جنرل ضیا الحق کس طرح آرمی چیف بنے تھے؟


یوں تو 5 جولائی 1977 کو گزرے 43 سال ہو گئے اگر حالات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہم آج بھی وہاں کھڑے ہیں جہاں 43 سال قبل تھے فرق اتنا پڑا کہ چہرے تبدیل ہو گئے۔ چار دہائیاں قبل سیاسی شخصیات، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو چن چن کر پس زنداں کیا جاتا اور ان کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے، اظہار پر مکمل پابندی تھی، کھلے عام مارشل لا حکومت پر تنقید کرنا گویا موت کو آواز دینے کے مترادف تھا۔ آج بھی سیاسی شخصیات، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر جھوٹے فرضی مقدمات بنا کر پس زنداں یا پھر جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

یوں تو ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد قوم سے وعدہ کیا کہ 90 روز میں پرامن انتخابات کروا کے فوج واپس بیرکوں میں چلی جائے گی پاکستانی قوم نے جنرل کی بات پر یقین کر لیا اور ایسا لگا کہ 90 دن بعد الیکشن ہو جائیں گے اور جمہوریت پھر سے چل پڑے گی مگر اس سیاہ دن مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 43 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے۔

جنرل ضیا الحق کی بطور آرمی چیف تقرری کی روداد بھی بڑی دلچسپ ہے۔ جنرل ضیا الحق سینیارٹی کے اعتبار سے ساتویں نمبر پر تھے۔ جنرل مجید ملک مرحوم اپنی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے کاسہ لیسی کی ایسی مثالیں قائم کی جو فوجی روایات کے خلاف تھی۔ ضیا الحق کو لیفٹیننٹ جنرل بنا کر ملتان کور کی کمان دی گئی تو ایک دن بھٹو نے ملتان وزٹ کرنا تھا۔ ضیا الحق نے حکم جاری کیا کہ ہماری کور کے تمام افسر سڑک پر لائن میں کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کریں گے۔ ضیا الحق اور باقی تمام افسروں نے سڑک پر کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کیا یہ بات فوجی روایات کے بالکل برعکس تھی۔

بھٹو لیفٹننٹ جنرل محمد اکبر خان یا جنرل مجید ملک میں سے کسی ایک کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہتے تھے مگر جنرل ضیا الحق نے بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے جو اقدام اٹھائے بھٹو جیسا ذہین ترین آدمی بھی دھوکہ کھا گیا۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضیا الحق شریف، حلیم الطبع اور بے ضرر شخص ہے اس کے علاوہ مہاجر بھی ہے کوئی مخصوص علاقہ نہیں رکھتا۔ فوج کے اندر بھی مضبوط لابی نہیں اس لیے حکومت کے لیے موزوں ترین آرمی چیف ضیا الحق ہی ہو سکتا ہے۔

آرمی چیف بننے کے بعد ان کی نظریں اقتدار بھی تھی وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ بھٹو کے خلاف ملک کے اندر تحریک زوروں پر تھی۔ بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے بھٹو نے قوم سے قبل از وقت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنوری 1977 میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے 7 مارچ کی تاریخ رکھی گئی جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 10 مارچ کا اعلان کیا گیا۔ اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھ گئے انھوں نے اپنے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھ کر بھٹو دشمنی میں ایک جھنڈے تلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس نئے اتحاد کا نام پی این اے یعنی پاکستان قومی اتحاد رکھا گیا۔ اس اتحاد میں اپوزیشن کی نو جماعتیں شامل تھی۔ مفتی محمود مرحوم کو اس اتحاد کا سربراہ، نوابزادہ نصراللہ کو نائب صدر، رفیق احمد باجوہ کو سیکرٹری جنرل اور پیر آف پگاڑا کو مرکزی پارلیمانی بورڈ کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔

بھٹو خود بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ سیاسی زبان میں اسے جمہوری عمل قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم آئین کے لحاظ سے یہ درست تھا۔ 8 مارچ کا سورج طلوع ہوا تو پاکستان پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کے انتخابات جیت چکی تھی۔ مگر اپوزیشن نے حسب توقع ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس کے علاوہ 11 مارچ کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

سابق چیف آف سٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ ارشاد ترمذی اپنی کتاب ”حساس ادارے“ میں لکھتے ہیں کہ 11 مارچ کو اپوزیشن کی ہڑتال کامیاب رہی۔ بھٹو نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ بعض حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ تاہم انھوں نے قومی اتحاد کے اس مطالبے کو سرے سے رد کر دیا کہ ایک غیر جانبدارانہ قومی حکومت فوج کی نگرانی میں نئے سرے سے انتخابات کرائے۔ اس عرصے میں قومی اتحاد کے بعض راہنماؤں کا ”غیر ملکی آقاؤں“ سے رابطہ ہو چکا تھا۔ جو اپوزیشن کو فنڈنگ کرتے تھے جس سے ملک کے اندر حالات روز بہ روز خراب تر ہو رہے تھے۔

بریگیڈیئر ترمذی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ جمعیت علمائے پاکستان نے ”بھٹو ہٹاؤ“ تحریک کو نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعرے کے حوالے سے ہائی جیک کر لیا اور جو تحریک حکومت کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور دوبارہ انتخابات کروانے کے مطالبہ سے شروع ہوئی تھی وہ نظام مصطفیٰ کے مطالبے کی تحریک بن گئی۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول ہوا کہ قومی اتحاد کے بیشتر حامی اسے اپنے ایمان کا حصہ بنا بیٹھے۔

ان کے نزدیک اس نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھٹو کی ذات سمجھی جاتی تھی۔ تحریک کو موثر بنانے کے لیے ایک عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا گیا۔ نظام مصطفیٰ کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں دینی مدارس کے نوجوان طلبا جوق در جوق شریک ہو رہے تھے۔ انھوں نے کرفیو کے اوقات اور نماز عشا کے بعد تسلسل سے مساجد اور گھروں کی چھتوں پر اذانیں دینا شروع کر دی۔ اطلاعات کے مطابق ان ”معزز موذنوں“ کو 15 روپے فی اذان کے حساب سے ادائیگی کی جا رہی تھی۔

ممکن نہیں تھا کہ فوج ان معاملات سے بالکل الگ تھلگ رہے۔ فوج صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی۔ فوج نے اپریل 77 میں بھٹو کو سخت الفاظ میں پیغام بھیجا کہ معاملات میں سدھار لایا جائے۔ بھٹو نے اپوزیشن سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جو کامیابی کی طرف جا رہا تھا۔ الطاف حسین قریشی کی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں جنرل ضیا الحق کا انٹرویو موجود ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ جون کے آخری دنوں میں مسٹر بھٹو نے جرنیلوں کو کابینہ کے اجلاس میں بلانا شروع کر دیا۔ ایک رات کابینہ کی میٹنگ ہوئی اور بھٹو صاحب خاصے پریشان نظر آئے۔ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بولے آئیے جنرل صاحب آپ بھی اقتدار میں شامل ہو جائیں زیادہ تر اختیارات آپ کے ہاتھ میں ہوں گے۔ پہلی اور دوسری جولائی میں اسی نوع کا تماشا ہوتا رہا۔ جنرل ضیا الحق کہتے ہیں کہ تین جولائی کی رات کو میرے اعصاب نے حقیقی خطرہ بھانپ لیا چنانچہ میں بڑے اقدام کے امکانات کا جائزہ لینے لگا۔ حکومت کی ذہنی کیفیت ہمارے سامنے تھی۔ چنانچہ ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں نے راولپنڈی سے باہر احکام جاری کر دیے کہ رات بارہ بجے ”ڈی ڈے“ ہو گا۔

شام آٹھ بجے وزیراعظم ہاؤس سے فون آیا کہ آج رات کابینہ کا اجلاس ہو گا جس میں آپ کی شرکت ضروری ہے۔ وقت جلد بتا دیا جائے گا میرے لیے یہ پیغام بے حد تشویشناک تھا۔ اگر بارہ بجے تک اجلاس جاری رہتا تو اس میں بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھی۔ چنانچہ راولپنڈی کے لیے میں نے وقت آگے بڑھا دیا۔ ایک ایک لمحہ جسم کے اندر کانٹے کی طرح پیوست ہوتا جا رہا تھا۔ لاکھوں وسوسے اور ہزاروں خدشات تھے۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہ ہمارے منصوبے کا کسی کو علم ہو گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

خیال کی ایک لہر اٹھی ضیا الحق تم کہیں غلطی پر تو نہیں کیا تم پاکستان کو مارشل لا سے بحفاظت نکال سکو گے؟ میں نے وضو کیا اور خشوع و خضوع سے نماز ادا کی ایسی لذت محسوس ہوئی جو پہلے نہ تھی۔ دوسری طرف سے فون آیا میں نے کال اٹینڈ کی وزیراعظم لائن پر تھے انھوں نے کابینہ کے اجلاس کی منسوخی کی اطلاع دی میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور راولپنڈی کو قطعی احکام جاری کر دیے۔

فوج کی اس کارروائی کو آپریشن فیئر پلے کا نام دیا گیا تھا۔ پانچ جولائی 1977 کی صبح چھ بج کر چار منٹ پر مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے اعلان کیا گیا، کہ مسلح افواج نے پانچ جولائی کی صبح سے ملک میں نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور تمام سیاسی رہنما عارضی طور پر مارشل لا حکومت کی حفاظت میں ہیں۔

الطاف قریشی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل ضیا الحق کہتے ہیں میں تو جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں۔ فوجی حکومت ایک طرح کا انتہائی ناگزیر مرحلہ ہے۔ اسے زندگی کا معمول نہیں بنایا جا سکتا ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ عام انتخابات 8 اکتوبر کو ضرور ہوں گے خدا اور پوری قوم کے ساتھ میں نے ایک عہد کیا ہے اور اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے میری دعا ہے اللہ ہمیں بصیرت اور قوت عطا فرمائے اور ہر قدم پر ہماری راہنمائی کرتا رہے۔

ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد قوم سے وعدہ کیا کہ 90 روز میں پرامن انتخابات کروا کے فوج واپس بیرکوں میں چلی جائے گی پاکستانی قوم نے جنرل کی بات پر یقین کر لیا اور ایسا لگا کہ 90 دن بعد الیکشن ہو جائیں گے اور جمہوریت پھر سے چل پڑے گی مگر اس سیاہ دن مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 43 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments