سب رنگ کہانیاں۔ سب رنگ کا عشق مشترک


سب رنگ ہم نے اس کی اشاعت کے پہلے یا شاید دوسرے سال میں پڑھنا شروع کیاتھا اور اس کی اشاعت کے آخری سال تک پڑھا۔ اس میں تب کی پڑھی ہوئی کہانیاں آج چالیس پینتالیس سال بعد بھی یاد ہیں۔ پرانی کتابوں کی الماری سے اگست 1971 کا سب رنگ کا شمارا چند دن قبل ملا تو اس میں ماں پر موپساں اور ولیم سمرسٹ ماہم کی کہانیاں پڑھ کر ماضی میں سب رنگ میں پڑھی ہوئی بہت سارے دوسرے ادیبوں کی کہانیاں بھی یاد آ گئیں۔ پھر انہی صفات پر سب رنگ سے عشق کی وہ یادیں تازہ کیں۔

دو ہفتے پہلے ہم سب میں ہی ظفر عمران کے کالم سے پتہ چلا کہ حسن رضا گوندل جن کا سب رنگ سے عشق، عقیدت کے رنگ میں ڈھلا ہوا ہے۔ وہ سب رنگ میں چھپی ہوئی سمندر پار کے ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم پر مبنی منتخب کہانیاں ایک کتابی صورت میں چھپوا رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں محترم شکیل عادل زادہ سے اجازت بھی حاصل کر لی ہے جواس کتاب کے لئے سب سے اہم مرحلہ تھا۔ بھلا ہو سوشل میڈیہ اورفیس بک کا جن سے خبریں اب منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں مل جاتی ہیں۔ اس لئے جب فیس بک پر سب رنگ کہانیاں کے چھپنے کا اشتہار دیکھا تو فوراً ہی اسے حاصل کرنے کی ٹھانی۔ بک کارنر جہلم ہم سے چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن کرونا نے ہمیں بھی ان دنوں گھر تک محدود کر دیا ہوا ہے۔ اس لئے آن لائن آرڈر دیا اور دوسرے ہی دن کتاب ہمارے ہاتھ میں تھی۔

بک کارنر جہلم والے کتاب میں واقعی جان ڈال دیتے ہیں۔ کتاب خوبصورت ہو۔ لکھائی چھپائی اچھی ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی خرید لینے اور پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ سب رنگ کہانیاں کو حسن رضا گوندل کے حسن انتخاب اور گگن شاہد۔ امر شاہد کی محنت نے مل کر دو آتشا بنا دیا ہے۔ ہمارے لئے توشکیل عادل زادہ کا انتخا ب ہی عقیدت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ ہم نے سب رنگ کی کسی اشاعت میں کبھی بھی کوئی غیرمعیاری چیز نہیں پڑھی۔ کتاب کا سرورق سب رنگ کے پرانے شماروں کے ٹا ئیٹلز سے مزین ہے اور سب رنگ کی یاد دلاتا ہے۔

میں نے کتاب تو ایک دن میں ہی پڑھ لی تھی لیکن ماضی کی کتنی یادیں اور واقعات جو سب رنگ سے جڑے ہوئے تھے وہ اب تک ذہن میں آرہے ہیں۔ سارا دن ہمیں نوجوانی کے بہت سے واقعات یاد آئے۔ کیسے سب رنگ خریدنے کے لئے شہر کے چکر لگتے تھے۔ کون آکر گھر سے سب رنگ چرا کر لے جاتاتھا اور کس کس سے ان چوریوں پر لڑائیاں ہوئیں۔ آج کی جوان نسل نے سب رنگ کو نہیں دیکھا۔ اس لئے انھیں ہمارے جنون کا پتہ نہیں ہے۔ ان کو یہ باتیں کہاں سمجھ آئیں گی۔

شکیل عادل زادہ نے سب رنگ تماشا میں وہی کچھ لکھا ہے، جو ان کاخاصہ رہا ہے۔ انہوں نے واقعی دریا کو کوزے میں بندکر دیا ہے۔ سب رنگ کا ذاتی صفحہ پڑھ کر ہی سب رنگ کے عہد کے ہم جیسے لوگ اس کے عشق میں مبتلا ہوئے تھے۔ پورے شمارے میں اور کہانیوں کے علاوہ شکیل عادل زادہ کا ذاتی صفحہ پڑھنے کی خاص چیز ہوتی تھی۔ اس میں وہ قارئین سے اپنے دل کی باتیں کرتے تھے۔

حسن رضا گوندل نے رنگ رنگ سب رنگ میں اپنا دل کھول کر سب کے آگے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے سب رنگ کے عشق بلکہ عقیدت میں جو کام کیا ہے وہ کوئی سچا عاشق اور حقیقی عقیدت مند ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس میں بیان کیا ہے کہ اپنی اس جدوجہد میں انہوں نے کیسے سب رنگ کے پرانے شمارے اکٹھے کیے، کیسے ان کی سکیننگ کی، کیسے اس میں شائع ہونے والی کہانیوں کی درجہ بندی کی، ان کی علیحدہ علیحدہ فائلیں ترتیب دیں۔ شکیل عادل زادہ کو ہم ایک کمال پرست مانتے ہیں۔

یہ سب رنگ کے لئے حسن کا جنون اور ان کے سچے عشق کی لگن تھی جس کو دیکھتے ہوئے شکیل عادل زادہ نے ان کی اشاعت کی اجازت دے دی۔ میں نے حسن کو اس کتاب کی اشاعت پر فون پر مبارک باد دی۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کی سادہ زبان اور دھیمہ لہجہ دیکھ کر کوئی نہیں کہ سکتا کہ ان کا تعلق منڈی بہاوالدین سے ہے۔ ان کی یہی سادگی اور عاجزی دیکھ کر مجھے ان کے سب رنگ سے سچے عشق کا یقین ہو گیا۔

ًسب رنگ کہانیاں ً میں غیر ملکی ادیبوں کی تیس کہانیاں شامل ہیں، جن کا انتخاب حسن نے کیا ہے۔ یہ ساری کی ساری کہانیاں سب رنگ کے مختلف شماروں میں چھپ چکی ہیں۔ ستر کی دیہائی میں ہمارے جیسے دیہاتیوں کے لئے تو یہ تراجم ایک نعمت غیرمترقبہ تھی، جنھیں نہ تو اتنی انگریزی آتی تھی اور نہ ہی ان کہانیوں تک رسائی حاصل ہوتی تھی۔ آج دوبارہ یہ کہانیاں پڑھنے سے یہ پھر ذہن میں تازہ ہو گئیں۔

اس کتاب میں شامل انتخاب میں مجھے او ہنری کی ً درجہ ً، موپساں کی ًخمیازہ ً ا ور چیخوف کی ًٹھوکر ً نے زیادہ متاثر کیا۔ ان تینوں ادیبوں کا تعلق مغرب کے تین مختلف ممالک سے تھا لیکن تینوں میں ایک چیز مشترک یہ ہے کہ تینوں کا انتقال عین عالم شباب میں ہوا۔ تینوں ہی ایک دوسرے کے تقریباً ہم عصر تھے۔ انہوں نے چوالیس سال کی عمر میں ہی وہ ادب تخلیق کیا جو ان کو رہتی دنیا تک لوگوں میں زندہ رکھے گا۔ ہمارے ہاں یہ درجہ سعادت حسن منٹو کو حاصل ہے۔

روسی ادیب لیوٹالسٹائی کو عالمی ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس نے اس پرشوب وقت میں عدم تشدد اور انسانی محبت کا پرچار کیا۔ اس کی کہانی How Much Land Does a Man Need کا مدبر رضوی کا کیا ہوا ترجمہً حاصل ضرب ً کے عنوان سے اس کتاب میں شامل ہے جو ایک خاصے کی چیز ہے۔ یقیناً آدمی کو دو گز زمین ہی چاہیے، جس کے لئے وہ زندگی کا اتنا لمبا سفر طے کرتا ہے اور اپنے اردگرد اتنی چیزوں کو اکٹھا کرتا ہے۔

ولیم سمرسٹ ماہم بھی ایک برطانوی نژاد فرانسیسی ادیب ہے وہ بھی عالمی ادب میں ایک بلند درجے پرفائز ہے۔ اس کی کہانیوں کے تراجم بھی سب رنگ میں اکثر شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی ایک طویل کہانی کا نعیم جمالی کا کیا ہوا ترجمہ بھی زمین دوز کے عنوان سے اس کتاب کا حصہ ہے۔ یہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔

یہ کتاب سب رنگ کے عشاق کے عشق مشترک کے لئے بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اب انھیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ اب ضروربرسات ہوگی۔ ہمیں امربیل کی آخری قسط کا بھی شدت سے انتظار ہے جو بقول رؤف کلاسرہ شکیل عادل زادہ لکھ رہے ہیں۔ سب رنگ کے عشاق کو اس سیریز کی باقی کتب کا انتظاربھی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments