نریندر مودی نے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد کیوں نہیں دی؟


انڈیا اور چین کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے دوران انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل اپوزیشن اور مخالفین کی تنقید کے نشانے پر ہیں۔

ان پر حالیہ تنقید چین کے خودمختار علاقے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو اُن کی سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے پر ہوئی ہے جو اسی ہفتے 85 سال کے ہوئے ہیں۔

نریندر مودی نے آخری مرتبہ دلائی لامہ کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد 2013 میں دی تھی جب وہ انڈیا کے وزیرِ اعظم نہیں بلکہ ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔

https://twitter.com/narendramodi/status/353529633930612738

جب سے نریندر مودی وزیرِ اعظم بنے ہیں، وہ کسی بھی ملکی و غیر ملکی رہنما، چاہے وہ رہنما اپوزیشن کے ہی کیوں نہ ہوں، کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دینا نہیں بھولتے۔

اسی لیے کئی لوگ انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی کو اس سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے کی وجہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیے

دلائی لامہ کی نجی زندگی کی ایک جھلک

چین اور انڈیا کے سرحدی تنازع میں تبت کا کیا کردار ہے؟

لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی

انڈیا، چین سرحدی تنازع سے متعلق اہم سوالات کے جواب

اپوزیشن جماعت کانگریس اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے نریندر مودی کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رندیپ سنگھ سرجیوالا نے لکھا کہ ہم انتظار کر رہے تھے کہ انڈیا کے وزیرِ اعظم قوم کی جانب سے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد دینے میں پہل کریں گے تاہم ان کی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔

https://twitter.com/rssurjewala/status/1280162311332745217

صحافی و مصنف سواتی چترویدی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ افسوس ہے کہ انڈیا کے وزیرِ اعظم نے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد نہیں دی۔ چین اس سے بہت خوش ہوگا۔

https://twitter.com/bainjal/status/1280163168136773632

محقق اور مدرس اشوک سوئین نے لکھا کہ چین کے صدر شی جن پنگ کے ڈر سے انڈیا کے صدر رام ناتھ کووِند اور وزیر اعظم نریندر مودی نے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد تک نہیں دی۔ کیا آپ ان سے چین کا سامنا کرنے کی توقع کرتے ہیں؟

https://twitter.com/ashoswai/status/1280242815923032069

دلائی لامہ کون ہیں؟

دلائی لامہ 85 سالہ تبتی روحانی پیشوا ہیں۔ چین تبت کے خطے پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چین کو اس 85 سالہ بزرگ سے اتنی پریشانی کیوں رہتی ہے؟ دلائی لامہ جس بھی ملک میں جاتے ہیں چین سرکاری طور پراپنا اعتراض ظاہر کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

چین دلائی لامہ کو علیحدگی پسند سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ دلائی لامہ اس کے لیے ایک مسئلہ ہیں۔

اگر دلائی لامہ امریکہ بھی جاتے ہیں تو چین کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تاہم 2010 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے چین کی مخالفت کے باوجود دلائی لامہ سے ملاقات کی تھی۔

چین اور دلائی لامہ کی تاریخ چین اور تبت کی تاریخ ہے۔

1409 میں جے سکھامپا نے جیلگ سکول کی بنیاد رکھی۔ اس سکول کے ذریعہ بدھ مت کی تبلیغ کی جاتی تھی۔

یہ جگہ انڈیا اور چین کے درمیان تھی جسے تبت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سکول کے سب سے زیادہ مشہور طالب علم گیندن دروپ تھے جو بعد میں پہلے دلائی لامہ بنے۔

بدھ مت کے پیروکار دلائی لامہ کو ایک استعارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انھیں ہمدردی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب ان کے حامی انھیں اپنے قائد کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں۔ لامہ کا مطلب گرو یا استاد ہوتا ہے۔ لامہ اپنے لوگوں کو صحیح راستے پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

تبتی بدھ مت کے رہنما دنیا بھر کے تمام بودھ افراد کی رہنمائی کرتے ہیں۔

1630 میں تبت کے اتحاد کے بعد سے بدھ مذہب کے پیروکاروں اور تبتی قیادت کے درمیان ایک لڑائی جاری تھی۔ منچو، منگول اور اوئیرات دھڑوں میں اقتدار کی جنگ لڑی جارہی تھی۔ آخر کار پانچویں دلائی لامہ تبت کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے ساتھ ہی تبت ثقافتی لحاظ سے بھی مضبوط بن کر ابھرا۔ تبت کے اتحاد کے ساتھ ہی بدھ مت میں خوشحالی آئی۔ جیلگ بدھِسٹوں نے 14 ویں (موجودہ) دلائی لامہ کو بھی تسلیم کر لیا۔

تبت

تبت کے دارالحکومت لہاسا میں واقع دلائی لامہ کا محل

دلائی لامہ انڈیا میں کیوں مقیم ہیں؟

دلائی لامہ کو 61 سال پہلے 1959 میں تبت چھوڑنا پڑا تھا اور تب سے وہ انڈیا میں مقیم ہیں۔

متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ وادی گلوان میں چین کے مؤقف کے پیش نظر انڈیا تبت اور دلائی لامہ سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرسکتا ہے۔

حال ہی میں تبت کے جلاوطن سیاسی رہنما ڈاکٹر لوبسانگ سانگے نے انڈیا سے تبت کا معاملہ چین کے سامنے اٹھانے کے لیے کہا تھا۔

تبت کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ نے 31 مارچ 1959 کو انڈیا میں قدم رکھا تھا۔ 17 مارچ کو وہ تبت کے دارالحکومت لہاسا سے پیدل ہی نکل کر ہمالیہ کے پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے 15 دن کے بعد انڈیا کی سرحد میں داخل ہوئے تھے۔

اس سفر کے دوران جب ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں جب کوئی خبر نہیں آئی تھی تو بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ شاید ان کی موت واقع ہوگئی ہے۔

دلائی لامہ کے ساتھ کچھ فوجی اور کابینہ کے وزرا بھی تھے۔ یہ لوگ چین کی نظر سے بچنے کے لیے صرف رات کے وقت سفر کرتے تھے۔

ٹائم میگزین کے مطابق بعد میں یہ افواہیں بھی پھیل گئیں کہ ’بدھ مت کے لوگوں کی دعاؤں کی وجہ سے گہرا کہرا چھا گیا تھا اورکہرے نے انھیں (چینی فوج) کی نگاہ سے محفوظ رکھا۔‘

انڈیا پہنچنے پر انھوں نے جلاوطن حکومت قائم کی۔

تبت

چین اور دلائی لامہ کے تعلقات

دلائی لامہ کا انتخابی عمل ہی متنازع رہا ہے۔ 13 ویں دلائی لامہ نے 1912 میں تبت کو آزاد قرار دیا تھا۔

تقریبا 40 سال کے بعد چین نے تبت پرحملہ کیا۔ چین کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب 14 ویں دلائی لامہ کے انتخاب کا عمل جاری تھا۔ تبت کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کچھ سالوں کے بعد تبت کے عوام نے چینی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ انھوں نے اپنی خودمختاری کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ تاہم باغیوں کو اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔

اس کے بعد دلائی لامہ کو لگا کہ وہ چینی چنگل میں بری طرح پھنس جائیں گے، چنانچہ انھوں نے انڈیا کا رخ کیا۔ اس وقت تبتیوں کی ایک بڑی تعداد بھی دلائی لامہ کے ساتھ انڈیا آئی تھی۔ یہ سنہ 1959 کی بات ہے۔

چین کو دلائی لامہ کا انڈیا میں پناہ لینا پسند نہیں آیا تھا۔ تب چین پر ماؤ زی تنگ کی حکومت تھی۔

دلائی لامہ اور چین کی کمیونسٹ حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ دلائی لامہ کو پوری دنیا سے ہمدردی ملی لیکن اب تک وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دلائی لامہ کو 1989 میں امن کا نوبل انعام ملا تھا۔

دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ وہ چین سے آزادی نہیں بلکہ خود مختاری چاہتے ہیں مگر 1950 کی دہائی سے دلائی لامہ اور چین کے درمیان شروع ہونے والا تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دلائی لامہ کے انڈیا میں رہنے کی وجہ سے چین کے ساتھ انڈیا کے تعلقات اکثر خراب ہوتے ہیں۔

انڈیا کا دلائی لامہ پر مؤقف

انڈیا کا تبت پر مؤقف تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جون 2003 میں انڈیا نے باضابطہ طور پر اس بات کو تسلیم کیا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔

چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زیمن کے ساتھ انڈیا کے اس وقت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد انڈیا نے تبت کو پہلی مرتبہ چین کا حصہ تسلیم کیا۔

تاہم اس وقت انڈین حکام نے کہا تھا کہ انڈیا نے پورے تبت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو چین کا ایک بڑا حصہ ہے، بلکہ انڈیا نے صرف اس حصے کو تسلیم کیا ہے جسے تبت کا خودمختار علاقہ کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp