اعتدال کا شکار ہونے والا مندر


پاکستان میں بینکاری کے حوالے سے حلال حرام کے مباحثے بہت بڑھ گئے تو کچھ نیکوکاروں کے دل میں خدا نے ایک بات ڈالی کہ یار بہت ہو گیا، یہ بحث اب سمٹنی چاہیے۔ مگر کیسے؟ وہ ایسے کہ روز روز کی چک چک سے اچھا ہے کہ علمائے کرام کا رزق اپنے رزق کے ساتھ باندھ لیا جائے۔ وہ کیوں؟ تاکہ ان کی نیکیوں میں ہماری حرام کی کمائی دھل کے پاک صاف ہو جائے۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر ہوگا کیسے؟ وہ ایسے کہ بینک کے اندر شرعی ایڈوائزر کی ایک اسامی جاری کردی جائے۔ اچھا پھر؟ بس پھر یہ کہ علمائے کرام اور مشائخ عظام کا انٹرویو کیا جائے اور چھانٹ کر ان میں سے ایک ایسے شیخ کو رکھ لیا جائے، فقہ کی شطرنج پر جس کی چلی ہوئی چالوں کی لوگ پیروی کرتے ہوں۔ اچھا پھر کیا ہوگا؟ پھر اللہ راضی ہوگا اور کیا ہوگا۔

یہ منصوبہ سامنے آتے ہی فقہ اسلامی کے وہ سارے پہلو سامنے آنا شروع ہو گئے جس میں گنجائش بہت ہوتی ہے۔ بلاسود بینکاری کے لیے کچھ اصطلاحات تو پہلے سے موجود تھیں اور کچھ علمائے کرام نے خود اپنے علم اور فہم سے تراش کے سامنے رکھ دیں۔ ایک دو بینکوں نے یہ نسخہ آزمایا تو ان کے سر سے بلا تو ٹلی سو ٹلی مال میں برکت بھی بہت پڑی۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی بینکوں نے بھی علمی و فقہی مشاورتیں ختم کیں اور نورانی نور قسم کے شرعی ایڈوائزر بھرتی کر لیے۔ اس کے بعد تو ہر بینک کے تشہیری مواد میں شرعی ایڈوائزر کی حیثیت ڈائریکٹرز سے زیادہ نمایاں نظر آنے لگی۔ جس بینک نے ایسا نہیں کیا اس کے کاموں میں جانی ان جانی سی رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ہونی بھی چاہے تھیں، آخر جس کے وسیلے سے سب کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے اسی کی قدر نہیں ہوگی تو گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا؟ جن قوموں نے اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی تاریخ نے پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو مرکز نے بلوچستان کے ساتھ کیا ہے۔

مضاربت والا سکینڈل یاد ہے آپ کو؟ ابھی چند سال پہلے جو علمائے کرام کی چھتر چھایا میں شروع ہوا اور پوری کامیابی کے ساتھ ختم ہوا؟ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس اسکینڈل کے مرکزی کردار نے خیر و برکت کا یہ مشاہدہ بینکوں میں ہی کیا ہوگا۔ اس کو ایک بات سمجھ آ گئی تھی کہ سر پر پاک ہستیوں کا ہاتھ نہیں ہوگا تو نعمت پہ رحمت کا سایہ بھی نہیں پڑے گا۔ اس نے راتوں رات کاروبار کا ایک بڑا سا گلستان بنایا اور ہر شاخ پر ایک فقیہ بٹھا دیا۔ لوگوں نے تائید خداوندی کا یہ منظر دیکھا تو تن کا کپڑا اور من کا دکھڑا بیچ کے اس کاروبار میں جھونک دیا۔ یہ اس قدر معجزاتی کاروبار تھا کہ کہیں کچھ خریدا جا رہا تھا اور نہ ہی بیچا رہا تھا مگر پیسہ تھا کہ چھپر پھاڑ کے جھولی میں آ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حق حلال کی اتنی دولت اکٹھی ہو گئی کہ دوچار افغان جہاد تو آرام سے لڑے جا سکتے تھے۔ انجام کار پتہ نہیں کس ناس پیٹے کی نحوست پڑی کہ سارا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ اچھا کاروبار ضرور چوپٹ ہوا لیکن یہ مت بھولیے کہ کوئی کسی سے پیسے دھیلے کا حساب نہیں کر سکا۔ کرتا بھی کیسے؟ پیسہ تو خدا کے نام پر لیا دیا تھا، خدا کے ساتھ بھی کوئی حساب کتاب کرتا ہے بھلا؟

مضاربت والے بھائی سے بھی بہت پہلے خیر و برکت کا یہ راز کراچی کے کچھ کاروباریوں پر کھل گیا تھا۔ کئی کاروباری ایسے سفاک اور گنوار تھے کہ زمین پر قبضہ کرلیتے تھے اور جائز کرنے سے پہلے تعمیر شروع کردیتے تھے۔ پھر انہیں خدا کی مار پڑتی تھی تو روتے ہوئے گھر آتے تھے۔ لیکن کچھ کاروباری ایسے تھے جنہوں نے اولیا کی صحبت میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ خدا کی رضا کے بغیر منصوبے تکمیل کو نہیں پہنچتے۔ چنانچہ ان کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ زمین قبضہ کی اور بسم اللہ پڑھے بغیر تعمیر شروع کردی۔ وہ تسلی سے زمین پر قبضہ کرتے اور ایک لمحے کی دیر کیے بغیر مسجد کی بنیاد رکھ دیتے تھے۔ پہلے مسجد بنے گی پھر باقی کام ہوں گے۔

تھوڑی بہت تعمیر کے ساتھ ہی مسجد نمازیوں کے لیے کھول دیتے تاکہ آجو باجو میں رہنے والوں کی جبین نیاز میں تڑپنے والے سجدوں کو قرار مل سکے۔ شہر کے ایک بڑے مولوی صاحب کو نماز جمعہ کے لیے پروٹوکول میں لاتے، مسجد کا افتتاح کرواتے، منصوبے کی کامیابی کے لیے دعا کرواتے اور جاتے جاتے کہہ دیتے، قبلہ مسجد میں پیش امام کی اسامی خالی ہے، اگر اپنا کوئی قابل اعتماد شاگرد بھجوا دیں تو اچھی تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں۔ مولوی صاحب ابھی واپس گھر پہنچے بھی نہ ہوتے کہ اللہ رب العزت کی مدد اس منصوبے کے ساتھ شامل حال ہوجاتی۔ اس کے بعد کوئی شخص آکر اگر کہتا کہ یہاں میری زمین دبائی گئی ہے تو غیب سے اسے ایسی مار پڑتی کہ سات نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہوجاتا۔

خیر و برکت کی یہ حقیقت ابھی پچھلے ہفتے اسلام آباد میں ان لوگوں نے بھی دیکھ لی جو صحیفوں کو جھٹلاتے ہیں۔ ہندوؤں کا مندر جائز زمین پہ بھی نہیں بن سکا اور مسجد قبضے کی زمین پر بھی بن گئی۔ کچھ ناہنجار تو اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سوچ بھی نہیں رہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ناجائز زمین پر مسجد بنی ہے۔ لاحول ولا۔ جس زمین پر مسجد بن جائے وہ ناجائز کیسے ہو سکتی ہے۔ خوف خدا جب دل سے نکل جائے تو لوگ علمائے کرام اور مشائخ عظام کی جبہ و دستار پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ بھائی، ہمارے بزرگوں نے کیا یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے پہلے کسی مردود سے اجازت لی جاوے؟

ہمیں شکر بجا لانا چاہیے کہ ہمارے بیچ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے معتدل فکر رکھنے والی برگزیدہ ہستیاں موجود ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیے کہ ان کی جگہ اگر کوئی انتہا پسند شیخ ہوتا تو کس قدر بھیانک صورت حال ہوتی۔ وہ تو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر مندر بنانے والوں کو ٹھیک اور مسجد گرانے والوں کو غلط کہہ کر آگے بڑھ جاتا۔ یہ مفتی صاحب ہی تھے جنہوں نے پہلے اعتدال کا ترازو مضبوطی سے تھاما اور پھر غیر قانونی مسجد بنانے والوں کو بھی اتنا ہی غلط کہا جتنا کہ قانونی مندر بنانے والوں کو کہا۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے مگر تم غور نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments