حیرتوں کو للکارنا ضروری ہے


نوبل انعام یافتہ ترک مصنف اورہان پاموک کی ایک کتاب ہے، اے سٹرینگنس ان مائی مائنڈ۔ اکثر ہمارے دماغ میں ایک اجنبی ہوتا ہے، جس سے ہم واقف نہیں ہوتے۔ جو شرارتیں کرتا ہے اور جو ہمارے ساتھ ہی زندگی بسر کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ اتنا مختلف ہوتا ہے کہ دماغ میں رہنے کے باوجود ہم اس کی شناخت نہیں کر پاتے۔

’برف‘ ، ’میرا نام ہے کہ سرخ‘ اور ’دی بلیک بک‘ جیسی کتابوں کا مصنف بار بار اپنے شہر استنبول کی گلیوں میں بھٹکتا ہے۔ تاریخی حوالوں میں سمٹی ان گلیوں میں دنیا بھر کے ہمزاد گھومتے نظر آتے ہیں۔ پاموک میں ایک خاص طرح کا ناسٹیلجیا ہے۔ پرانی قدروں، قدیم تاریخ، تھذیب، معاشرہ اور پر اسرار شہر کی دیواریں، سڑکیں اور گلیوں کو ساتھ لے کر چلنا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ یہ کویی ایسی خصوصیات نہیں ہیں، جو اردو والوں میں نہیں ہیں۔ مستنصر حسین تارر کے یہاں بھی مختلف موقعوں پر یہ ہمزاد دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ ہمزاد دنیا بھر کی، کبھی قدیم ہندوستان، سندھ کی تھذیب، کبھی تقسیم ملک کبھی سقوط بنگلہ دیش اور کبھی روحانی دنیا کے سفر پر بھی لے جاتا ہے۔ مگر تارر صاحب جیسے کتنے ناول نگار ہیں جو حیرتوں کا سراغ لگاتے ہیں؟

خیر اورہان پاموک کیکتاب کی چل رہی تھی۔ وہ پر جوش ہے اور تاریخوں کو ترتیب دینے کے عمل سے واقف ہے۔ اور یہی چیز اسے اہم بناتی ہے اور جیسا کہ اس ناول میں ہے۔ ایک اجنبی جو کردار کے دماغ میں داخل ہو کر اسے تاریخ کے گمشدہ زمانوں کی سیر کرا رہا ہے۔ کئی بار رات کے وقت، استنبول کی سڑکوں پر وہ مارا مارا پھرتا ہے اور شیطانوں کے سائے سے آمنا سامنا ہوتا ہے۔ پھر اہان پامک ان کہانیوں کو بھی سامنے لاتے ہیں جن کا ذکر پچھلے ناولوں میں وہ کر چکے تھے۔ گنہگاروں اور ان لوگوں کی تلاش، جو اپنا راستہ کھو چکے تھے، جسے وہ پکڑ کر انڈرورلڈ تک لے جاتے۔ اور ایسا لگتا ہے، جیسے یہ دنیا بہت قریب سے پامک نے دیکھ رکھی ہو۔ کہانی کے مرکزی کردار میلوت نے رعیہ کو مخاطب ہوئے محبت کے خط بھیجے تھے۔

اس لڑکے کا نام میالوت کراٹاس تھا۔ وسطی اناطولیہ، ترکی میں رہتا تھا اور حیرت کرتا تھا کہ اگر وہ بڑا ہوا تو وہ کیا ہو گا۔ وہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا اور 12 سال کی عمر میں وہ استنبول آیا تھا۔ وہ شہر جو ایک طرف منہدم کیا جا رہا تھا اور دوسری طرف تیزی سے تعمیر کیا جا رہا تھا۔ وہ شہر کے منہدم ہونے اور تعمیر دونوں شکلوں کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔ اس نے اپنے والد کا کاروبار شروع کیا اور سڑکوں پر بوجا (ایک قسم کا مشروب) بیچنا شروع کر دیا۔

اس نے خواب دیکھا تھا کہ ایک دن وہ ان سب لوگوں کی طرح امیر ہو جائے گا جو اپنے گاؤں سے بہت پہلے یہاں آباد ہوچکے تھے۔ لیکن پھر وقت اس کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ اسے ایک لڑکی سے پیار ہے۔ جسے وہ شادی میں صرف ایک بار ملا تھا۔ تین سال تک، وہ لڑکی کو محبت کے خط لکھتا ہے اور پھر بھاگ جاتا ہے اور غلط فہمی میں اپنی بہن سے شادی کرتا ہے۔

رفتہ رفتہ وہ اپنی ’غلط‘ بیوی اور اس کے کنبے کو قبول کرتا ہے۔ اس کی زندگی کے کیی برس گزر جاتے ہیں۔ ۔ اس دوران، وہ بہت سی نوکریاں کرتا ہے لیکن ہر شام، وہ اپنی ناکامی سے بے خبر، استنبول کی سڑکوں پر گھومتا ہے، بوجا فروخت کرتا ہے اور اپنے دماغ کی ’سازشوں پر حیرت زدہ رہتا ہے۔ غیر معمولی طور پر متحرک ہونے کی وجہ سے، وہ خود کو دوسروں سے مختلف محسوس کرتا ہے لیکن تقدیر نے اسے سمجھانے کے لئے ایک اور سازش تیار کی۔ ہم اپنے اندر کے اجنبی سے جنگ نہیں کر سکتے۔ یہ دماغ ہے جو ہمیں گول گول گھماتا رہتا ہے۔ یہ کتاب ایک عظیم شہر میں ایک عام آدمی کی زندگی کی کہانی ہے۔

کہانی میں خوشگوار حیرتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں سب سے اہم کڑی محبت ہے۔ بوزا بیچنے والے میلوت نے جس عورت کو استنبول میں تین سال محبت کے خطوط لکھے تھے، کیا یہی تین برس اس کے لئے سب سے قیمتی تھے؟ 1969 سے 2012 کے درمیان چار دہائیوں میں، میلوت استنبول کی سڑکوں پر دہی اور پکا ہوا چاول بیچنے سے لے کر کار پارک کی حفاظت تک متعدد مختلف ملازمتوں کا کام کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ مختلف طرح کے لوگ سڑکوں پر کیسے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔

وہ دیکھتا ہے کہ زیادہ تر شہر منہدم اور دوبارہ تعمیر ہوتے ہیں، اور وہ اناطولیہ سے آنے والے تارکین وطن کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی، وہ ان تمام تر لمحات، سیاسی جھڑپوں، اور فوجی بغاوتوں کا مشاہدہ کرتا ہے جو ملک کو تشکیل دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ حیرت زدہ رہتا ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو اسے ہر کسی سے جدا کرتی ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی سردیوں کی شام کے وقت بوزا بیچنے اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے کہ واقعی اس کا محبوب کون ہے؟

ہم کیا چاہتے ہیں، یا ہماری قسمت کا کیا سامان ہے؟ کیا زندگی کے لئے ہمارے انتخابات ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم خوش ہوں گے یا نہیں، یا یہ چیزیں ہمارے قابو سے باہر کی قوتوں کے ذریعہ طے کی جاتی ہیں؟ ہزاروں سوال۔ لیکن سب سے اہم جذبہ محبت۔ جو ہزار گمشدگی کے باوجود، ہمارے وجود کا اہم حصہ ہوتا ہے۔

وقت کے ساتھ ناول اور فکشن کی دنیا بہت حدتک تبدیل ہوچکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا نقاد آج بھی فکشن اورناول کو اپنی اپنی تعریف وتشریح کے محدود پیمانے میں قید کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی کہانی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ ایک انجام یا کلائمکس ہوتا ہے۔ کہانی ایک صدی سے زیادہ کا سفر طے کرچکی ہے۔ اور ہماری زندگی تہذیب کی اس اندھیری سرنگ میں گم ہے جہاں نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ اس تیز رفتار بھاگتی ہوئی زندگی کا کوئی انجام کیونکر لکھا جاسکتا ہے۔

ناول کے ساتھ بھی ٹھیک یہی معاملہ ہے۔ ایک نئی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ اس نئی دنیا میں حقیقت فنٹاسی کا فرق اٹھ چکا ہے۔ اچھے ناول کے لیے نئی نئی زمینیں موجود ہیں۔ علامت سے فنتاسی تک کی ایک بڑی دنیاسامنے ہے۔ ایک جرمن ناول نگار جرمنی میں فروخت ہونے والے چاکلیٹ کی الگ الگ قسموں کو لے کر ایک ناول کی تخلیق کرتا ہے۔ ہر چاکلیٹ ایک بچہ، بچہ کے ماں باپ اورماں باپ کی دنیا سے وابستہ کہانیوں کو سامنے رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ ایک حیران کرنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے تجربے صرف باہر ہورہے ہیں۔ آج اردو میں بھی اس طرح کے تجربے مسلسل ہورہے ہیں۔ مثال کے لیے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ یا ’صفر سے ایک تک‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ ناول کی یہ نئی زمین پریم چند اورقرۃ العین حیدر کی زمینی حقیقت سے بہت حد تک مختلف ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اہان پاموک مسلسل اپنے قاری کو حیران کر رہا ہے۔ ہمارے ناول نگار اس لفظ سے دور نکل گئے ہیں، جسے حیرت کہتے ہیں۔ جب تک آپ حیرتوں کے پیچھے نہیں بھاگیں گے، آپ بھول بھلیاں فلسفوں میں گم رہیں گے۔ پھر ناسٹیلجیا، غلامی، ہجرت کے موضوعات سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ یہ بڑے ناول نگار حیرتوں کو للکارتے ہیں اور حیرت کی ان وادیوں سے ہی نئی نیی کہانیوں کی پرورش ہوتی ہے۔

بہت پہلے ہرمن ہیسسے کا ناول ”ڈیمیان“ پڑھتے ہوئے میں ”سپرمین“ سے انسپائر ہوا تھا۔ برنارڈشا کے یہاں بھی جابہ بجا اس سوپرمین کے اشارے ملتے ہیں۔ ہرمن ہیسسے کا خیال تھا کہ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی اس راستے کی نمائندگی کرتی ہے جو خود اس کی طرف جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اپنے مکمل ہونے کا بھرم پال لیتا ہے۔ پھر اس بھرم کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ ہم سب خوفناک یا پھر کسی حد تک خوشگوار تبدیلیوں سے گھر گئے ہیں۔

نئی ٹیکنالوجی عام آدمیوں کو کمزور اور بیکار کرتی جارہی ہے۔ ایک معمولی روبوٹ عام انسان پر بھارتی پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ، سائبر کرائم سے لے کر جینوم اور کلوننگ پروسیس تک آنکھ کھول کر دیکھئے۔ ۔ ۔ انسان اپنی ایجادوں کی روشنی میں اگر فاتح ہے تو وہیں وہ ہارا ہوا بھی ہے۔ وہ اپنے جیسے کلون بناتا ہے اور آئن اسٹائن سے لے کر اب تک کے سائنسداں اس پر بھی مغز ماری کرتے ہیں کہ خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خدا کے کاموں میں دخل نہیں دیا جاسکتا۔

اسی لئے کلوننگ پروسیس کو ابھی تک انٹرنیشنل قانون نے عام انسانوں کے لئے منظور نہیں کیا ہے۔ حال میں ہنگامہ ہوا کہ برین ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے، پچاس یا سو سال کے بعد کوئی بھی نہیں مرے گا۔ نئی دنیا کا ایک بھیانک تصور ان سب سے الگ میزائل اور ایٹم بم بنالینے کے راستوں سے بھی گزرتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک اس بات سے بھی ڈر رہے ہیں کہ آج چھوٹے چھوٹے ملکوں نے بھی نیوکلیائی، ایٹم بم اور دوسرے نیوکلیائی ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔

کہتے ہیں آج عدم تحفظ کی فضا کو لے کر امریکی پ بھی ریشان ہیں۔ غیرمعمولی طور پر امریکہ اور یوروپ کے ملکو ں ں میں صوفیانہ کلام مشہور ہورہا ہے۔ امریکہ میں مولانا روم کا صوفیانہ سنگیت اس قدر مشہور ہورہا ہے کہ امریکی اس موسیقی پر ناچ رہے ہیں۔ یہ سب ہے اور یہیں دوستوفسکی کا مسخرہ یا پامک کا اجنبی بھی ہے۔ پامک دماغی الجھنوں میں گرفتار اجنبی یا ہمزاد یا عام آدمی کو کردار بناتا ہے۔ دراصل پامک اس کی روح میں داخل ہو کر اس کا ایکس رے کرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اقتدار کی خواہش کی جگہ یہ عام آدمی محبتوں کی گرفت میں ہے۔ اور پامک اس عام آدمی کے خزانے سے اتنا کچھ برآمد کر لیتا ہے، جو ہم نہیں کر پاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments