شغلیہ حکومت کا مستقبل اور مقتدرہ کا کردار


ایک محاورہ ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اسی طرح اس حکومت کا بھی کوئی کام سیدھا نظر نہیں آتا۔ زبانی تقریر کے شوقین وزیر اعظم ہوں یا وزراء ’پہلے تولو پھر بولو‘ کی بجائے ’پہلے بولو پھر مضمرات بھگتو‘ پر یقین رکھتے ہیں۔

حالیہ ایام میں دیکھیں تو کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے ہر روز بدلتے بیانات تفنن طبع کا باعث بنتے رہے ہیں۔ زرتاج گل بھی کورونا وائرس کی تشریح کر کے شغلیہ حکومت میں اپنا حصہ ڈالنا نہ بھولیں۔ رہی سہی کسر مشکوک ڈگری رکھنے وزیر ہوابازی نے چالیس فیصد پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنسز کو جعلی کہہ کر پوری کر دی۔ فیصل واوڈا ٹاک شوز میں کبھی پانچ ہزار بندے لٹکانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی تلخ سوالات پوچھنے پر نامور صحافیوں کے ساتھ دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ کبھی دعوے پورے نہ ہونے پر اپنی تکا بوٹی کروانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی سیاسی اختلاف پر اپنی ہی جماعت کے بندوں کو کاٹنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ ہنسی کا گول گپہ بننے والی یہ شغلیہ حکومت بھلے عوام کو کوئی سہولتیں نہیں دے سکی مگر اپنے لا ابالی پن کی وجہ سے ماحول کو کشت زعفران ضرور بنائے رکھتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پہلے کہا کہ میرے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے اور پھر اگلے ہی دن کہا کہ اگر وہ مائنس ہو گئے تو بھی اپوزیشن کو این آر او نہیں ملے گا۔ ایک صفحے کا پرچار کرنے والے وزیراعظم کا اچانک یہ کہنا کچھ عجیب لگا۔ امکان ہے کہ انھیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مائنس ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں کون مائنس کرنا چاہ رہا ہے۔ کیا وہی انھیں مائنس کرنا چاہتے ہیں جن کی جمہوریت پسندی پر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں۔ کیا تحریک انصاف کے اندر سے ہی کوئی ان کی جڑیں کاٹ رہا ہے یا وہ خود ہی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ کیا اپوزیشن انھیں مائنس کرنا چاہتی ہے یا اتحادی جماعتیں اس حکومت کا ساتھ چھوڑ رہی ہیں۔ مائنس ون کیسے ہو سکتا ہے اور کیا اس کا کوئی امکان بھی ہے یا نہیں اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں سازشوں اور افواہوں کا کھیل ایک بار پھر زور و شور سے جاری ہے۔ افواہیں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں مگر بنیادی فرق یہ ہے کہ اس بار وزیراعظم عمران خان نے خود قومی اسمبلی میں اپنے مائنس ہونے کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ان کی تقریر کے بعد ان کے مائنس ہونے کی افواہوں نے تقویت پکڑ لی ہے۔ غلط پیش گوئیاں کرنے والے شیخ رشید نے ایک کی بجائے مائنس تین کا کہہ کر پہلے سے افواہوں کو مزید تڑکہ لگا دیا۔

عمران خان کے مائنس ہونے کے تین طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ خود ہی اسمبلی توڑ کر الیکشن کروا دیں لیکن اگلے چھ ماہ سے پہلے نئے الیکشن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دوسرا طریقہ انھیں بالجبر گھر بھیجنے کا ہے یعنی عدالت یا الیکشن کمیشن انھیں نا اہل کر سکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس اختتامی مراحل میں ہے۔ کسی بھی وقت سالوں سے گہری نیند میں سویا الیکشن کمیشن جاگ سکتا ہے اور فارن فنڈنگ کے تن مردہ میں جان پڑ سکتی ہے۔

تیسرا طریقہ عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی ہے۔ حکومتی اتحادی بھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور اپوزیشن بھی پرتول رہی ہے۔ بجٹ منظوری سے پہلے ہی تحریک انصاف کے درجن سے زائد ایم این ایز اور اب ایک وفاقی وزیر کے مسلم لیگ ن سے رابطے کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ یہ اراکین وہی ہیں جو ”انکے“ اشاروں پر پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ جہانگیر ترین کے قریب سمجھے جانے والے سابق وزیراعلی خیبر پختنخواہ پرویز خٹک کا نام بھی متوقع امیدواروں میں شامل ہے۔ قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے یہ تو منصوبہ ساز ہی جانتے ہیں لیکن افواہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔

موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ مائنس عمران خان کا مطالبہ غیر جمہوری مطالبہ نہیں۔ ہم کسی بیرونی قوت سے عمران خان کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ عدم اعتماد سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ عمران خان کو عدالت سے نا اہل ہوں یا الیکشن کمیشن سے، عدم اعتماد کی تحریک آئے یا وہ خود ہی اسمبلی توڑنے کا اعلان کریں۔ مقتدرہ قوتوں کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی حربہ کارگر نہیں ہو گا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اس کا عملی مظاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں۔

اگرچہ تحریک انصاف پر لگے نا اہلی کے لیبل نے عوام کے ساتھ ان قوتوں کو بھی مایوس کر دیا ہے جو بہت جتن کر کے انہیں اقتدار میں لائے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حکومت اپنی قدر کھو چکی ہے مگر حکومت کو اس صورتحال میں گھر بھیجنا عمران خان کو نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ ایک صفحے پر ہونے والے پاور بروکرز چاہتے ہیں کہ اس حکومت کا ملبہ صرف اپوزیشن اٹھائے اور جو ہمیشہ سے مقدس ہیں وہ سازشوں کے اس کھیل کا مرکزی کردار ہونے کے باوجود آج بھی مقدس ہی رہنا چاہتے ہیں۔

آنے والا منظرنامہ کیا ہو گا اس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے مگر اس بار صورتحال حکومت کے لئے پیچدہ ہے۔ اس بار الوداع عمران خان کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ حکومت کے لئے راستے مسدود ہو رہے ہیں اور اپوزیشن کے لئے راستے کھل رہے ہیں۔ عمران خان کی خواہش کے باوجود شہبازشریف گرفتار نہیں ہو سکے لیکن صفحے بدلنے والے دوبارہ کب حکومت کے ساتھ اسی صفحے پر آ جائیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ یرغمالی نظام سیاست میں کوئی بھی ترکیب مقتدرہ کی مرضی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔

یہ صورتحال سیاستدانوں کی بصیرت کا بھی امتحان ہے۔ مقتدرہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالنا چاہتی ہیں اور سیاستدان ایک بار پھر استعمال ہونے کے لئے تیار نظر آ رہے ہیں۔ اس طرح کی کوئی بھی تبدیلی نہ صرف مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت مضبوط کرے گی بلکہ آنے والا کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گا۔ اگر ایک صفحے والوں نے دوبارہ صفحہ نہ بدلا تو غالب امکان یہی ہے کہ شغلیہ حکومت الوداع۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments