آن لائن کلاسیں لینے والے بین الاقوامی طلبہ امریکہ میں نہیں رہ سکیں گے، نیا حکم جاری


امریکہ

امریکی حکومت نے کہا ہے کہ ان کے ملک میں زیرِ تعلیم وہ یونیورسٹی طلبا جن کی کلاسیں مکمل طور پر آن لائن ہو چکی ہیں، ان کا ملک میں رہنا غیر قانونی قرار پائے گا۔

امریکہ کے محکمہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئس) کا کہنا ہے کہ طلبا کو یا تو امریکہ چھوڑنا ہوگا، اور اگر وہ فال 2020 یعنی خزاں کے سیمیسٹر کے دوران امریکہ میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں ایسا کوئی کورس لینا ہوگا جہاں آف لائن کلاسیں جاری ہوں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ قواعد کی پاسداری نہ کرنے والوں کو ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

https://twitter.com/ReichlinMelnick/status/1280207487573069827/photo/1

فی الوقت یہ معلوم نہیں ہے کہ کتنے طلبا اس پابندی سے متاثر ہوں گے تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث کئی یونیورسٹیاں اپنی کلاسوں کو آن لائن نظام پر منتقل کر رہی ہیں۔

ہر سال دنیا بھر سے بڑی تعداد میں طلبا تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آتے ہیں اور یونیورسٹیوں کو اس سے مکمل ٹیوشن فیس کی مد میں خاصی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ جب طلبا نئے تعلیمی سال کا آغاز کریں گے، تو تمام تر تدریس آن لائن نظام پر منتقل کر دی جائے گی۔

اس میں وہ طلبا بھی شامل ہیں جو یونیورسٹی میں ہی رہائش پذیر ہیں۔

محکمہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کے سٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر پروگرام نے غیر ملکی طلبا کو سپرنگ اور سمر 2020 کے آن لائن کورسز ملک میں رہتے ہوئے لینے کی اجازت دی تھی۔

تاہم پیر کے روز کیے گئے اعلان میں حکام نے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی طلبا جو آن لائن کلاسوں کے لیے مندرج ہوتے ہوئے امریکہ میں رہیں گے اور ذاتی طور پر پڑھائے جا رہے کسی کورس میں حصہ نہیں لیں گے، انھیں ‘امیگریشن نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے’ جس میں ملک بدری کی کارروائی کا آغاز بھی شامل ہے۔

نئے ضوابط کا اطلاق ایف ون اور ایم ون ویزا کے حامل افراد پر ہوگا جو طلبا اور ہنری تربیت حاصل کر رہے افراد کو دیا جاتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق محکمے نے مالی سال 2019 میں تین لاکھ 88 ہزار 839 ایف ویزے اور نو ہزار 518 ایم ویزے جاری کیے تھے۔

امریکہ کے محکمہ تجارت کے مطابق غیر ملکی طلبا کی وجہ سے سنہ 2018 میں امریکی معیشت کو 45 ارب ڈالر (36 ارب پاؤنڈ) کا فائدہ ہوا۔

یونیورسٹیوں کی جانب سے ردِ عمل

سٹینفورڈ یونیورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کو اس فیصلے پر تشویش ہے جس سے غیر ملکی طلبا کے لیے مزید غیر یقینی صورتحال اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔

یونیورسٹی کے صدر مارک ٹیسیئے لیوائین نے کہا: ‘ہمارے غیر ملکی طلبا کو اپنی ڈگریوں کی تکمیل کا سفر جاری رکھنے دیا جانا چاہیے اور ایک یونیورسٹی کے طور پر ہمارا عزم ہے کہ ہم ایسا کرنے میں ان کی مدد کریں۔’

انھوں نے کہا کہ جہاں وہ یہ پرکھنے کی کوشش کریں گے کہ ان نئے قواعد کی روشنی میں ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے، وہیں وہ (ملک کی) انتظامیہ پر بھی زور دیں گے کہ وہ اپنے مؤقف پر دوبارہ غور کرے۔

اسی دوران ییل، پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں نے بھی اپنی اپنی ویب سائٹس پر اعلامیے جاری کیے ہیں کہ وہ تازہ ترین ضوابط پر غور کر رہے ہیں کہ اس سے نئے اور موجودہ غیر ملکی طلبا کس طرح متاثر ہوں گے۔

ان یونیورسٹیوں نے طلبا سے کہا ہے کہ انھیں جلد از جلد اس حوالے سے آگاہ کر دیا جائے گا۔

’لوگوں کو امریکی نہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے‘

یہ خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ صحافی گیبی ڈیلوالے نے لکھا کہ وہ آئی سی ای کے جاری کردہ نئے ضوابط کی کوئی ایک توجیہہ بھی نہیں تلاش کر سکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی طبی یا ‘سیکیورٹی’ نقطہ نظر سے فائدہ نہیں، بلکہ اس کی واحد مقصد لوگوں کو امریکی نہ ہونے کی سزا دینا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کی پروفیسر ایلزبتھ سپائیرز نے لکھا کہ ان کے زیادہ تر طلبا غیر ملکی ہیں اور جن ممالک سے ان کا تعلق ہے، وہاں کے اوقات کار کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر طلبا اپنے گھروں سے آن لائن کلاسیں نہیں لے سکیں گے اور انھیں اپنی تعلیم چھوڑنی پڑے گی۔

https://twitter.com/espiers/status/1280227432180654082

وینی وینکت نامی ایک صارف نے لکھا کہ ان طلبا کا کیا ہوگا جن کے آبائی ممالک امریکہ کی وبا سے نمٹنے میں ‘ناکامی’ کی وجہ سے امریکہ سے لوگوں کو اپنے ملکوں میں داخل نہیں ہونے دے رہے؟

https://twitter.com/venkatinthehat/status/1280224152373379072

امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی صباحت ذکریا نے ٹویٹ کیا کہ کیا یہ نیا اقدام صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش ہے؟ انھوں نے کہا کہ تعلیمی ویزا کے حامل لاکھوں طلبا اچانک آج بے یار و مددگار چھوڑ دیے گئے ہیں اور بظاہر اس پر کوئی غم و غصہ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp