستوں نے رشید مصباح کے مرنے کے بعد بھی ان کے خلاف لکھنا اور بولنا نہیں چھوڑا، طرح طرح کی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔

کچھ لوگوں کا آپ کی زندگی میں بہت زیادہ کنٹری بیوشن ہوتا ہے، آپ کو بنانے، سہارا دینے اور حوصلہ بڑھانے میں ان کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ آپ کے دل و دماغ سے کبھی بھی محو نہیں ہوتے کیونکہ آپ نے ان کے ساتھ نشست و برخاست میں بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ہوتا ہے۔ ایسا ہی تعلق میرا رشید مصباح کے ساتھ رہا۔ بارہ سال قبل جب کشتیاں جلا کر لاہور پہنچا تو یہاں کی ہر چیز اور ہر شخص میرے لیے اجنبی تھا، کسی کو نہ میں جانتا تھا اور نہ ہی کوئی مجھے۔

صبح سے شام تک مختلف اخباری دفتروں کے چکر کاٹتا، راتیں انار کلی میں جاگتے اور ہاسٹل تلاش کرتے گزر جاتیں۔ کئی دن اور کئی راتیں اس اجنبی شہر کی نامانوس فضاؤں میں آوارہ گردی کرتے گزریں۔ ایک دن انارکلی میں بیٹھے دوستوں سے معلوم ہوا کہ چوپال (ناصر باغ) میں شاعروں اور ادیبوں کا ہفتہ وارپروگرام ہوتا ہے، یوں میں ناصر باغ جا پہنچا۔ یہاں ترقی پسند تحریک کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔ یہاں پہلی ملاقات کامریڈ آصف علی شیخ (مرحوم) اور دوسری ملاقات کامریڈرشید مصباح (مرحوم) سے ہوئی، دونوں دوست ترقی پسند تھے اور بائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کے انتہائی متحرک کارکن تھے۔

میرا مزاج بھی ہمیشہ سے ترقی پسند رہا سو مجھے یہ دوست دل کے قریب لگے اور یوں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پوری رات انارکلی بیٹھنا، چائے اور سگریٹوں کے دھویں میں انقلاب کی کہانیاں اڑانا، پرانے لاہور کی یادیں تازہ کرنا، کمیونزم اور سوشلزم پر رشید مصباح کی عالمانہ اور غصے سے بھرپورگفتگو سے لطف اندوز ہونا اور فجر کے بعد اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنا۔ رشید مصباح نے درجنوں دوستوں سے میری نوکری کے لیے رابطہ کیا، دوستوں سے بار بار سفارش کرتے کہ ”ایک نوجوان منڈی بہاؤالدین سے آیا ہے، ذہین بھی ہے اور لکھتا بھی ہے، اسے کسی اخباری دفتر میں نوکری چاہیے“ مگر میری قسمت ان دنوں گردش میں تھی سو ملازمت کا انتظام نہ ہو سکا۔

ایک ماہ کی مسلسل فراغت کے بعد ایک دوست کے توسط سے بلال غوری (کالم نگار جنگ) سے ملا، روزنامہ انصاف میں سب ایڈیٹر کی جگہ خالی ہوئی اور یوں میں عملی صحافت سے وابستہ ہو گیا۔ رات دو بجے کے بعد اخبار کی کاپی پریس میں جاتی، میں لارنس روڈ سے پیدل چلتا اور پیدل سفرکرتا انار کلی پہنچتا جہاں رشید مصباح اور آصف شیخ میرے منتظر ہوتے اور یوں رات کا باقی حصہ شعروادب سمیت کئی علمی و ادبی موضوعات پہ گفتگو کرتے گزر جاتا۔

میرے شہر منڈی بہاؤالدین دو دفعہ رشید مصباح میری دعوت پر گئے۔ 2012 ء میں میری پہلی کتاب ”لوح ادراک“ شائع ہوئی تو اس پر فلیپ بھی لکھا اور منڈی بہاؤالدین میں تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے گئے اور کمال گفتگو کی۔ 2014 ء میں وہاں اردو کانفرنس رکھی تو اس میں بھی شرکت کے لیے گئے اور ”اردو کے مزاحمتی ادب“ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ رشید مصباح کے توسط سے 2013 ء میں منڈی بہاؤالدین میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد بھی رکھی مگر میں چونکہ لاہور تھا، لہٰذا وہاں یہ تنظیم کوئی زیادہ دیر نہ چل سکی مگر اردو کانفرنس اسی پلیٹ فارم سے ہوئی تھی۔

بعد میں جب ترقی پسند تحریک پنجاب کے الیکشن ہو ئے تو کچھ سازشی چہروں نے محض اس لیے منڈی بہاؤالدین کی باڈی کو تسلیم نہ کیا کیونکہ وہ رشید مصباح نے بنوائی تھی (یہ کہانی پھر سہی) ۔ رشید مصباح کے انجمن ترقی پسند تحریک کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں رہے تھے اور اس کی بنیادی وجہ بقول رشید مصباح ”اس تحریک میں سازشی اور عہدے کا لالچ رکھنے والے لوگ شامل ہو گئے تھے“ ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک کسی طوربھی ویسی نہ رہی تھی جیسی آغاز میں تھی۔

عہدے کے لالچ میں جو لوگ اس سے چمٹے، انھوں نے پورے پاکستان میں اپنا تسلط اور اجارہ داری قائم کرنے کی کوششیں کیں اور رشید مصباح جیسے نڈر اور بہادر آدمی کو تحریک سے دور کر دیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کی تنہائی اور بیماری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جس تحریک کو انھوں نے پوری زندگی دی، اس میں ان کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ ایک تو رشید مصباح انتہائی غصے والے آدمی تھے اور دوسرا ان کے مالی حالات بہتر نہیں رہے تھے۔

اپنی بیوی سے علیحدگی کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل گئی تھی، زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ مزنگ اور انار کلی کے چائے خانوں یا پاک ٹی ہاؤس میں کٹتا اور دن بھی کسی نہ کسی دوست کے ہاں گزار دیتے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ رشید مصباح ایک نظریاتی آدمی تھا اور ایسے لوگ اب خال خال ہی بچے ہیں۔ ترقی پسند تحریک اگرچہ پہلے کی طرح اپنا وقار بحال نہ رکھ سکی مگر رشید مصباح ہمیشہ اس تحریک سے جڑے رہے اور جہاں تک ممکن ہوا دوستوں کو اس تحریک سے وابستہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں، رشید مصباح میں بھی تھیں مگر اس سب کے باوجود وہ ایک کھرا اور سچا ادیب تھا جس کے قلم نے ہمیشہ استعماریت اور جاگیرداری کلچر کے خلاف لکھا اور بھرپور لکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments