اردو زبان کی تاریخ پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث: ’ہماری قومی زبان کے نام پر داغ کون لگا رہا ہے؟‘


’اگر پاکستان سے اُردو نکال دیں تو قوم کو کس زبان پہ یکجا کریں گے؟‘ ’اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ انگریزوں نے دیا۔‘ ’نہیں نہیں اردو کو مسلمانوں نے رائج کیا۔‘ ’اردو بولنے والے تو ہوتے ہی بوٹ پالشیے ہیں۔‘ ’بسمل نے سرفروشی کی تمنا والی نظم بھی بوٹ پالش کرتے ہوئے لکھی تھی۔‘ ’دیکھو تو بلیک جیکٹ والی لڑکی کیا لسانی فسادات کی باتیں کر رہی ہے۔‘

خیر جتنے منھ اتننی باتیں۔۔۔ ہمارا مطلب ہے ٹویٹس!

یہ پاکستان میں اردو زبان کے ’قوم پر مسلط‘ کیے جانے کے حوالے سے گذشتہ روز سے جاری ناختم ہونے بحث کا ایک نمونہ ہے۔

اس بحث کا آغاز تو بظاہر سعد اسد کی اُس ٹویٹ سے ہوا جس میں انھوں نے چند حلقوں کی جانب سے کی جانے والی اس تنقید کی درستگی کی کہ ‘پاکستان نے سنہ 1947 میں صرف پانچ فیصد آبادی کی بولی جانے والی زبان (اردو) سب پر مسلط کر دی۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کو 1837 میں انگریزوں نے سرکاری زبان قرار دیا تھا اور یہ واضح تھا کہ پاکستان اس زبان کا استعمال جاری رکھے گا۔’

سعد کی ٹویٹ کے جواب میں علی مسعود نامی ایک صارف انھیں سمجھاتے نظر آئے کہ اردو کو سرکاری درجہ انگریز سرکار نے نہیں بلکہ سنہ 1193 میں مسلمانوں نے دہلی پر تسلط کے بعد دیا تھا۔

انھوں نے درخواست کی کہ ’براہ کرم اردو سے نفرت کریں لیکن تاریخی حوالے تو درست پیش کریں۔’ ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے قیام کے بعد کوئی ایسی زبان تھی جو تمام صوبوں میں رابطے کا ذریعہ بن سکتی؟

اردو زبان کے پاکستان میں رائج ہونے سے متعلق یہ بحث شاید زیادہ دیر نہ چلتی اگر عروج اورنگزیب مشہور شاعر داغ کے شعر کا سر پیر توڑ کر ٹویٹ نہ کرتیں۔۔۔

یہ وہی عروج اورنگزیب ہیں جن کی گذشتہ برس فیض فیسٹیول میں ہندوستانی شاعر بِسمل عظیم آبادی کی نظم پڑھنے والی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، اس بار نظم کے بجائے عروج اورنگزیب کے ہاتھوں داغ کا بگاڑا گیا شعر موضوعِ بحث ہے اور سوشل میڈیا پر ہر کوئی ان کی جتنی کلاس لے سکتا تھا، شاید اس سے تھوڑی زیادہ ہی لے رہا ہے!

عروج کی ٹویٹ کے جواب میں ایک صارف کے ان سے پوچھا کیا آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اردو بولنے والے بوٹ پالشیے ہوتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ’اردو زبان کے بارے میں ہر بات اردو بولنے والی کمیونٹی کے بارے میں نہیں ہوتی! بھول رہے ہیں تو یاد رہے ہماری قومی زبان ہے۔ ہر پاکستانی کا اپنی قومی زبان پر بات کرنے کا حق بھی ہے اور اس کے نفاذ کی طاقت اور ظلم سے بھری تاریخ کو یاد کرنا تو فرض لگتا ہے۔‘

عروج کو مخاطب کرتے ہوئے کالم نگار ڈاکٹر محمد تقیٰ کا کہنا تھا ’کامریڈ، بہت سے مسائل ہیں یہاں۔‘

’اوّل تو شعر کا کام تمام کر دیا اور پیروڈی کا بھی پیر توڑ دیا۔ دوسرے یہ کہ اردو سرکار اور رجعت کی زبان تھی تو انقلابیوں کی بھی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری امام علی نازش اردو بولتے تھے۔ حفیظ جالندھری نے اردو میں لکھا تو فیض نے بھی تو لکھا۔‘

جہاں کئی صارفین عروج پر تنقید کرتے نظر آئے کہ ’اردو اتنی خراب ہے تو اردو مت بولیے‘ وہیں کئی ایسے بھی ہیں جو انھیں طلبہ سیاست کی تاریخ میں اردو کی اہمیت کا درس دے رہے ہیں۔

کائنات نامی ایک صارف عروج سے سوال کرتی ہیں کہ ’کیا آپ جانتی ہیں طلبہ سیاست کا انقلاب پاکستانی تاریخ میں کب آیا تھا؟ بحیثت ایک طلبہ تنظیم کی کارکن آپ کو اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہیے تھا کہ طلبہ سیاست میں ایک عظیم انقلاب یہی اردو بولنے والے لائے تھے۔‘

کئی صارفین کو اس بات پر مایوسی ہے کہ عروج نے اردو اور اردو بولنے والوں سے متعلق یہ رائے ظاہر کرنے سے پہلے فاطمہ جناح نہ سہی کامریڈ حسن ناصر کو کیوں نہ یاد کر لیا؟

عروج کو ان کی وائرل نظم سے ملنے والی شہرت کا حوالہ دیتے ہوئے فواد حسن کہتے ہیں ’آپ کو یہ بات کہنا اس لیے بھی زیب نہیں دیتا کیونکہ جس ویڈیو کی وجہ سے آپ کو خوب شہرت ملی اس میں آپ اردو زبان میں ہی ایک مزاحمتی کلام پڑھ رہی تھیں۔ اگر اردو زبان سے اس قدر نفرت ہے تو آئندہ پنجابی میں ہی شاعری پڑھنے کی سعادت حاصل کیجیے گا۔‘

لیکن بات صرف عروج کے ہاتھوں ’اردو کی بے حرمتی‘ یا بگاڑے گئے شعر یا ان کی خراب اردو تک محدود نہیں رہی۔۔۔

ایک صارف نے تو انھیں یہ تک کہہ دیا کہ سب لال لال لہرائے گا سے مقبولیت حاصل کرنے والی خاتون کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی ٹویٹ کریں، کہیں لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کے لگائے نعرے بوٹ پالش واسطے تھے۔

عروج اورنگزیب کی حمایت میں لمز یونیورسٹی کی معلمہ اور سماجی کارکن ندا کرمانی کہتی ہیں ’ایک زبان اور غریب اور متوسط طبقے کے اردو بولنے والے لوگوں کی حیثیت سے اردو میں فرق ہے۔ اس چیز کو اجاگر کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ حکمران طبقے نے اپنے مفادات کے تحفظ اور ایک متنوع قوم میں اتحاد دکھانے کے لیے کس طرح ایک زبان کو استعمال کیا۔‘

وارث خان نامی صارف کہتے ہیں کہ ’میں ایک پشتون ہوں اور اپنے دیگر اہلِ وطن کے ساتھ اردو میں رابطہ رکھتا ہوں ۔ اگر اردو نہ ہوتی تو اپنے ہی صوبے کے سب سے بڑے ضلع چترال اور ہزارہ ڈیویژن کے سات اضلاع کے لوگوں سے کمیونیکیشن کا مسئلہ ہوتا۔‘

خیر جتنے منھ اتننی باتیں۔۔۔ ہمارا مطلب ہے ٹویٹس!

لیکن اس سب بحث میں میری پسندیدہ ٹویٹ وہ ہے جس میں ایک صاحب کرکٹ گراؤنڈ کے اوپر لیٹے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے سب کو آپس میں الجھتے دیکھ رہے ہیں۔

اور جہاں تک عروج کی خراب اردو یا شعر کا سر پیر توڑنے کا سوال ہے تو اس بارے میں وہ کہتی ہیں ’گرامر کے دو نمبر بے شک کاٹ لیں لیکن میں نے جو کہا اس سے حقیقت واضح ہو گئی ہے۔‘

خیر ٹویٹر پر تو اردو کی شروعات کے حوالے سے کافی دعوے کیے گئے، لیکن آئے ہم آپ کو اس زبان کی حقیقی ابتدا کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اردو کا آغاز کیسے ہوا؟

برصغیر کے ادب، لسانیات اور تاریخ کے معروف مصنف ٹی گراہم بیلی اپنی کتاب ’اردو ادب کی تاریخ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’اردو‘ بذات خود ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ‘لشکر یا خیمہ’ ہے۔

سنہ 1193 کے بعد جس مسلمان فوج کا قیم دہلی میں ہوا، انھیں اردو یا اردوئے معلیٰ (عسکرِ اعلیٰ) کے نام سے پکارا جانے لگا۔

عام خیال یہی ہے کہ شہر کے باشندے ہندی کی علاقائی بولی (شاخ) برج بولتے تھے جبکہ اس لشکر کی زبان فارسی تھی۔

گراہم بیلی کے مطابق دارالسلطنت کے لوگ جس زبان میں گفتگو کرتےتھے وہ ہندی کی وہ ابتدائی شکل تھی جسے اب کھڑی بولی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دہلی کے پہلے سلطان ترکستان سے تعلق رکھنے والے قطب الدین ایبک تھے جو 1193 میں دہلی پہر قابض ہوئے اور سلطان کا لقب اختیار کیا۔

گراہم بیلی کے مطابق یہ بات ہمیشہ کہی جاتی ہے کہ اردو کا آغاز دہلی میں ہوا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہتے کہ دہلی کے پہلے سلطان کی تخت نشینی سے دو سو سال قبل وہ سپاہی پنجاب میں داخل ہو چے تھے جن کی زبان فارسی تھی۔

لہذا جس چیز کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دہلی میں واقع ہوئی دراصل وہ صدیوں پہلے لاہور میں ظہور پذیر ہو چکی تھی۔

چونکہ مقامی باشندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے ان کی زبان فارسی پر غالب آ گئی اور آہستہ آہستے فارسی ختم ہو گئی اور صرف اردو رہ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp