لٹکتا انصاف اور ام رباب کی پروان چڑھتی سیاست


اپنے خلاف ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف الم بلند کرنا انصاف کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا زیادتی کرنے والے حق دبانے والے قتل کرنے والے ہاتھوں کو اپنے حوصلے اور ہمت سے زنجیروں میں جکڑ کر کیفر کردار تک پہچانا بے شک جہاد کی افضل ترین قسم ہے۔

جب کوئی غاصب و جابر کسی کمزور و ناتواں پر اپنی طاقت و حاکمیت کا مظاہرہ کرنے کے لئے خون کی ہولی کھیلتا ہے تو اس ماں جیسی ریاست کا اولین فرض بن جاتا ہے کہ ان سرکش سپوتوں کو ایسا سبق سکھائے کے وہ ہاتھ پھر کبھی کسی مظلوم کے کمزور جسم پر نہ پڑیں، لیکن کبھی مظلوم کی جدوجہد انصاف کے حصول میں چھپ کر ذاتی مفاد بن جاتی ہے جس میں پیسہ شہرت سیاست یا دوسرا کوئی مقصد شامل ہوجاتا ہے اور پھر مظلومیت بھی کیش ہونے لگتی ہے۔ آہ و پکار آنسوؤں میں ڈوبی سرخ آنکھیں سب بناوٹی بن جاتی ہیں۔ ایسے میں دھرتی ماں بھی مظلوم کی کہانی میں چھپے تہہ در تہہ جھوٹ اور مکر کو پہچان نہیں پاتی اور دھوکہ کھا جاتی ہے۔

ایک ایسا ہی واقعہ سندھ کے علاقے دادو میں پیش آیا جہاں چانڈیو خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی ام رباب چانڈیو کے والد دادا اور چچا خاندانی دشمنی کے چلتے غلام مرتضی، غلام قادر اور سکندر چانڈیو سے تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ سترہ جنوری دو ہزار اٹھارہ کی صبح پیش آنے والا یہ واقعہ کسی پولیس مقابلے یا کسی ایکشن فلم کے اختتامی سین سے کم نہیں تھا۔ پورا علاقہ دونوں مخالفین کی آزادانہ اور بے دریغ فائرنگ سے لرز اٹھا اور اس خونی مقابلے کے اختتام پر چار افراد اس خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھے جہاں ام رباب کے گھر کے تین مرد جان سے گئے وہیں دوسری سائیڈ سے عبدالقادر چانڈیو بھی تصادم میں مارے گئے۔

یہاں سے ام رباب کا اپنے خونی رشتوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سفر شروع ہوتا ہے۔

ام رباب اپنے کیس میں نہایت انوکھا انکشاف کرتی ہیں کہ اس کے باپ دادا اور چچا کا قتل پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی برہان خان چانڈیو اور سردار خان چانڈیو نے کیا لیکن دوسری طرف ان دو ملزموں کے سترہ جنوری کو جائے وقوعہ پر نہ ہونے کے ناقابل تردید شواہد ملتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں اس تصادم میں سرے سے ہی موجود نہیں تھے۔ خیر، ام رباب ننگے پاؤں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی گاڑی کا رستہ روکتی ہے اور یوں پہلی دفعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔

پاکستان کا ہر چینل ام رباب کے کیس کو دکھاتا ہے۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ام رباب کو بلایا جاتا ہے اور اس کا موقف سنا جاتا ہے۔ پورے ملک کی ہمدردیاں سندھ کی اس لڑکی کے ساتھ جڑتی ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ یک طرفہ موقف ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان افراد کا موقف لیا جائے جن پر یہ الزام لگا لیکن ام رباب کے آنسو ننگے پیر معصوم چہرہ یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کر رہا فیس بک پر درجنوں کی تعداد میں ام رباب کی حمایت میں پیج بن گئے ( یا بنائے گئے ) اور وہاں ام رباب کے کیس کو ہمدردانہ لفظوں میں بیان کیا گیا اور سوشل میڈیا کی عدالت میں ان دو ملزموں جن کا ابھی مجرم ہونا پاکستانی عدالتوں میں ثابت نہیں ہوا یک طرفہ موقف ثبوتوں کی عدم موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے کے خلاف ام رباب کی مظلومیت آہ و پکار اور ننگے پیروں کے ثبوت دیکھتے ہوئے سزا سنا چکی ہے۔

کبھی اس ظلم کو بی بی بے نظیر کے ساتھ ہوئے ظلم سے ملایا گیا اور ام رباب کو دوسری بے نظیر کہا گیا اور سندھ کی بیٹی کا لقب دے دیا گیا۔ ام رباب جلسہ کرتی تو کئی ہزار افراد اس جلسے میں شامل ہوتے سندھ میں کوئی مرتا تو ام رباب اس کا افسوس کرنے اس کے گھر پہنچتی وزیر داخلہ سے خوشگوار ملاقات کی تصاویر بھی اپلوڈ ہوتی رہیں ام رباب کا تعارف انصاف کے لئے نکلی نہتی لڑکی سے ہٹ کر ایک ایکٹویسٹ ایک سیاست دان کے طور پر ہونا شروع ہوا۔

اگر کوئی شخص ام رباب کے چہرے، آنسو اور معصومیت کو سائیڈ پہ رکھ کر پوری جانبداری سے زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے اس کے موقف کو سنیں تو اسے علم ہوگا کہ ام رباب کی ہر بات میں تضاد ہے۔ کہیں وہ کہتی ہیں کہ برہان چانڈیو اس صبح واردات کی جگہ پر تھے اور خود گولیاں چلائیں اور پھر کسی ٹاک شو میں کہتی ہیں کہ نہیں برہان اور سردار خان چانڈیو نے ٹارگٹ کلنگ کروائی ان کا یہ بھی موقف ہے کہ ان کے والد اور دادا کسی کا بھی سیاست سے تعلق نہیں تھا لیکن حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دادا کو کئی سیاسی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔

وہ کئی سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کے لئے سیاسی مہرے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ان پر درجنوں قتل کے مقدمات درج رہے اور آخری سانس تک مقتول پر منشیات کے مقدمات درج تھے۔ یہ سارا بیک گراؤنڈ قطعاً اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ ام رباب کے خاندان میں کوئی بھی سیاست سے جڑا نہیں تھا۔ ام رباب قتل کی جو وجہ بیان کرتی ہیں۔ وہ بھی کسی علاقائی سیاست کے تنازعے کا شاخسانہ ہے۔ ام رباب کے بقول ان کے دادا ایک کمیٹی تشکیل دے رہے تھے جو سندھ میں جاگیر دارانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے تھی جن سے علاقے کے وڈیروں کو خطرہ لاحق ہوا اور یہی ان کے قتل کی وجہ بنا۔ یہ یاد رہے کہ ام رباب کے دادا بھی علاقے میں کسی طور بھی کسی وڈیرے سے کم نہیں تھے۔ ان کا اثر و رسوخ بھی سندھ میں موجود دوسرے وڈیروں کی طرح ہی تھا۔ طاقت اور پیسے میں بھی کسی طور بھی پیچھے نہیں تھے تو پھر یہ معمولی سی ایک کمیٹی بنانے پر ان کا یوں سفاکانہ قتل ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

پاکستان میں لاکھوں ماؤں کے بیٹے بہنوں کے اکلوتے بھائی لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی میں مارے جاتے ہیں۔ کسی جابر کی بندوق کا نشانہ بنتے ہیں۔ ظلم کا نشانہ بننے والوں کی یہ کہانیاں آثار قدیمہ کی طرح معاشرے کی دلدل میں دفن ہوجاتی ہیں۔ ان سب کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کے انصاف کے لئے نکلتے تو ہیں۔ کہیں خاموش تو کہیں پرزور احتجاج کرتے ہیں۔ مگر افسوس کے یہ کیمروں کا فوکس میڈیا کی کوریج سمیت سوشل میڈیا کی ہمدردیاں نہیں سمیٹ پاتے ہر کوئی ام رباب کی طرح ننگے پاؤں یا لالٹین ہاتھ میں لئے اپنے پیچھے درجنوں افراد لے کر میڈیائی کانفرنسیں نہیں کر سکتا ٹی وی پر بیٹھ کر بڑی آسانی سے کسی بھی شخص پر بغیر کوئی ٹھوس شواہد کے الزامات نہیں لگا سکتا اور ان سڑکوں پر احتجاج کرتے لوگوں کی سکیورٹی کے لئے کسی قسم کا کوئی پولیس تحفظ نہیں ملتا آخر کیوں؟

اس سوال کا سادہ سا اور بڑا ہی واضح جواب یہ ہے کہ یہ مظلوم بغیر کسی مفاد کے بغیر کسی کی پگڑی اچھالے یا چٹ پٹے الزامات کی ٹوکری لئے کسی سیاسی جماعت یا کسی با اثر شخص پر الزام نہیں لگاتے ان کے بیک گراؤنڈ میں کوئی سیاسی طاقت نہیں ہوتی وہ بس اپنے پیاروں کے خون اور ان کے ساتھ ہوئی نا انصافی کا بدلہ قانون کے ہاتھوں چاہتے ہیں جب کہ ام رباب چانڈیو ہزاروں کی تعداد میں ایک جتھے کے ساتھ چلتی کسی سیاسی لیڈر کی مانند ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی پر الزامات لگاتی ہیں اور ان کو اداروں سے انصاف کی توقع نہیں پولیس پر بھروسا نہیں وہی پولیس جو ان کی ریلی میں ان کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ چلتی ہے۔

یہ کیسا تضاد ہے۔ انصاف کے حصول کا یہ کیا طریقہ ہے جو ام رباب نے اپنایا ہے جو انصاف کے حصول سے بڑھ کر ملکی سیاست میں داخل ہونے کا پیش خیمہ لگ رہا جس میں ان کی باڈی لینگویج سے لے کر ان کے منظم سوشل میڈیا سیل تک یہ سب اشارے ہیں کہ وہ انصاف کی آڑ میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر عملی طور پر سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش میں ہیں اور ان کی اب تک یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments