دسترخوان سے اٹھ کر پانی کون لائے گا، مرد یا عورت، سوشل میڈیا پر بحث


دسترخوان

بعض جنوبی ایشیائی گھرانوں میں مردوں اور عورتوں کا ایک مخصوص کردار تصور کیا جاتا ہے جسے معاشرے میں لوگ بغیر سوال کیے نبھاتے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس روایت کو چیلنج کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ طور طریقے صنفی برابری کے منافی ہیں۔

یہ روایات جہاں معاشرے میں نظر آتی ہیں وہاں ان کی عکاسی ٹی وی ڈراموں اور سوشل میڈیا پر بھی ہوتی ہے۔ کچھ عرصے سے معاشرے میں ایسی روایات کے خلاف آواز بھی اُٹھائی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد اس بارے میں وقتا فوقتاً بات کرتے ہیں۔

ایسے ہی خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے جب ایک ٹوئٹر صارف نے اپنے خیالات شیئر کیے تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ انہیں بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔

ابوت نامی ٹوئٹر صارف نے ٹویٹ کی کہ مجھے دیسی گھر کی یہ روایت بہت بری لگتی ہے کہ جب سب کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں اور خاندان کے کسی مرد کو کچھ چاہیے ہو، پانی، مزید کھانا یا باورچی خانے سے کچھ چیز تو اُسے خود اُٹھ کر نہیں جانا پڑتا بلکہ کسی عورت کو اپنے کھانے کو چھوڑ کر اُٹھ کے جانا ہوتا ہے تاکہ وہ چیز لے کر آئے۔

فرزانہ بیگم نے اس تھریڈ میں ٹویٹ کی کہ میری امی ایک فضول ڈرامہ دیکھتی ہیں جس میں جب سب گھر والے بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو بہوئیں کھڑی رہتی ہیں اور انتظار کرتی ہیں باقی گھر والوں کے احکامات کا اور پھر بعد میں کھانا کھاتی ہیں۔

اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے اس تھریڈ لکھنے والی خاتون نے کہا کہ ہمارے ڈرامے یقیناً غلط رواج کو تقویت دیتے ہیں

https://twitter.com/dakhalakbasawai/status/1279685315008040962?s=20

ایک اور ٹوئٹر صارف نے اس تھریڈ میں لکھا کہ مجھے تو یہ خوبصورت لگتا ہے۔ کوئی بری بات نہیں ایک طرح سے پیارا بھی ہی۔ میں تو اپنا کھانا خود لیتا ہوں، میں تو زیادہ تر پکاتا بھی خود ہی ہوں مگر پھر بھی مجھے یہ چھوٹی روایات اور اقدار اچھی لگتی ہیں۔ خیالات انفرادی ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسا موضوع چھڑ گیا جس پر طرح طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا۔ معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لیے پدر شاہی کا نظام اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ بہت سے افراد کے لیے یہ طور طریقے اقدار کا اہم حصہ ہیں جنہیں چیلنج کرنامعاشرے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب ایک سوچ یہ بھی ہے کہ یہ روایات بوسیدہ ہیں اور انہیں اب چھوڑ دینا چاہیے۔ مگر معاشرے میں مرد اور عورتوں کے مقام کے بارے میں رانا مشرف نے لکھا کہ ایک عورت ہونے کے ناطے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔

رافع نامی ایک ٹوئٹر صارف کو یہ ٹویٹ بری لگی انہوں نے لکھا کہ تو اب آپ اُس شخص کے لیے ایک گلاس پانی بھی نہیں لا سکتی جو 10 سے 12 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ آپ کھا سکیں اور معاشرے میں گھل مل سکیں۔ میں اُن مردو ں کی بات کر رہا ہوں جو کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ایسا نہیں ہوتا مگر اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس لیے ادب کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس بارے میں رونا بند کریں۔

https://twitter.com/DaNecromancer/status/1279777230076477442?s=20

مریم کو رافع کی بات اچھی نہیں لگی اور انہوں نے لکھا کہ عورتیں کھانا بناتی ہیں، گھر کی صفائی کرتی ہیں، برتن اور کپڑے دھوتی ہیں۔ تو آپ مرد حضرات اُن کے لیے پانی کیوں نہیں لا سکتے؟ یا پھر آپ سنت پڑھ کر پیغمبر اسلام سے کیوں نہیں سیکھتے؟

اس تھریڈ میں ہر اطراف سے حملے جوابی حملے اور تکرار کا سلسلہ جاری رہا۔ گو کہ اصل پیغام ایک ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دیا گیا تھا جس کے زیادہ فالوئرز نہیں لیکن اس تھریڈ اور گفتگو کو تقریباً سات ہزار بار لائیک کیا گیا اور بہت سارے کامنٹس بھی دیے گئے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمیں اس روایت کو توڑنا ہوگا اور اپنے بیٹوں کو سکھانا ہوگا کہ بڑے ہوجائیں۔ بد قسمتی سے آجکل کہ آدمی ایسے اس لیے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں نے انہیں خود اپنے لیے کچھ کرنا نہیں سکھایا اور چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ آپ تو بس ایک بڑا بچہ ہیں۔

جہاں مرد حضرات اس تھریڈ پر اور اس پیغام پر اپنا غصہ نکال رہے تھے وہیں بہت سے مرد اس کے خلاف بھی بات کر رہے تھے۔ بہت سے خواتین بھی اس تھریڈ سے متفق نہیں تھیں۔

https://twitter.com/zeetweets_/status/1279646968780816385?s=20

ایک ٹوئٹر صارف نے تھریڈ لکھنے والے خاتون کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ مجھے آپ کے گھر کے مردوں پر افسوس ہے ہم ایسا نہیں کرتے۔

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کردار صنف کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں لیکن اگر میرے والد اور بھائی ٹیبل پر بیس منٹ کے لیے بیٹھے ہیں پورا دن کام پر گزارنے کے بعد تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم ان سے محبت اور اُن کا خیال کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ سب کچھ فرض نہیں ہوتا۔

اس تھریڈ کو لکھنے والی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ مجھے اپنے بھائی اور والد کے لیے کھانا پکانا اچھا لگتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میں اُن کے ساتھ بیٹھ کرسکون سے کھانا کھا سکوں۔

عاصم منیر نے اپنی ٹویٹ میں انگریزی کا محاورہ لکھا ’چیرٹی بگنز ایٹ ہوم‘ یعنی اول خویش بعد درویش۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ آئندہ سے جب آپ کے والد آپ سے ٹیبل پر کچھ مانگیں تو انہیں کہنا کے اُٹھیں اور خود جا کر لے لیں۔ اپنا گھر سے یہ انقلاب شروع کریں پھر ہماری تربیت کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp