جنسی ہراسگی کا آسان علاج


لاہور کے معروف نجی تعلیمی ادارے میں طالبات کے خلاف ہونے والا جنسی ہراسگی کا افسوسناک واقعہ پہلا سانحہ ہے نہ آخری۔ اس سے قبل بھی ملک میں اس طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسے واقعات کے خلاف حسب توفیق آواز بھی اٹھاتے ہیں اور مذمت بھی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مہذب مغربی ممالک سمیت دنیا کے ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔

تمام ملکوں کی حکومتیں، ادارے، این جی اوز اور سماجی و اصلاحی تنظیمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ ان اقدامات کے مثبت اور دور رس نتائج بھی برآمد ہوتے رہتے ہیں۔

لاہور کے نجی سکول میں رونما ہونے والے واقعے کے مرکزی کرداروں کو ملازمت سے برطرف کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ یقیناً روحانی باپ کے منصب پر فائز یہ اساتذہ خوفناک جنسی بھیڑیے ہیں جو اپنے پیشۂ الوہی و پیغمبری کے تقدس اور حرمت کو پائے مال کرتے ہیں اور اس پیشے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔

یہ واقعہ جس قدر افسوس ناک ہے، پنجاب حکومت کے وزیر تعلیم جناب مراد راس کی طرف سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے آنے والی تجویز ہمارے لیے اتنی ہی حیران کن اور معاشرے کی تعمیر و ترقی اور پرداخت کے لیے تباہ کن بھی ہے۔

مراد راس نے ایسے واقعات کے خاتمے کا جو نسخہ تجویز کیا ہے وہ شاید کسی کو بھی راس نہیں آیا۔ ہمیں آس تھی کہ وہ اپنی تجویز دیتے ہوئے ہر استاد کی عزت کا پاس کریں گے مگر انہوں نے چھوٹتے ہی ارشاد فرمایا کہ طالبات کے تعلیمی اداروں میں کسی مرد استاد کو تعینات نہ کیا جائے۔

اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ اول تو یہ تجویز سرے سے غیر منطقی، بودی اور ناقابل عمل ہے کیونکہ ہمارا تعلیمی اور معاشرتی ڈھانچہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا بالفرض سکولوں اور کالجوں کی حد تک یہ اہتمام کر بھی دیا جائے تو یونیورسٹیوں اور دوسرے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ایسا کرنا کیسے ممکن ہو گا؟

پھر عورت کو سفر کے دوران میں، گاڑیوں، پبلک مقامات، پارکس، دفاتر، کھیتوں، بھٹوں اور راستے میں قدم قدم پر مردوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ وہاں ایسے واقعات کے انسداد کا کیا طریقہ ہو گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے سانحات زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام میں پیش آتے ہیں۔ مراد راس صاحب اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟

یہ مسئلہ مخلوط تعلیمی اداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے دینی مدارس میں بھی آئے دن ایسے اندوہناک واقعات پیش آتے رہتے ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ روزی روٹی کے لیے گھر سے نکل کر مختلف النوع کام دھندے کرنے والے معصوم بچے بھی جنسی درندوں کی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ مراد راس صاحب نے ایسی انہونی اور ناقابل عمل تجویز پیش کر کے نہ صرف لاکھوں اساتذہ کی تحقیر کی ہے بلکہ ان کی نیتوں، صلاحیتوں اور اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ مسئلہ صرف اساتذہ یا طالبات کا نہیں بلکہ ہمارے سماج اور معاشرے کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ اس کی معاشرتی، اقتصادی، سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی وجوہ ہیں۔ ایسے واقعات کے سد باب کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی بہترین اخلاقی خطوط پر تربیت کی جائے۔ انہیں شعور دیا جائے۔ زندگی کے رنگ اور نشیب و فراز سے آگاہ کیا جائے اور ایسے واقعات میں ملوث گھناؤنے کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

مراد راس کے طرز استدلال کو درست مان لیا جائے تو پھر تعلیمی اداروں سے لے کر مقننہ، عدلیہ، آرمی، پولیس، نیب اور پارلیمان تک، کسی بھی مقام پر مخلوط مجالس کے انعقاد کو ہر سطح پر روکنا ہو گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ہم پنجاب کے وزیر تعلیم سے دست بستہ عرض کریں گے کہ وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے بجائے مسئلے کے حقیقی اسباب کا تجزیہ کر کے کوئی قابل عمل اور منطقی لائحۂ عمل اختیار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments