دسترخوان سے اٹھ کر پانی کون لائے گا، مرد یا عورت، سوشل میڈیا پر بحث
بعض جنوبی ایشیائی گھرانوں میں مردوں اور عورتوں کا ایک مخصوص کردار تصور کیا جاتا ہے جسے معاشرے میں لوگ بغیر سوال کیے نبھاتے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس روایت کو چیلنج کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ طور طریقے صنفی برابری کے منافی ہیں۔
یہ روایات جہاں معاشرے میں نظر آتی ہیں وہاں ان کی عکاسی ٹی وی ڈراموں اور سوشل میڈیا پر بھی ہوتی ہے۔ کچھ عرصے سے معاشرے میں ایسی روایات کے خلاف آواز بھی اُٹھائی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد اس بارے میں وقتا فوقتاً بات کرتے ہیں۔
ایسے ہی خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے جب ایک ٹوئٹر صارف نے اپنے خیالات شیئر کیے تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ انہیں بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔
I so hate this culture of desi house where when everyone is sitting on dinning table and male of a family need anything, water, more food or anything from kitchen, he isn't supposed to get up and get it but the female is supposed to leave her food in between and get that
— T (@eatsleepandcry) July 4, 2020
ابوت نامی ٹوئٹر صارف نے ٹویٹ کی کہ مجھے دیسی گھر کی یہ روایت بہت بری لگتی ہے کہ جب سب کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں اور خاندان کے کسی مرد کو کچھ چاہیے ہو، پانی، مزید کھانا یا باورچی خانے سے کچھ چیز تو اُسے خود اُٹھ کر نہیں جانا پڑتا بلکہ کسی عورت کو اپنے کھانے کو چھوڑ کر اُٹھ کے جانا ہوتا ہے تاکہ وہ چیز لے کر آئے۔
My mum watches a terrible drama called Saathiya where everyone in the family sits and eats together but the daughter in laws just stand there waiting for orders from the rest of the family and then eat later.
— Faz Begum (@FarzanaBegum2) July 5, 2020
فرزانہ بیگم نے اس تھریڈ میں ٹویٹ کی کہ میری امی ایک فضول ڈرامہ دیکھتی ہیں جس میں جب سب گھر والے بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو بہوئیں کھڑی رہتی ہیں اور انتظار کرتی ہیں باقی گھر والوں کے احکامات کا اور پھر بعد میں کھانا کھاتی ہیں۔
Our dramas definitely promote such wrong cultures
— T (@eatsleepandcry) July 5, 2020
اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے اس تھریڈ لکھنے والی خاتون نے کہا کہ ہمارے ڈرامے یقیناً غلط رواج کو تقویت دیتے ہیں
https://twitter.com/dakhalakbasawai/status/1279685315008040962?s=20
ایک اور ٹوئٹر صارف نے اس تھریڈ میں لکھا کہ مجھے تو یہ خوبصورت لگتا ہے۔ کوئی بری بات نہیں ایک طرح سے پیارا بھی ہی۔ میں تو اپنا کھانا خود لیتا ہوں، میں تو زیادہ تر پکاتا بھی خود ہی ہوں مگر پھر بھی مجھے یہ چھوٹی روایات اور اقدار اچھی لگتی ہیں۔ خیالات انفرادی ہوتے ہیں۔
یہ ایک ایسا موضوع چھڑ گیا جس پر طرح طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا۔ معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لیے پدر شاہی کا نظام اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ بہت سے افراد کے لیے یہ طور طریقے اقدار کا اہم حصہ ہیں جنہیں چیلنج کرنامعاشرے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب ایک سوچ یہ بھی ہے کہ یہ روایات بوسیدہ ہیں اور انہیں اب چھوڑ دینا چاہیے۔ مگر معاشرے میں مرد اور عورتوں کے مقام کے بارے میں رانا مشرف نے لکھا کہ ایک عورت ہونے کے ناطے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔
As a women, Its your duty.
— Rana Musharraf (@RanaMusharraf19) July 5, 2020
رافع نامی ایک ٹوئٹر صارف کو یہ ٹویٹ بری لگی انہوں نے لکھا کہ تو اب آپ اُس شخص کے لیے ایک گلاس پانی بھی نہیں لا سکتی جو 10 سے 12 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ آپ کھا سکیں اور معاشرے میں گھل مل سکیں۔ میں اُن مردو ں کی بات کر رہا ہوں جو کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ایسا نہیں ہوتا مگر اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس لیے ادب کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس بارے میں رونا بند کریں۔
https://twitter.com/DaNecromancer/status/1279777230076477442?s=20
مریم کو رافع کی بات اچھی نہیں لگی اور انہوں نے لکھا کہ عورتیں کھانا بناتی ہیں، گھر کی صفائی کرتی ہیں، برتن اور کپڑے دھوتی ہیں۔ تو آپ مرد حضرات اُن کے لیے پانی کیوں نہیں لا سکتے؟ یا پھر آپ سنت پڑھ کر پیغمبر اسلام سے کیوں نہیں سیکھتے؟
Women cook, clean the house, wash the dishes, clothes etc. So why can't you men fetch them water too?
Or why don't you men READ SUNNAH FOR ONCE AND LEARN FROM PROPHET PBUH?— Maryam (@Flossopher09) July 5, 2020
اس تھریڈ میں ہر اطراف سے حملے جوابی حملے اور تکرار کا سلسلہ جاری رہا۔ گو کہ اصل پیغام ایک ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دیا گیا تھا جس کے زیادہ فالوئرز نہیں لیکن اس تھریڈ اور گفتگو کو تقریباً سات ہزار بار لائیک کیا گیا اور بہت سارے کامنٹس بھی دیے گئے۔
It’s terribly depressing 🥱 We must be the ones who break the cycle and teach our own sons how to grow up.. unfortunately these men are like this today, because their mothers did not teach them independence skills or force them to do basic chores. Many are simply manchild’s.
— Bogan bintAlAustrali (@ummlater) July 5, 2020
ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمیں اس روایت کو توڑنا ہوگا اور اپنے بیٹوں کو سکھانا ہوگا کہ بڑے ہوجائیں۔ بد قسمتی سے آجکل کہ آدمی ایسے اس لیے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں نے انہیں خود اپنے لیے کچھ کرنا نہیں سکھایا اور چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ آپ تو بس ایک بڑا بچہ ہیں۔
جہاں مرد حضرات اس تھریڈ پر اور اس پیغام پر اپنا غصہ نکال رہے تھے وہیں بہت سے مرد اس کے خلاف بھی بات کر رہے تھے۔ بہت سے خواتین بھی اس تھریڈ سے متفق نہیں تھیں۔
https://twitter.com/zeetweets_/status/1279646968780816385?s=20
ایک ٹوئٹر صارف نے تھریڈ لکھنے والے خاتون کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ مجھے آپ کے گھر کے مردوں پر افسوس ہے ہم ایسا نہیں کرتے۔
I do understand it,It shouldn’t be a gender specified role but if my Dad & Brothers are sitting on dining table for a total of maybe 25 mins after spending whole day at work I dont see what is the problem
There r few things we do out of love n concern too not everything is a duty— Sparkle (@anihRx) July 5, 2020
ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کردار صنف کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں لیکن اگر میرے والد اور بھائی ٹیبل پر بیس منٹ کے لیے بیٹھے ہیں پورا دن کام پر گزارنے کے بعد تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم ان سے محبت اور اُن کا خیال کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ سب کچھ فرض نہیں ہوتا۔
I love to cook for my dad and bhai but I also believe that I have every right to sit and eat with them in peace.
— T (@eatsleepandcry) July 5, 2020
اس تھریڈ کو لکھنے والی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ مجھے اپنے بھائی اور والد کے لیے کھانا پکانا اچھا لگتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میں اُن کے ساتھ بیٹھ کرسکون سے کھانا کھا سکوں۔
Charity begins at home .. next time ur father ask for anything on table .. tell him to get up n get it for himself . Start this revolution from home n then u can educate us all ..
— Asim Munir (@aviatorcharlie2) July 5, 2020
عاصم منیر نے اپنی ٹویٹ میں انگریزی کا محاورہ لکھا ’چیرٹی بگنز ایٹ ہوم‘ یعنی اول خویش بعد درویش۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ آئندہ سے جب آپ کے والد آپ سے ٹیبل پر کچھ مانگیں تو انہیں کہنا کے اُٹھیں اور خود جا کر لے لیں۔ اپنا گھر سے یہ انقلاب شروع کریں پھر ہماری تربیت کرنا۔
- پاکستان میں چینی انجینیئرز پر حملے اور خدشات: کیا چین پاکستان میں سی پیک کے منصوبے منسوخ کر سکتا ہے؟ - 19/04/2024
- انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے - 19/04/2024
- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).