چین، ایران کے درمیان ’شیر اور ڈریگن‘ معاہدے سے ایرانی ناخوش کیوں ہیں؟


چین اور ایران کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے بارے میں ابھی کوئی تفصیلی اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین یہ معاہدہ اگلے 25 سالوں تک نافذالعمل رہے گا۔

ماہرین اور عام لوگ اس معاہدے کے متعلق مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں تاہم ایران کے بیشتر شہری اس بارے میں مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔

اس معاہدے کو ‘لائن ڈریگن ڈیل’ یا ’شیر اور ڈریگن کا معاہدہ‘ کہا جارہا ہے کیونکہ ایران کے سخت نظریات کے حامل اخبار ‘جوان’ نے اس معاہدے کی خبر اسی عنوان کے ساتھ شائع کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین ایران کو اقتصادی بحران سے نکال سکتا ہے؟

تین باہمی دشمنوں کے ساتھ چین نے تعلقات کیسے بنائے؟

ایران کا فیصلہ جوہری بلیک میل ہے: امریکی اہلکار

ٹرمپ اور آیت اللہ خامنہ ای

ایران اور امریکہ کے درمیان ایک عرصے سے رسہ کشی جاری ہے

یہ معاہدہ کیا ہے؟

اس معاہدے کا اعلان چینی صدر شی جن پنگ کے ایرانی دورے کے موقعے پر پہلی بار 23 جنوری سنہ 2016 کو ایک مشترکہ بیان کے ذریعے کیا گیا تھا۔

ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم کے مطابق اس معاہدے کے آرٹیکل چھ کے تحت دونوں ممالک کے درمیان توانائی، بنیادی ڈھانچے کے فروغ، صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافے کی بات کہی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق اس کے تحت ‘فریقین نے آئندہ 25 سالوں تک باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔’

چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے دوران ایران کے سربراہ اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے ‘کچھ ممالک’ بطور خاص امریکہ کی بالادستی والی پالیسی کی طرف اشارہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا: ‘اس صورتحال کے پیش نظر آزاد ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ تعاون کرنا چاہیے۔ دونوں فریق آئندہ 25 سالوں تک ایران اور چین کے مابین ہونے والے اس اسٹریٹجک معاہدے پر سنجیدگی سے عمل کریں گے۔’

خامنہ ای کے علاوہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی متعدد مواقع پر امریکی پابندیوں کے خلاف چین کی حمایت اور اتحاد کی تعریف کی ہے۔

21 جون کو روحانی نے کابینہ کے ایک اجلاس میں کہا کہ یہ معاہدہ چین اور ایران دونوں کے لیے بنیادی انفرا سٹرکچر سے منسلک منصوبوں میں حصہ لینے کا ایک موقع ہے۔ روحانی نے کہا کہ انھوں نے چینی فریق کے ساتھ بات چیت کرنے اور اس بات چیت کا حتمی خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری وزیر خارجہ جواد ظریف کو سونپی ہے۔

توانائی کے شعبے میں تعاون

ایرانی ماہر معاشیات علی اصغر زرگر نے ایران کی نیوز ایجنسی آئی ایل این اے کو ایک نیم سرکاری انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران، چین اور روس کے مابین تیل سے متعلق کوئی بھی معاہدہ توانائی، سلامتی اور معاشی معاملات میں مددگار ثابت ہوگا۔

زرگر نے کہا: ‘چین اپنی پالیسی کے تحت ان ممالک کا انتخاب کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک کے زیر اثر نہیں ہیں۔ لہذا چین کو ایران سے آزادانہ طور پر مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف چین نے بھی ہمارے کچھ منصوبوں میں حصہ لیا اور اس میں کوئی نوآبادیاتی لالچ نہیں ہے۔ لہذا اس معاہدے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چین کو عراق میں ایران کی موجودگی سے بھی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔’

زرگر کا کہنا ہے کہ اگر چین کو توانائی کے وسائل کی ضرورت ہے تو ایران کو ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لہذا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔

ٹرمپ اور شی جن پنگ

چین اور ایران بمقابلہ امریکہ

ایرانی اخبار ‘جوان’ نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ یہ ایران اور چین کے درمیان معاہدے کے لیے بہترین وقت ہے کیونکہ اس وقت امریکہ چین کے سامنے ‘کمزور’ محسوس کرتا ہے اور چین امریکہ کے ساتھ ‘غیر محفوظ’ محسوس کرتا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ چین کی ‘امریکہ مخالف’ پالیسیاں بھی معاہدے کے لیے سود مند ہیں۔

اخبار نے ایرانی پارلیمنٹ مجلس کے سپیکر محمد باقر قالیباف کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ٹرمپ انتظامیہ دوسرے ممالک کی آزادی اور حکمرانی میں مداخلت کرتی ہے۔ امریکہ نے ایران اور چین کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ہم اس کے گواہ رہے ہیں۔ اس لیے چین کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی تعاون لازمی ہے۔ ہم اسے نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔’

ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے 23 جون کو کہا کہ اس معاہدے کے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ معاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کی ایران کو الگ تھلگ کرنے اور اس کے بین الاقوامی تعلقات کو منتشر کرنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔’

روحانی اور شی جن پنگ

کیا ایران کی پالیسی بدل رہی ہے؟

ایران کے سینیئر صحافی احمد زیدابادی کا خیال ہے کہ ایران ‘ایسٹ پالیسی’ کا رخ نہیں کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی نظام کا حصہ بن رہا ہے۔

احمد لکھتے ہیں: ‘چین دنیا سے دشمنی کے بجائے استحکام پر زور دیتا ہے۔ وہ ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔’

اسی کے ساتھ احمد کا یہ بھی خیال ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے ایران کی اپنی پالیسیاں بدل جائیں گی اور وہ چین کی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

احمد پوچھتے ہیں کہ کیا ایرانی حکام نے امریکہ اور یورپ کو دھمکانے کے لیے چین کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہے تاکہ ایران پر پابندی لگانے والی پالیسیوں میں وہ نرمی لائیں۔

احمد کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت نے یہ معاہدہ اس لیے کیا ہو کہ اسے اپنی پالیسیوں تبدیلی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نظر نہیں آیا ہو۔

احمدی نژاد

یہ معاہدہ اتنا ‘خفیہ’ کیوں ہے؟

اس معاہدے کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم نہ کرنے پر ایرانی حکومت پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے 27 جون کو ایک ریلی میں کہا: ‘عوام کی خواہشات اور مطالبات کو جانے بغیر کسی بھی غیر ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ قومی مفاد کے منافی اور ناقابل قبول ہے۔’

انھوں نے اس معاہدے کے ‘غیر واضح’ ہونے اور ایرانی حکومت کے ‘حقائق کے راز’ رکھنے پر تنقید کی۔ احمدی نژاد نے سرکاری عہدیداروں سے اپیل کی کہ وہ اس معاہدے کے بارے میں ملک کو آگاہ کریں۔

احمدی نژاد کے الزامات کے جواب میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ چین کی منظوری کے بعد وزارت اس معاہدے کی مکمل تفصیلات شائع کرسکتی ہے۔ انھوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ اس معاہدے کی دفعات میں کوئی ‘ابہام’ ہے۔

ماہر معاشیات محسن شریعتنا کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران اب مشرق کی طرف نرم حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا روڈ میپ اسٹریٹجک تعاون ہے جو ‘اتحاد’ سے مختلف ہے۔ محسن کا خیال ہے کہ چین اور ایران کے خیالات، پالیسیاں اور آئین بالکل مختلف ہیں۔

ایران کے لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟

ایران کے عوام اس معاہدے کی خبر سے خوش نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ اس معاہدے کو ‘چینی استعمار’ کا آغاز بتا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں ‘ایران ناٹ فار سیل ناٹ فار رینٹ’ یعنی ایران فروخت کے لیے یا کرائے پر دیے جانے کے لیے نہیں ہے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس کے تحت 17 ہزار بار ٹویٹ اور ری ٹویٹ کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp