عذیر بلوچ جے آئی ٹی رپورٹ: سوشل میڈیا پر سوال کہ پی ٹی آئی کے ’علی زیدی کو لفافہ کس نے دیا؟‘


پاکستان میں ٹی وی چینلوں سے لے کر سوشل میڈیا تک لیاری گینگ وار میں مبینہ طور پر ملوث عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری کی آتش زنی اور نثار مورائی کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس منظرِ عام پر آنے کے بعد ان رپورٹس کی قانونی حیثیت اور ان پر دستخط کے حوالے سے وفاقی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان چپقلش جاری ہے اور ہر روز نئے انکشافات اور بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

اس صورتحال نے ایک دلچسپ موڑ اس وقت لیا جب منگل کی رات نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر میزبان وسیم بادامی کے شو میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس عزیر بلوچ سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹس سنہ 2017 سے موجود ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب وہ وفاقی وزیر بھی نہیں تھے۔

وسیم بادامی کے شو میں اپنی تحقیق کا ثبوت دیتے ہوئے علی زیدی کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 میں جب وہ دبئی سے کراچی پہنچے تو ان کے مطابق گھر پر موجود چوکیدار نے انھیں ایک ’موٹا سا لفافہ‘ یہ کہتے ہوئے پکڑا دیا کہ ’کوئی موٹر سائیکل سوار دے کر چلا گیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب اس لفافے کو کھولا تو اس میں تین جے آئی ٹی رپورٹس عزیر بلوچ کی تھیں جبکہ دو نثار مورائی کی تھیں اور اس پر ایک نوٹ لکھا تھا بیسٹ آف لک۔‘

یہ بھی پڑھیے

نثار مورائی کا دعویٰ: ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم حقیقی کو اسلحہ دیتے تھے

عذیر بلوچ کے ’حکم‘ پر پولیس تبادلوں کا انکشاف، جے آئی ٹی رپورٹ میں آصف زرداری کا ذکر نہیں

لیاری گینگ وار: عالمی کھلاڑیوں کے علاقے میں موت کے کھلاڑی کیسے پیدا ہوئے؟

یاد رہے حکومت سندھ نے پیر کو لیاری گینگ وار میں مبینہ طور پر ملوث عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری کی آتش زنی اور نثار مورائی کے معاملے سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹس محکمہ داخلہ کی ویب سائٹ پر جاری کر دی تھیں تاہم ان میں سے کسی میں بھی پیپلز پارٹی کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا نام شامل نہیں تھا۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹس 35 صفحات پر مبنی ہیں اور ان پر جے آئی ٹی اراکین اور اس کے سربراہ کے دستخط موجود ہیں جبکہ علی زیدی کی جانب سے جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹس 20 صفحات پر مبنی ہیں اور ان پر آئی ایس آئی، اینٹیلیجنس بیورو، پاکستان رینجرز اور ملٹری اینٹیلیجنس کے دستخط تو موجود ہیں لیکن سپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے دستخط نہیں ہیں۔

مزید یہ کہ علی زیدی کی جانب سے جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے نام بھی موجود ہیں اور ان پر سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

عزیر بلوچ

عزیر بلوچ

اسی حوالے سے منگل کی رات ایک اور نجی چینل جیو ٹی وی پر میزبان شاہزیب خانزادہ کے شو میں علی زیدی سے کیے گئے سوالات کے چند کلپ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

ٹاک شو میں میزیان شاہ زیب خانزادہ کے یہ پوچھنے پر کہ ’چیف جسٹس پر ذمہ داری ڈالنے سے پہلے وزیرِ اعظم اپنے ماتحت اداروں جن میں آئی ایس آئی، اینٹیلیجنس بیورو، پاکستان رینجرز اور ملٹری اینٹیلیجنس شامل ہیں، ان کے سربراہوں کو بلا کر خود کیوں نہیں پوچھتے کہ انھوں نے سندھ حکومت کی دکھائی جانے والی جے آئی ٹی پر دستخط کیوں کیے؟ حکومتوں کے دباؤ میں آکر پولیس اور سی ٹی ڈی کا ان کی بات ماننا تو سنا ہے لیکن آئی ایس آئی، اینٹیلیجنس بیورو، پاکستان رینجرز اور ملٹری اینٹیلیجنس نے ایسا کیوں کیا۔‘

اس کے جواب میں علی زیدی یہ کہتے ہیں کہ ’اگر وزیِر اعظم ایسا کریں تو پھر سب کہیں گے سیاست ہو رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس میں سیاست ہے ہی نہیں، اس میں بے گناہ پاکستانیوں کی موت ہوئی ہے اور کچھ گناہ گار ٹارگٹ کلر بھی مارے گئے لیکن کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘

اسی کلپ کے دوسرے حصے میں یہ پوچھنے پر کہ ’پیپلز پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں کے نام نکالے جانے پر کیا وزیرِ اعظم کو اپنے ماتحت اداروں سے پوچھ گچھ نہیں کرنی چاہیے؟‘ علی زیدی کا کہنا تھا ’میں نے وزیرِاعظم کے سامنے سب چیزیں رکھ دیں ہیں اب یہ ان کی صوابدید پر ہے لیکن میں ایک شہری اور وفاقی وزیر کی حیثیت سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں۔‘

جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے سندھ کے محکمہ داخلہ کے سابق سیکریٹری قاضی کبیر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت آئی جی پولیس کی سفارش پر تشکیل دی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مطابق دہشت گردی، بھتہ خوری کے الزام میں گرفتار ملزم سے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے جس کا سربراہ 18 گریڈ کا پولیس افسر ہوتا ہے جبکہ مسلح افواج، انٹیلی جنس اداروں اور سول اداروں کے بھی اسی سطح کے افسران اس میں شامل ہوتے ہیں۔

قاضی کبیر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے لیے پانچ ممبران ہوتے ہیں، تین اراکین پر مشتمل اجلاس کو مکمل کورم سمجھا جاتا ہے اور جے آئی ٹی 30 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عدالت کو بھیجتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی کے سفارش پر جے آئی ٹی کی تشکیل ہوتی ہے اور ممبران وہ خود بھی نامزد کرسکتے ہیں اور محکمہ داخلہ بھی نام دے سکتا ہے۔

رپورٹس پر دستخط کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی کے ممبران مل کر بیان لیتے ہیں، بحث کرتے ہیں اور اگر کوئی اختلاف رائے ہو تو وہ بھی بیان کر دیا جاتا ہے، اس کے بعد دستخط ہوتے ہیں تاہم جو ڈرافٹ سامنے آتا ہے اس کی تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔‘

جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت سے متلعق قاضی کبیر کا کہنا تھا کہ ’عدالت میں ثبوت کے طور پر جے آئی ٹی کی کوئی بڑی حیثیت نہیں ہوتی، جس طرح پولیس اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتی ہے ویسے ہی یہ بھی تحقیقاتی رپورٹ ہوتی ہے لیکن عدالت صرف اس کی بنیاد پر سزا نہیں سناتی۔‘

اس بارے میں سندھ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر گھمرو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون کے مطابق پولیس افسر کے سامنے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اس حوالے سے عدالتوں کے کئی فیصلے موجود ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ملزم کا 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کیا جائے تو اس کی قانون میں حیثیت اور اہمیت ہے، پراسیکیوشن اگر سمجھتی ہے کہ جے آئی ٹی میں کچھ دم خم ہے تو پھر رپورٹ عدالت میں پیش کی جاتی ہے۔‘

عزیر بلوچ

PakRangers
عزیر بلوچ

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

اسی موضوع پر ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #میرےگھرکوئیلفافہدے_گیا ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔

صحافی حامد میر کہتے ہیں ’نا معلوم افراد نے کچھ مبینہ جے آئی ٹی رپورٹیں علی زیدی صاحب کو بھجوا دیں اور انھوں نے پانچ سال کے بعد انھیں بے نقاب کر دیا۔‘

علی زیدی کے دعوے پر امداد علی سومرو نامی صارف کہتے ہیں ’شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں تو جو ہوا سو ہوا یہاں تو حد ہی ہو گئی۔ علی زیدی جن کاغذوں کو جے آئی ٹی رپورٹس کہہ کر ہیجان برپا کیے ہوئے ہیں انھیں خود یہ تک نہیں پتا کہ وہ کہاں سے آئے۔ ایک نامعلوم شخص گھر پر لفافہ چھوڑ گیا اور ان کی ضد ہے کہ اسے جے آئی ٹی مانا جائے۔‘

اسی بارے میں صحافی سلیم صافی کہتے ہیں ’بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے کہ علی زیدی کو لفافہ کس نے دیا ؟ ظاہر ہے انھوں نے دیا ہوگا جنھوں نے انھیں اسمبلی کا ممبر بنایا۔‘

عارفہ بھٹو نامی صارف لکھتی ہیں ’علی زیدی سے 10 بجے خانزادہ پوچھتے ہیں کہ آپ کو یہ رپورٹ کیسے ملی، 11 بجے وہ وسیم بادامی کو بتاتے ہیں کہ کسی نے گھر آکر میرے گارڈ کو دے دیا تھا۔‘

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سحر کامران اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ایک تھا لفافہ اور لفافہ بھی خاکی۔۔۔ اور لفافہ ایسا تھا کہ علی زیدی ایمان لے آئے اور 2017 میں ہی عہد و پیمان کر لیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp