کیا آپ بزدل کہلانے سے ڈرتے ہیں؟


جلد ڈر جانے یا گھبرا جانے کو کمزوری اور بزدلی سے جوڑنا اور پھر اس کمزوری اور بزدلی کو مردانگی کے متضاد خاصیت سمجھنا مکمل طور پہ معاشرتی قدر ہے جو والدین اساتذہ اور دیگر اہم شخصیات تربیت اور رویوں کے ذریعے نئی نسل میں منتقل کر دیتے ہیں۔ نفسیات کے مطابق لڑکا لڑکی یا خواجہ سرا ہونے سے بزدلی اور بہادری کا کوئی تعلق نہیں۔

چلیے پھر اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا عوامل ہیں جو ڈرنے یا گھبرانے میں فعال ہوتے ہیں۔ یہ کافی حد تک قدرتی ردعمل ہیں اور کہاں پہ یہ روزمرہ زندگی متاثر کرتے ہیں اور کب کسی کی مشاورت یا مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔

ایسے حالات جو آپ کی جان کے لیے خطرہ ہوں ایسے میں ڈر جانا قدرتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم گھبراتے بھی ہیں خاص طور سے جب حالات غیر یقینی ہوں اور آپ کو اندازہ ہی نہ ہو کہ کس قدر کوشش آپ کو اس خطرے سے نکال سکتی ہے۔ چوں کہ یہ قدرتی ردعمل ہے اس لیے ایسی صورت حال جو آپ کو جان لیوا لگیں ان میں چند بار مبتلا ہونے پہ یہ کیفیات ضرور ہوں گی لیکن جب آپ ہر بار اپنی مدد کیے جانے یا کچھ اور عوامل کی وجہ سے اس صورت حال سے کامیابی سے نکل آئیں تو اس مخصوص صورت حال کے لیے آپ کا ڈر اور گھبراہٹ کم ہوجاتی ہے اور آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ یا تو یہ صورت حال اتنی جان لیوا نہیں جتنی آپ سمجھ رہے تھے یا آپ میں اس سے مقابلہ کرنے کی مناسب صلاحیت موجود ہے۔

یہ وضاحت قدرتی ماحول میں تقریباً ہر جاندار پہ صادق آتی ہے۔ خاص طور سے سب جانوروں پرندوں اور انسانوں میں فائیٹ اور فلائیٹ ریسپونس ہوتا ہے۔

پھر آتے ہیں انسانی معاشرے میں پیدا ہونے والے ڈر اور گھبراہٹ کے احساسات جو ہمیشہ صرف جان کے خطرے میں نہیں بلکہ جب آپ کی عزت، تشخص اور نیک نامی داؤ پہ لگی ہو تو بھی اسی طرح کا ڈر اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ حل اس کا بھی یہی ہے کہ جب بارہا ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کامیابی سے اپنی عزت تشخص یا نیک نامی بچا لیں تو آپ سیکھ جاتے ہیں کہ ایسی صورت حال سے کیسے نکلنا چاہیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کبھی کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم بار بار ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں بچ بھی جاتے ہیں لیکن خوف ختم نہیں ہوتا۔ اور یہ کتنا نارمل ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بہرحال متوازن رویہ نہیں کیوں کہ یہ آپ کی روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کرتا ہے آپ کی قدرتی صلاحیتوں پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اور کئی جسمانی بیماریوں کو بھی دعوت دے دیتا ہے۔

یہ رویہ عموماً اس لیے پیدا ہوتا ہے کیوں کہ ہم پہلے سے خوف کا شکار ہوکر سامنا کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور ہر بار اس صورت حال تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ مثلاً کسی کو لفٹ میں جانے سے خوف آتا ہے اور وہ چوں کہ لفٹ میں گیا ہی نہیں اس لیے اسے نہیں پتا چل سکا کہ لفٹ میں جانا اتنا خطرناک نہیں جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ اس صورت حال سے ناصرف سامنا کم کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی اس کے حوالے سے غلط فہمیاں بہت زیادہ ہیں جیسے کہ جہاز کی سواری۔

اگر سفر کے دوران حادثات کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو سب سے زیادہ حادثات سڑک پہ ہونے والے سفر میں ہوتے ہیں وہ بھی موٹر سائیکل پہ اور سب سے کم ہوائی جہاز اور اس سے بھی کم بحری جہاز میں۔ لیکن ہوائی جہاز اور بحری جہاز کے سفر کا خوف سب سے زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ ہمیں سالوں تک روز اڑنے والی محفوظ پروازوں کی خبر نہیں ملتی لیکن حادثے کی مکمل تفصیل ملتی ہے۔ یعنی اہسے خوف سے چھٹکارے کا راز زیادہ سے زیادہ مستند معلومات اور اسے اپنی زندگی میں مناسب طور پہ استعمال کرنے سے ہے۔ اس تناظر میں اگر آپ حالیہ کرونا کی مثال لیں تو جو اس کے بارے میں مستند معلومات نہیں رکھتے وہ یا توشدید خوف کا شکار ہیں یا ضروری احتیاط بھی نہیں کر رہے۔

ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ساتھ جو پہلی بار ناخوشگوار صورت حال پیش آئی اس سے ہم بچ تو نکلے لیکن اس بچ نکلنے تک کا پورا حال جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بہت تکلیف دہ تھا اس لیے آپ بار بار اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایسی صورت میں پہلے واقعے کا خوف کم کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ایسا شخص جو پہلے بہت آرام سے جہاز کا سفر کر لیا کرتا ہو کبھی کسی ایسے سفر سے گزرے جو یا تو بڑی غیر متوازن پرواز کا حامل رہا ہو یہ وہ شخص پلین کریش سے مشکل سے بچا ہو ایسے میں امکان بڑھ جاتا ہے کہ اب وہ ہمیشہ جہاز میں سفر سے ڈرے گا۔

ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ بار بار کسی چیز سے شعوری یا لاشعوری طور پہ خوف دلایا جاتا ہے۔ یہاں وہ نکتہ آتا ہے کہ ڈر اور خوف سکھائے جاتے ہیں اور بہادری بھی سکھائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف لڑکیوں کو چھپکلی سے ڈرایا جاتا ہے کہ ان کے سامنے گھر کی باقی خواتین چھپکلی آتے ہی شور مچا دیتی ہیں ساتھ ہی اپنے خوف کو جسٹیفائے کرنے کے لیے چھپکلی کے کاٹنے سے مرنے کی داستانیں بھی سنائی جاتی ہیں۔ تو دوسری طرف لڑکوں کو ڈرنے سے ڈرایا جاتا ہے یعنی انہیں قدرتی ڈر کے اظہار کا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔

اسکول اور آفس میں پریزینٹیشن یا میٹنگ میں یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ بغیر گھبرائے بہت اعتماد سے لوگوں کا سامنا کریں گے اور اگر وہ گھبراتے دکھائی دیں تو مذاق اڑایا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی طرح گھبرا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عموماً خاتون استاد یا خاتون باس جو خود بہت با اعتماد ہوں وہ بھی ماتحت مرد کو عورت کی طرح گھبرانے اور ڈرنے کا طعنہ دیتی ہیں۔ جب کہ حقیقت میں دیکھا جائے تو مردانگی یا نزاکت کا دار و مدار مکمل طور پہ اس بات میں ہے کہ کسے ڈرنے پہ سپورٹ کیا گیا اور کسے ڈرنے پہ اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دی گئی، کس کو مزید ذلیل کیا گیا اور کسے اکیلے ڈرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

ایک اور تربیت کا طریقہ جو بچوں کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ یہ کہ آپ بچوں کو ناخوشگوار حالات سے بچانے کے لیے اس کا سامنا ہی نہ کرنے دیں۔ کھیلے گا تو چوٹ نہ لگ جائے، باہر جائے گا تو گم نہ ہو جائے، چولہے پہ کام کرے گا تو جل نہ جائے۔ ۔ ۔ لیکن کب تک؟ جب بھی وہ بچہ یا بچی پہلی دفعہ وہ کام کرے گا/ گی نقصان کے امکانات اتنے ہی ہیں۔ لیکن اگر بچپن سے ان حالات کے سامنے آپ ڈھال بنتے آئے ہیں تو آپ کا بچہ اپنی عمر کے باقی بچوں سے زیادہ کم ہمت اور خوفزدہ رہے گا۔ اگر بطور والدین آپ چھوٹی چھوٹی چوٹوں اور نقصانات سے ڈرتے ہیں تو یہ ممکن ہے آپ کے بچپن کے خوف ہوں جو اب آپ کے بچوں کا بچپن بھی متاثر کر رہے ہیں۔

جہاں جسمانی اور نفسیاتی خطرناک صورت حال ہمیں مسلسل خوف کا شکار بنا دیتی ہے جسے فوبیا کہا جاتا ہے وہیں ایسی صورت حال میں اکیلا ہونا شخصیت کو مزید توڑ دیتا ہے جس کے مزید منفی نتائج ہوتے ہیں۔ اور یہ منفی نتائج ہمیں اپنے ماحول میں موجود ہر تیسرے مرد و عورت میں نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑا منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تمام مسائل اور تکالیف جن سے ہم خود گزر کے آتے ہیں جب دوسرا ان سے گزرتا ہے تو بجائے اس کی مدد کرنے کے ہم اسے کہتے ہیں کہ یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے ہم نے بھی تو اس سب کا سامنا کیا۔ اگر کبھی کسی موقع پہ آپ کا دل کسی کو یہ کہنے کا چاہے تو یہ کہنے سے پہلے کچھ دیر رک کے یاد کیجیے گا کہ آپ کو اس سب سے گزرنے پہ کتنی اذیت ہوئی تھی۔ اور اس کی تکلیف کو کم گرداننے کی بجائے اپنی تکلیف کو کم کرنے کے لیے کسی قریبی ماہر نفسیات سے رجوع کیجیے گا۔

چلیے اب ساری بات کا خلاصہ کرتے ہیں کہ جہاں ایک طرف ڈر، خوف گھبراہٹ قدرتی ردعمل ہیں وہیں ان سے نپٹنے کا بہترین حل یہ ہے کہ ان مسائل کا سامنا کیا جائے اور اس کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اپنی صلاحیتیں اس حساب سے بڑھائی جائیں۔ کوئی ایسا کام جو آپ کے اعصاب پہ سوار ہے اس کے لیے ممکنہ حد تک تیاری کرلیجیے، پلان کیجیے کہ آپ یہ کام کیسے سرانجام دیں گے۔

کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو سیکھیے کہ وہ کام کیسے ہوتا ہے۔ بغیر سیکھے کچھ بھی کرنے میں غلطیوں اور ناکامیوں کے امکان بڑھ جاتے ہیں بڑا نقصان ہوتا ہے جو بڑا فوبیا بنا دیتا ہے۔

گھر کے چھوٹے بڑے کام ذمہ داری سے کرنے سے لے کر سامان خریدنا، لوگوں سے ملنا جلنا، ایمرجنسی میں فیصلہ کرنا، اکیلے سفر کرنا، مباحثے کو مناسب انداز میں مدلل طریقے سے جیت پانا، اپنے سے طاقتور کے سامنے ڈٹ جانا یہ سب مرد ہو، عورت یا خواجہ سرا تجربے کے ساتھ سیکھتے ہیں۔ اور پھر سمجھیے اس پہ آخری تڑکہ معاشرے کا رویہ لگاتا ہے۔ اگر پہلی بار روٹی پکانے پہ آپ اس فرد کو شاباشی دیں گے تو وہ دوبارہ روٹی پکانا چاہے گا/ گی اور اگر گول نہ ہونے یا جل جانے ڈانٹا یا مارا جائے گا یا تذلیل کی جائے گی تو دوبارہ وہ کام کرتے ہوئے وہ مزید خوف کا شکار ہوگا/ ہوگی۔

ایک بالغ انسان کا رویہ مکمل طور پہ ترمیم شدہ ہوتا ہے اس لیے یہ سمجھنا کہ فلاں صنف، جنس، ذات، فرقے، عمر یا زبان سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں تو یہ جزوی سچ ہوگا کیوں کہ جن فیکٹرز نے ان کو اس مخصوص انداز میں برتاؤ کرنا سکھایا جیسے ہی وہ فیکٹرز بدلے جائیں گے وہ رویہ بھی بدل جائے گا۔ اور دنیا میں لاکھوں کروڑوں ماہرین نفسیات اسی طرح لوگوں کو بہتر زندگی کی طرف لانے میں مدد کر رہے ہیں۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments