سچ کی قیمت اور دانشور


حالیہ دنوں میں کچھ خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جن کے مطابق یونیورسٹی کی جانب سے پروفیسر ہود بھائی اور عمار علی جان کا کنٹریکٹ بڑھانے سے انکار کر دیا گیا۔ بظاہر اس کی جو بھی توجیہہ پیش کی جائے لیکن حقیقت سب جانتے ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا۔ ہمارے ہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حالانکہ ایک مہذب معاشرے میں ہمیشہ اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ دانشوروں، آرٹسٹوں، لکھاریوں، یا مفکروں کو رائے کے اظہار کی آزادی دی جائے۔

لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم سب سے زیادہ پابندی اسی طبقے پر لگاتے ہیں۔ ہم نے اکیڈیمیا تک کو قابو کیا ہوا ہے۔ جہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ان کے مقصد کو بڑھانے اور ان کے مطلب کی بات کہنے میں سرگرم ہوں وہاں ایسے لوگوں کے لیے حق بات کہنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ کیا اس سب کے باوجود بھی اپنی بات پر ڈٹے رہنا ضروری ہے یا پھر اسی بھیڑ کا حصہ بن جائیں جو کم از کم آپ کو ایک پرسکون اور پر آسائش زندگی تو فراہم کرتی ہے۔ اسی تناظر میں پروفیسر نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ ”دانشوروں کی ذمہ داری ہے وہ سچ بولیں اور جھوٹ کا پردہ چاک کریں“

ان کے مطابق اس سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے مگر یہ دانشور کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ قیمت چکانے کے لیے تیار رہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دانشور کس کو کہا جائے۔ وہ کون سا دائرہ کار ہے جو یہ طے کرے گا کہ وہ کون سا طبقہ ہے جس پر لازم ہے کہ وہ سچ کہے۔ اس سوال کا احاطہ ڈوائٹ مکڈونلڈ نے 1945 میں پالیٹکس جریدے میں چھپنے والی ایک تحریر میں کیا ہے۔ ڈوائٹ مکڈونلڈ ایک امریکی دانشور ہیں اور انہوں نے جنگ پر لکھی جانے والی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تعین کرنے کی کوشش کی کہ آیا مصنفین جنگ کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے اور جرمن عوام کو اپنے حکمرانوں کی غلطیوں کے قصور وار ٹھہراتے ہوئے اپنی غلطیوں کا احاطہ کرتے ہیں یا نہیں۔

ڈوائٹ مکڈونلڈ کے مطابق کیا یہ مصنفین جاپان پر ہونے والے اندوہناک ظلم اور جنگ کے بعد جرمن عوام کی حالت زار کے ذمہ داران کے قصور وار ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں جرمن عوام بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنا کہ جرمن حکمران اور آپ جرمن عوام کو ان جرائم سے استثنا نہیں دے سکتے جو ہٹلر کے دور حکومت میں نازی جرمنی میں سرزد ہوئے، تو کیا آپ کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ برطانوی اور امریکی عوام بھی مجرم ہیں۔ اگر تو آپ حقائق کو پرکھنے اور سچ جاننے کے بعد اس سچ کو بولنے کی ہمت رکھتے ہیں اور مصلحت کی عینک اتار کر دنیا کو دیکھتے ہیں تو آپ ایک دانشور ہیں، تب ہی آپ حقیقتاً ایک لکھاری ہیں۔ کیونکہ دانش یا فن کھوٹے نہیں ہوتے۔

عموماً دانشوروں کو عام لوگوں کی نسبت رائے دینے کی آزادی دی جاتی ہے کیونکہ اگر ان کی زبان بند کر لی جائے تو معاشرے کے تلخ حقائق کی نشاندہی کون کرے گا؟ اگر یہ نشاندہی نہ کی جائے تو معاشرہ ایک ہی دائرے میں گھومنے لگتا ہے اور دائرے میں گھومنے والے معاشرے کبھی آگے قدم نہیں بڑھا سکتے۔ بظاہر یہ بہت آسان لگتا ہے کہ دانشوروں کو چاہیے کہ وہ سچ بولیں اور سچ کی قیمت کے لیے تیار رہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ اتنا آسان نہیں۔

خاص طور پر موجودہ زمانے میں جب شب زباں بندی ہی معاشرے کا دستور بن جائے اور مصلحت ہی آپ کا لباس ہو۔ جہاں سچ بولنا ایک ایسا بار گراں ہو جسے اٹھانا ممکن نہ رہے کیونکہ اس بوجھ کو اٹھانے والے کے بازو یا جگر کے ٹکرے اس سے الگ کر دیے جائیں یا ماں بہن کی عزت کی بیڑیاں اس کے پیروں میں پہنا دی جائیں۔ اس کے سچ کو کبھی قومی مفاد اور کبھی مذہب کی چھلنی سے چھانا جائے اور وہی کشید کیا جائے جو اقتدار میں بیٹھے لوگ سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں۔

جہاں ہم نے یہ تعین کیا ہے کہ دانشور کون ہے وہیں اب یہ بھی واضح کر لیں کہ سچ کیا ہے۔ آفاقی سچائیوں کے علاوہ سچ ایک معروضی اصطلاح ہے۔ میرا سچ آپ کے سچ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں اروندھتی رائے ایک لکھاری کے لیے اپنی کتاب ”مائی سڈیشیس ہارٹ“ میں سچ کی تعریف بتاتی ہیں۔ ان کے مطابق ایک لکھاری کو چاہیے کہ وہ پوری دیانتداری سے خود سے یہ سوال پوچھے کہ آیا وہ جو لکھ رہا ہے وہ اس پر یقین رکھتا ہے اور اس کو سچ ما نتا ہے؟

اگر اس کا جواب ہاں میں آئے تو وہی سچ ہے اور لکھاری کو اس پر ڈٹ جانا چاہیے۔ ایک بار جب آپ سچ کا تعین کر لیں تو پھر اس بات پر پریشان نہ ہوں کہ کسے یہ سچ اچھا لگے گا اور کسے برا، کون اس پر نالاں ہو گا اور کون خوش؟ بس شرط یہ ہے کہ آپ خود پوری دیانتداری سے اسے سچ مانتے ہوں۔ آپ جس طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ بھی آپ کی بات پر معترض ہوں، وہ یہ شکوہ کناں ہوں کہ آپ بھی اغیار سے جا ملے، لیکن ایک لکھاری کو اس سب سے بالاتر ہو کر لکھنا ہے۔ جیسا کہ منٹو لکھتے ہیں کہ

”ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں مگر اب تک جو مٹھاس آپ کو پیش کی جاتی رہی ہے، اس سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں“ ۔

ایک لکھاری کی حیثیت سے آپ خود ایک لکیر کھینچتے ہیں جو سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرتی ہے۔ اس لکیر کے ایک پار رہنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ آسان نہیں ہوتا کہ آپ ایک نظریے پر اڑے رہیں۔ یہ لکیر جہاں سچ اور جھوٹ کا تعین کرتی ہے وہیں یہ آپ کی زندگی اور موت کے درمیان کی لکیر بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے کچھ لوگ آسان راستہ اپناتے ہیں۔ وہ نیشنل انٹرسٹ، مذہب یا معاشرتی امن و سکون کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایک Existentialist (وجودی) فلسفی مارٹن ہائیڈیگر کی ہے۔

مارٹن ہائیڈیگر نے جب نازی پارٹی سے ہمدردی ظاہر کی تو ان کے چاہنے والے اس بات سے بہت نالاں ہوئے کہ انہوں نے کیوں ایک ایسی پارٹی کا ساتھ دیا ہے جو ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے۔ مارٹن ہائیڈیگر کی نازی حکومت کے خاتمے کے بعد کچھ تحریروں اور دیگر فلسفیوں (جو کہ ان کے دوست یا شاگرد تھے ) کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے سے مطمئن نہ تھے اور جانتے تھے کہ انہوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے سچ اور حق کا دامن چھوڑا ہے۔ اس کا ذکر سارہ بلیک ویل نے اپنی کتاب Existentialist Café میں بھی کیا ہے۔ ہائیڈیگر سے متعلق ان کا یہی کہنا تھا کہ چاہے وہ جتنا مرضی اپنے آپ کو اطمینان دلواتے لیکن کہیں نہ کہیں وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ انہوں نے فریب سے کام لیا ہے۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سچ کا ساتھ چھوڑنے والے اپنے جھوٹ یا مصلحت کا ایک ایسا بیانیہ بناتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ہائیڈیگر کی ہی مثال لیں تو 1933 میں ہٹلر کے حق میں لکھے گئے ایک اعلامیے میں انہوں نے کہا کہ ”سچائی وہ ہے جس کا جاننا عوام کو مضبوط اور پریقین بنائے اور ایک دانشور کو یہی سچ بتانا چاہیے“ ۔ یعنی آپ مفاد عامہ (جو کہ حکمران طبقے کا متعین کردہ ہو) کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھیں یا بولیں۔ لیکن کیا یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ ”سٹیٹس کو“ یعنی اشرافیہ ہی کیوں مفاد عامہ کا تعین کرنے کے اہل قرار پاتے ہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جسے وہ عوام کا مفاد بتاتے ہوں وہ ان کا ذاتی مفاد ہو۔ پھر دانشور یہ کیوں کر مان لیتے ہیں کہ جو اشرافیہ کہہ رہی ہے وہی درست ہے؟

افتخار عارف صاحب لکھتے ہیں کہ
خداوند مجھے توفیق دے میں ایسے زندہ لفظ لکھوں
جو نہ لکھوں میں تو دنیا بانجھ ہو جائے۔

دانشور یا لکھاری کی یہی خواہش ہونی چاہیے۔ وہ ایسے لفظ لکھ جائے، ایسے سچ لکھ جائے جن کے لکھے جانے سے ہی معاشرے کی گود ہری رہے۔ جو نہ لکھے جائیں تو معاشرے اخلاقی طور پر بانجھ ہونے لگیں، آبادی تو بڑھتی رہے لیکن انسان نہ بڑھیں۔ اسی طرح اروندھتی رائے بھی یہی کہتی ہیں کہ لکھاری کو چاہیے کہ جو بظاہر دکھتا نہیں وہ معاشرے کو دکھائے۔ عوام سے چھپایا وہی جاتا ہے جو ان کے مفاد میں نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص طبقے کے مفاد میں ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں اختلاف کو برداشت نہ کیا جائے وہیں اس کو سب سے زیادہ پھیلنا چاہیے کیونکہ اسی میں معاشرے کی بقاء مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments