کورونا وائرس کی وبا کے دوران چین کی جانب سے ’بلیک ڈیتھ‘ نامی بیوبونک طاعون کی انتباہ


بیکٹیریا

بلیک ڈیتھ کہلانے والا بیوبونک طاعون بیکٹیریا سے پھیلتا ہے اور انسان کے لمف نوڈز کو متاثر کرتا ہے

چین کے خودمختار خطے اندرونی منگولیا کے ایک شہر میں ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے جانا جانے والے بیوبونک طاعون کے کیسز سامنے آنے کے بعد حکام نے ایک انتباہ جاری کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بیانور شہر میں اس طاعون کی زد میں آنے والا مریض ایک چرواہا ہے اور اسے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تاہم مریض کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

بیوبونک طاعون بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ خطرناک ہوسکتے ہیں، لیکن ان کا علاج عام طور پر اینٹی بائیوٹک دوائیوں سے کیا جاتا ہے۔

اس کیس سے متعلق معلومات سب سے پہلے سنیچر کو بیانور شہر کے سفیر سے ملی۔ مریض کو یہ انفیکشن کیسے ہوا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

اس سلسلے میں چینی حکام نے لیول تھری کا انتباہ جاری کیا ہے۔ چار سطحی انتباہی نظام میں یہ دوسرا کم سے کم خطرناک لیول ہوتا ہے۔

سطح تین کے انتباہ کے تحت ان جانوروں کے شکار اور کھانے پر پابندی ہوتی ہے جن سے طاعون پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو اس کے متعلق مشتبہ معاملات سے حکام کو مطلع کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

مہلک لیکن قابل علاج

بوبونک طاعون کے معاملات پوری دنیا میں وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔

سنہ 2017 میں مڈغاسکر میں طاعون کے 300 کیس سامنے آئے تھے۔ گذشتہ سال مئی میں منگولیا میں مارموٹ نامی جانور کھانے کے بعد دو افراد اس مرض کی زد میں آئے اور ان کی موت ہوگئی۔

منگولیا میں عالمی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ میرموٹ کا کچا گوشت کھانا انسان کے گردے کی صحت کے لیے مفید ہے۔

طاعون

یہ طاعون مہلک ہے لیکن قابل علاج ہے اور اس کے وبائی صورت اختیار کرنے کے امکانات کم ہیں

لیکن میرموٹ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ طاعون کے بیکٹیریا کو پھیلانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ ان کا شکار کرنا غیر قانونی ہے۔

بوبونک طاعون کے سبب گلٹی ہوتی ہے اور لمف نوڈز میں سوزش ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر بیماری کا پتا لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات تین سے سات دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور کسی بھی دوسرے فلو کی طرح ہوتی ہیں۔

چودہویں صدی میں ایشیا، افریقہ اور یورپ میں تقریبا پانچ کروڑ افراد بلیک ڈیتھ کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ اب اس کے وبائی شکل اختیار کرنے کے آثار کم ہی ہیں۔

سٹینفورٹ ہیلتھ کیئر کے ڈاکٹر شانتی کیپاگوڈا کے مطابق ‘چودھویں صدی کی صورتحال کے برعکس اب ہم جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے۔ ہم اسے روکنا جانتے ہیں۔ ہم اس سے متاثر لوگا کا اینٹی باڈی سے علاج کرتے ہیں۔’

آخری مرتبہ اس کا خوفناک وبا کا سایہ سنہ 1665 کے ‘دی گریٹ پلیگ’ میں دیکھا گیا تھا جس میں شہر کے ہر پانچ میں سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ 19 ویں صدی میں چین اور ہندوستان میں طاعون کی وباء کے سبب ایک کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp