پاکستان میں جمہوریت: ابھی طویل سفر باقی ہے


پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسے موقع پر جمہوری اور آئینی حق کے لئے ’یوم سیاہ‘ منا رہی ہے جب عملی طور سے معاملات طے کرنے کا سارا اختیار عسکری اداروں کو منتقل ہوچکا ہے۔ گو کہ 5 جولائی 1977 کو فوج نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا اور جنرل ضیا الحق نے اس ملک کی تاریخ کا بدترین مارشل لا مسلط کیا تھا لیکن چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی حالات کو جمہوریت اور آئین کے حق میں تبدیل کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔

اس دوران 9 برس تک جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ایک نئی فوجی حکومت بھی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے اور آئین کو معطل کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ کے عطا کردہ خصوصی اختیار کے تحت پرویز مشرف کے دور میں آئین کو قومی مفاد سے ہم آہنگ کرنے کے لئے متعدد ترامیم بھی کی گئیں ۔ تاہم 2007 میں جب عوام کے ہجوم نے عدلیہ تحریک کے نام پر فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کا بھرپور مظاہرہ کیا تو ’عوام دوست‘ بنائے گئے آئین کو بھی معطل کرنا پڑا اور ایمرجنسی لگا کر اقتدار مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک خصوصی عدالت اس آئین شکنی پر پرویز مشرف کو موت کی سزا سنا چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے علاوہ ملک کے متعدد ’جہاں دیدہ ‘مبصرین اس فیصلہ کو ’قومی و ملکی مفاد‘ کے خلاف سمجھتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں جمہوریت کی بات کی جاتی ہے۔ اور 5 جولائی کو پیپلز پارٹی نے یوم سیاہ بھی منایا۔

صرف اس حقیقت سے کہ 1977 میں نافذ کئے گئے مارشل لا کے خلاف ملک کی صرف ایک جماعت کو احتجاج کرنے اور اس حوالے سے جمہوریت یا آئین کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ملک کی متعدد سیاسی جماعتوں کے لئے دراصل جمہوریت یا آئینی طریقہ کار کے مطابق معاملات ریاست چلانے کی کیا اہمیت ہے۔ پیپلز پارٹی کا احتجاج گو کہ اصولی ہے لیکن اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس فوجی تسلط میں پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔ بعد میں جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے ایک جعلی مقدمہ میں اپنے محسن لیڈر کو پھانسی دلوانے کا المناک کارنامہ انجام دیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں اس گھناؤنے جرم میں اس فوجی آمر کی شریک تھیں۔ بعینہ مسلم لیگ (ن) کا یوم سیاہ 12 اکتوبر کو ہوتا ہے جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا۔ یا شاید اب 28 جولائی 2017 کو نواز لیگ کا نیا یوم سیاہ قرار دیا جائے جس روز سپریم کورٹ کے حکم سے نواز شریف کو پاناما کیس کے نتیجہ میں معزول کیا گیا تھا۔

اپنا پنا یوم سیاہ منانے کا نقصان صرف جمہوریت کو ہی ہوسکتا ہے۔ اس رویہ سے آئینی بالادستی کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ملک پر اگر بدستور غیر منتخب عناصر کی بالادستی ہے تو اس کا الزام اسٹبلشمنٹ پر عائد کرنے سے پہلے اس کا جواب سیاسی جماعتوں کو خود اپنی بے عملی اور مسلسل مصلحت پسندی میں تلاش کرنا چاہئے۔ 1988 میں ضیا الحق ایک طیارہ حادثہ میں جان سے گئے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو دو دو بار حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اس کے ساتھ ہی اس سچائی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے ان چار ادوار میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مقدموں میں پھنسانے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔ آج بھی دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت انہی مقدمات کا سامنا کررہی ہے جو ان ادوار میں قائم کئے گئے تھے اور جنہیں ’کرپشن فری پاکستان ‘ کے نئے سلوگن کے ساتھ پھر سے زندہ کیا گیا ہے۔

شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے طویل جلا وطنی کے دوران اپنی غلطیوں کا ادراک ضرور کیا جس کے نتیجے میں دونوں لیڈروں نے مئی 2006 لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کے علاوہ ملک میں جمہوری روایت کو مستحکم کرنے اور عدلیہ کو خود مختار بنانے کے لئے متعدد اقدامات پر اتفاق رائے کیا گیا۔ بے نظیر کی ایک دہشت گرد حملہ میں شہادت کے بعد گو پیپلز پارٹی 2008 میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن بہت جلد میثاق جمہوریت کو بھلا دیا گیا۔ نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل میں انہی قوتوں کا آلہ کار بننے پر آمادہ ہو گئے جن کی وجہ سے وہ کئی برس تک سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کو کمزور کریں گے تو 2013 کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اکتوبر 1999 کے سانحہ کا شکار ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے جمہوری قوت کے طور پر پیپلز پارٹی کے حق حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔

آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو مستحکم کرنے اور صوبوں کو زیادہ اختیار کے علاوہ مالی وسائل فراہم کرنےکی ضمانت فراہم کی۔ لیکن دونوں بڑی پارٹیوں کی چپقلش میں پیپلز پارٹی کا یہ عظیم کارنامہ بھی 2013 میں اسے انتخابی کامیابی نہیں دلوا سکا۔ اس ناکامی کی وجہ اگرچہ بنیادی شہری ضرورتیں پوری کرنے میں ناکامی تھی لیکن اس سچ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ اور مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے لئے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 کا زیادہ عرصہ اپنا اقتدار محفوظ رکھنے کی کوششوں میں صرف کیا اور عوامی ضرورتوں کے منصوبے نظر انداز ہوتے رہے۔

نواز شریف ان کوششوں کے نتیجہ میں 2013 کا انتخاب جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگئے لیکن جن قوتوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو عاجز کیا گیا تھا ، انہوں نے ہی 2014 میں عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کو اسلام آباد میں دھرنا دینے پر آمادہ کر لیا ۔ اس دھرنا کا مقصد اگر حکومت گرانا نہ بھی ہو تو بھی اس سے حکومت کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں رکھنا مقصود تھا۔ پارلیمنٹ کی حمایت کی وجہ سے نواز شریف اس بحران سے نکلنے میں ضرور کامیاب ہوئے لیکن اس کے بعد پہلے ڈان لیکس اور پھر پاناما کیس میں ان کی حکومت مسلسل اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہی۔ آصف زرادری جو اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے خود کو جمہوریت کا چمپئین قرار دیتے ہیں، اس دوران بلوچستان میں سیاسی اتھل پتھل اور چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں انہی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے پر ’مجبور‘ ہوئے جن سے ملکی آئین اور جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لئے آج ’یوم سیاہ‘ منایا جارہا ہے۔

اس آئینے میں سارے چہرے بھیانک دکھائی دیتے ہیں۔ 22 برس تک سیاسی جد و جہد کا دعویٰ کرنے والے عمران خان بالآخر اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسی در پر حاضری لگوانے پر آمادہ ہوگئے جہاں سے وزارت عظمی انعام میں ضرور دی جاتی ہے لیکن ’ایک پیج کی سیاست‘ کا حلف نامہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔ عمران خان کو نامزد کہا جاتا ہے اور وہ خود کٹھ پتلی بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کیوں کہ اپنے ذاتی اقتدار کو ہی اہل پاکستان کی فلاح کا سب سے بہتر راستہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ حکومت میں تقریباً دو سال پورے ہونے کے باوجود وہ اس فلاح کا نشان تک دکھانے میں ناکام رہے ہیں جس کا وعدہ کرتے ہوئے انہوں نے دو دہائیاں صرف کی ہیں۔ ان کی کابینہ کے سارے چہرے اہل پاکستان کے سال ہا سال سے آزمودہ ہیں اور ان کے کارنامے بھی پرانے ہی ہیں۔ گندم اسکینڈل، شوگر اسکینڈل کے بعد پاکستانی پائیلٹس کے لائسنسوں کے سوال پر پیدا کیاگیا بحران اور شدید قلت اور ذخیرہ اندوزی کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ جیسے اقدامات سے عمران حکومت کی نااہلی کے علاوہ بے اختیاری کا پول بھی کھل چکا ہے۔ مافیا ز کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے عمران خان زبانی جمع خرچ میں مافیاز کو ختم کرنے کا دعویٰ کرکے اپنے ان حامیوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے خیال ان کے لفظوں کا حقائق سے موازنہ کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں۔

عمران خان کے خیال میں دوسروں کے خلاف دشنام طرازی ہی سب سے بڑی کامیابی ہے اور سیاسی مخالفین کو جیل بھیج کر ہی ’مدینہ ریاست ‘ قائم کرنے کا عظیم مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال، پیداوار میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ اور سب سے بڑھ کر عمران خان سے باندھی گئی رومانویت بکھرنے سے سماجی سطح پر شدید بے چینی اور ذہنی اضطراب کی صورت حال جنم لے رہی ہے ۔ یہ اضطراب کسی حکومت پر اعتبار کو کمزور کرتا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی طبی صورت حال اور اپوزیشن کی کمزوری کے سبب عمران خان خود کو یکتا اور ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کی کم نظری کے علاوہ تکبر و گھمنڈ کی وجہ سے البتہ عوامی احتجاج سے بھی پہلے کابینہ میں بحران کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ اس انتشار کو ملک میں سیاسی تبدیلی کا ابتدائیہ یانقطہ آغاز بھی کہا جاسکتا ہے۔

اس سیاسی منظر نامہ میں پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے یوم سیاہ منانا ضروری سمجھتی ہے جبکہ اس مقصد کے حصول کے لئے سیاسی جد وجہد ناپید ہے۔ تبدیلی کی موجودہ خواہش کے سارے راستے اسی مرکز تک پہنچتے ہیں جس کی مرکزیت سے انکار ہی آئینی بالادستی کا راستہ ہموار کرسکتا ہے۔ سیاسی لین دین کی کوششوں کے علاوہ جب ملک کے ہر تبصرہ کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہو کہ طاقت کے اصل مراکز کب ایک ناکام حکومت کو تبدیل کریں گے؟ تو جان لینا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت کے حصول کا سفر ابھی بہت طویل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments