سکھ برادری کی کوسٹر کا ٹرین کے ساتھ حادثہ: ’والد نے روانگی کی اطلاع دی اور پھر حادثے کی خبر موصول ہوئی‘


سکھ، حادثہ

Gurmeet Singh
جے سنگھ، کاکا سنگھ اور گرمیت سنگھ

گذشتہ جمعے کو صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے نزدیک مسافر ٹرین اور بس کے درمیان ہونے والے تصادم کے نتیجے میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے۔

اس حادثے میں پشاور کی سکھ کمیونٹی کے 19 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک بچی کا تعلق لاہور سے تھا جو پشاور آ رہی تھیں لیکن ان کی میت ادھر سے لاہور لے جائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا تعلق مردان سے تھا۔ اس حادثے میں کل 22 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے ہیں۔

گرمیت سنگھ کے والد اور والدہ، دو چچا اور ایک پھوپھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ حادثے سے پہلے ان کی اپنے والد سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد حادثے کا علم ہوا تو اس وقت ایسا لگا جیسے آسمان سے کوئی بجلی ان پر آ گری ہو یا پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے خاندان کے تین گھرانوں کے والدین نہیں رہے، بس ان کے بچے رہ گئے ہیں اور اب سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

شیخوپورہ: سکھ مسافروں کی وین اور ٹرین میں تصادم، کم از کم 22 ہلاک

’لوگوں نے شور مچایا کہ جہاز آ رہا ہے، اس میں سے دھواں نکل رہا ہے‘

تیزگام حادثے میں قصوروار کون: مسافر یا ریلوے انتظامیہ؟

چہلم میں شرکت کے لیے لاہور کا سفر

پشاور سے سکھ کمیونٹی کے 22 افراد سردار رگویر سنگھ کی وفات کے بعد چہلم میں شرکت کے لیے لاہور گئے تھے اور جمعے کے روز واپس پشاور آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔

سکھ کمیونٹی کے پشاور میں رہنما بابا جی گرپال سنگھ نے بی بی سی کو بتایا جمعرات کی صبح 13 گھرانوں کے 22 افراد ایک کوسٹر میں روانہ ہوئے تھے۔ ان میں ہر خاندان سے ایک، دو یا تین افراد سکھ برادری کے ایک رہنما سردار رگویر سنگھ کے چہلم میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ سکھ رہنما گذشتہ ماہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور پھر جانبر نہ ہو سکے۔

سکھ کمیونٹی کے ایک رکن گوپال سنگھ نے بتایا کہ چند روز پہلے سردار رگویر سنگھ کے گھر سے پشاور اطلاع پہنچی تھی کہ چہلم ہو رہا ہے اور اگر کوئی شرکت کرنا چاہتا ہے تو اب وہ آ سکتے ہیں کیونکہ پہلے کورونا کی وجہ سے کوئی نہیں جا سکا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ پشاور میں سکھ پشتون کلچر پر مکمل عمل کرتے ہیں اور کسی کی فوتگی یا خوشی میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔

سکھ، حادثہ

’پانچ رشتہ داروں کی ہلاکت‘

گرمیت سنگھ نے بتایا کہ ان کے والد نے لاہور سے واپس روانگی کے وقت بتایا کہ وہ ابھی گاڑی میں سوار ہوئے ہیں اور پشاور کے لیے روانہ ہو رہے ہیں، لیکن راستے میں وہ گردوارہ جائیں گے اور پھر پشاور کے لیے روانہ ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جب وہ پشاور سے روانہ ہو رہے تھے تو اس وقت ان کا ارادہ تھا کہ لاہور میں چہلم میں شرکت سے پہلے گردوارہ جائیں گے لیکن راستے میں ان کا منصوبہ تبدیل ہوگیا تھا اور وہ سیدھا لاہور چہلم میں شرکت کے لیے چلے گئے تھے۔

ان کے والد کی پنسار کی دکان اور چچاؤں کے دواخانے تھے جہاں سے ان کے گھر اتنی آمدن آ جاتی تھی جس سے ان کے تین گھروں کے کچن چل رہے تھے۔ گرمیت کی پشاور کے علاقے صدر میں کاسمیٹکس کی دوکان ہے، جبکہ باقی چچاؤں کے بیٹے کوئی کام نہیں کرتے۔

گرمیت سنگھ نے بتایا کہ دوپہر کے وقت ایک دوست نے ان سے ان کے والد کا فون نمبر مانگا۔ ’میں نے بغیر پوچھے انھیں اپنے والد کا نمبر دے دیا تھا تھوڑی دیر بعد دوست کا فون آیا کہ یار معلوم کرو لاہور کے قریب کوئی حادثہ ہوا ہے، تو میں دوکان بند کرکے فوراً محلہ جوگن سنگھ پہنچا جہاں کچھ لوگ جمع تھے۔‘

گرمیت سنگھ نے بتایا کہ وہ گھر پہنچے جہاں بھائی نے ٹی وی پر خبریں لگائیں تو حقیقت کا علم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خبر انھیں ایسے لگی جیسے آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چیز ان پر آ گری ہو اور پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ لاہور جانے کے لیے روانہ ہوئے تو حکام کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ میتیں فوجی طیاروں سی 130 کے ذریعے پشاور پہنچائی جا رہی ہیں۔ گرمیت نے بتایا کہ رات کوئی تین بجے میتیں پہنچیں تو ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ وہ لمحہ بیان کر سکیں، بس ہر طرف ویرانہ نظر آرہا تھا کہ اب وہ کیا کریں گے۔

محلہ جوگن سنگھ میں کیا ہوا؟

پشاور کے علاقے ڈبگری کے محلہ جوگن سنگھ میں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں جہاں تمام میتیں لائی گئی تھیں۔ سکھ برادری کے افراد نے بتایا کہ اس موقع پر اہل علاقہ نے ان کی بہت مدد کی ہے اور ان مسلمان اور دیگر مذاہب کے پڑوسی اور اہل علاقہ ان کے ساتھ موجود رہے اور ہر طرح کی مدد کی ہے۔

سکھ کمیوٹی کے رہنما بابا جی گرپال سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بہت بڑا صدمہ تھا لیکن منتخب نمائندوں، انتظامیہ اور پولیس نے ان کی بہت مدد کی، اور علاقے میں سیکیورٹی کے انتظامات سے لے کر نوشہرہ کے قریب شمشان گھاٹ تک کے جو اقدامات کیے گئے وہ مثالی تھے اور وہ اس سے بہت مطمئن تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تعزیت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے وفود نے شرکت کی ہے اور علاقے کی مساجد کے آئمہ اور علماء بھی ان کے پاس آئے اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور معلوم کیا کہ اگر انھیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ اس کے لیے حاضر ہیں۔

گرپال سنگھ نے بتایا کہ اس حادثے میں ان کے بہت اچھے ساتھی ان سے جدا ہو گئے ہیں جن میں گردوارے کے سیوکار بلویر سنگھ اور ان کے ساتھی رویندر سنگھ ایک مذہبی سکول کے تعلیم یافتہ استاد تھے جو اب ہم میں نہیں رہے اور اب ان کی کمی محسوس ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp