امریکہ اور افغان طالبان کا معاہدہ: تمام طالبان قیدیوں کی رہائی بین الافغان مذاکرات سے مشروط


امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد طالبان نے ’فتح‘ کا جشن منایا تھا

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد طالبان نے ’فتح‘ کا جشن منایا تھا

افغان طالبان نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت پر تمام قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور دوسری صورت میں تنبیہ کی ہے کہ اگر تمام قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔

یہ تنبیہ افغان طالبان کی جانب سے ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے جب افغان حکومت کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ افغان طالبان کے 600 قیدیوں کی رہائی اس لیے مشکل ہے کیونکہ ان 600 قیدیوں پر دائر مقدمات کی نوعیت کی وجہ سے انھیں رہا نہیں کیا جا سکتا۔

افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک بیشتر قیدی رہا ہو چکے ہیں اور صرف کم تعداد میں قیدی باقی ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ باقی ماندہ قیدیوں کو بھی جلد از جلد رہا کیا جائے۔

سہیل شاہین کے مطابق قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے قیدیوں کو رہا کیا جائے تاکہ دوسرے مرحلے میں بین الافغان مذاکرات شروع کیے جا سکیں۔

افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ انھوں نے امریکہ سے بارہا کہا ہے کہ وہ اپنے حصے کی ذمہ داری کو پورا کریں تاکہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جا سکے۔

سہیل شاہین نے چند روز پہلے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب تک تمام قیدی رہا نہیں ہو جاتے تب تک بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔

قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے کیے گئے معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے 5000 قیدی رہا کرے گی اور طالبان افغان حکومت کے تقریباً 1000 اہلکاروں کو رہا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان تو اچھے ہوتے ہیں!

افغان امن معاہدے کی ’سادگی‘ پیچیدگیوں کا باعث بنے گی؟

امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

طالبان رہنما امن معاہدے کی تقریب میں مرکزِ نگاہ

طالبان

طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت سے اپنے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے تیار ہیں

ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے افغان حکومت کی حراست میں لگ بھگ 600 ایسے افغان طالبان ہیں جو بڑے جرائم میں ملوث ہیں جنھیں رہا کرنے کو وہ تیار نہیں۔

اس سال مارچ میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ 5000 افغان طالبان کو پے رول پر رہا کیا جائے اور اسی طرح افغان طالبان نے بھی 1000 افغان حکومت کے اہلکار جو افغان طالبان کی حراست میں ہیں، انھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

غیر ممالک میں آباد افغان ماہرین سے طالبان کا رابطہ

ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو وطن واپس بلا لیں‘

بظاہر افغان حکومت اور افغان طالبان کی جانب سے بین الافغان مذاکرات کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے اہم رکن شہاب الدین دلاور نے منگل کو افغانستان کی ان اہم شخصیات سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کی تھی جو افغانستان سے باہر مقیم ہیں۔ ان میں پروفیسر، صحافی اور دیگر اعلی شخصیات شامل تھیں۔

سہیل شاہین نے بتایا کہ یہ کانفرس اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی جس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال، امن و امان کے حالات کے علاوہ تعلیم اور سیاسی صورتحال پر بات چیت ہوئی اور جو ابہام تھے انھیں واضح کرنے میں مدد ملی ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغان شخصیات سے اس دوران متعدد سوالات کیے گئے اور ان کی تجاویز کو سنا گیا اور دونوں جانب سے کہا گیا کہ مستقبل میں بھی اس طرح کی کانفرنسز ہونی چاہییں۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ اس ویڈیو کانفرنس میں افغان طالبان کے رہنما نے افغان حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان کے اندر اختلافات کو وجہ بنا کر بین الافغان مذاکرات میں غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔

معاہدہ امریکہ طالبان

معاہدے میں شامل ہے کہ اگر طالبان نے پاسداری کی تو امریکہ اور نیٹو کی افواج 14 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی

معاہدہ کے بنیادی نکات

قطر کے شہر دوحہ میں 29 فروری کو جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کے تحت امریکہ 10 مارچ سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرے گا اور افغانستان میں پانچ امریکی فوجی اڈے بند کرے گا۔

حکومتی تحویل میں افغان طالبان کے 5000 قیدی رہا کیے جائیں گے اور اسی طرح طالبان کی تحویل میں موجود 1000 افغان شہریوں کو رہا کر دیا جائے گا اور اس دوران بین الافغان مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔ یہ سارا عمل 14 ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یہ کے طالبان افغانستان میں موجود القاعدہ اور داعش کی سرگرمیوں کو روکیں گے۔

افغان حکومت کیا کر رہی ہے؟

افغان ذرائع کے مطابق افغان حکومت اگرچہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے راضی ہے اور اس کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔ تاہم کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت چونکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور پھر معاہدے میں شامل نہیں تھی اس لیے افغان حکام تاخیر کر رہے ہیں۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ڈیڑھ سال تک جاری رہے اور اس کے لیے متعدد اجلاس منعقد ہوئے لیکن ان مذاکرات میں افغان حکومت شامل نہیں تھی۔ افغان حکومت کو یہ اعتراض رہا ہے کہ اس کی مرضی اور اس کی شرکت کے بغیر مذاکرات اور پھر معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن طالبان نہیں چاہتے تھے کہ افغان حکومت ان مذاکرات میں شامل ہو۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور طالبان کے مطابق ’افغان حکومت کابل پر قابض انتظامیہ ہے جو امریکہ کی ایما پر افغانستا ن پر مسلط ہے‘ اور طالبان خود کو امارات اسلامی افغانستان یعنی افغانستان کی حقیقی حکومت سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp