غیر ملکی طلبہ کے لیے امریکی ویزا پابندیاں: ’ہماری محنت اور امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا‘


چھ جولائی دوپہر کے تقریباً تین بجے میں یکے بعد دیگرے اپنے فون پر آنے والے لگاتار میسیجز کے شور سے بیدار ہوا۔ میری جماعت کے واٹس ایپ گروپ میں تقریباً 100 سے زائد پیغامات آ چکے تھے۔

میں نے غنودگی کے عالم میں انھیں پڑھنا شروع کیا لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ماجرا کیا ہے۔ پھر میں نے گفتگو کے ابتدا میں ایک نوٹیفکیشن کا لنک دیکھا جس میں ’آئس‘ لکھا تھا۔ یہ پڑھ کر میری نیند رفوچکر ہو گئی اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔

’یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ‘ جسے عرف عام میں آئس کہا جاتا ہے، امریکہ میں قانونی اور غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لیے باعث خوف ہے، چنانچہ ہر غیر ملکی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس ادارے سے بچ کر رہے۔

آئس امریکا میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپس اُن کے ملک بھیجتی ہے، اور اس حوالے سے اس کی جانب سے گھروں پر چھاپوں اور حراستی مراکز میں تشدد کے واقعات بھی امریکہ بھر میں کافی مشہور ہیں۔

اس نوٹیفکیشن کا لب لباب یہ تھا کہ وہ طلبا جو ایف-1 یا ایم-1 ویزوں پر امریکہ میں ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں جنھوں نے خزاں کے سمیسٹر کو مکمل طور پر آن لائن پڑھ رہے ہیں وہ کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں منتقل ہو جائیں جہاں کم از کم ایک کورس کے لیے یونیورسٹی میں حاضر ہونا پڑے۔ بصورت دیگر ایسے طلبا کو ہدایت کی گئی کہ وہ امریکہ سے رخصت ہو جائیں، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو ملک بدری تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ طلبا کے لیے تین مختلف اقسام کے ویزے ہوتے ہیں اور ان پر مختلف اقسام کی پابندیاں ہوتی ہیں جیسے کہ کیا وہ پڑھائی کے ساتھ ملازمت کرسکتے ہیں یا نہیں اور اگر کر سکتے ہیں تو کتنے گھنٹوں کی کر سکتے ہیں، اور کتنے آن لائن کورس میں حصہ لے سکتے ہیں۔

ان طلبہ کے زیرِ کفالت اہل خانہ کو ایف-2 یا ایم-2 ویزے دیے جاتے ہیں. اس نوٹیفکیشن میں زیرِ کفالت افراد کا ذکر نہیں تاہم بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر کفیل نہ رہے تو انھیں بھی واپس جانا پڑے گا۔

حال میں گزرنے والے موسم بہار کے سیمسٹر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ان پابندیوں میں عارضی طور پر نرمی کی گئی تھی تاہم یہ نرمی ختم کر دی گئی ہے اور وبا کی وجہ سے کچھ یونیورسٹیاں یا تو نصف آن لائن اور نصف حاضر نظام (جیسے ہائبرڈ کہا جاتا ہے) کی طرف جا رہی ہیں، جبکہ کچھ یونیورسٹیوں کے مخصوص تعلیمی پروگرام مکمل آن لائن ہیں، کچھ کے تمام پروگرام آن لائن ہیں یعنی یونیورسٹی ہی آن لائن ہو گئی ہے، جبکہ کچھ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ چھٹیوں کے بعد کیا کیا جائے گا۔

کورونا، امریکہ، پاکستان، طلبہ

ہاورڈ یونیورسٹی کے طلبا اپنی گریجویشن کے موقع پر سماجی دوری اختیار کیے ہوئے ہیں

میری جماعت میں کل 15 افراد ہیں جن میں سے فقط دو طلبا امریکی شہری ہیں، مجھ سمیت ایک طالبہ کو چھوڑ کر باقی سب ایف ویزا پر ہیں۔ ان کے پیغامات میں غیر یقینی اور پریشانی صاف عیاں تھی.

میں خود جے-1 ویزا پر ہوں اور میری تعلیمی سرگرمی ہائبرڈ ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا۔

لیکن مجھ سے کہیں گنا زیادہ مشکل اور پریشانی کے شکار تقریباً چار لاکھ وہ طلبا اور ان کے زیر کفیل افراد ہیں جو ایف اور ایم ویزے پر امریکی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں دو ہزار سے زائد پاکستانی بھی ہیں اور ان سے بھی زیادہ مصیبت میں وہ طلبا ہیں جن کا تعلیمی پروگرام مکمل طور پر آن لائن ہو چکا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی مناہل مہدی ہاورڈ میں مذہبی علوم یعنی ’تھیالوجی‘ میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ وہ ایک سماجی اور سیاسی کارکن بھی ہیں۔

ہاورڈ یونیورسٹی ان تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جہاں کورسز مکمل طور پر آن لائن ہیں۔ مناہل ایف-1 ویزا پر ہیں لہٰذا ان پر اس نوٹیفکیشن کا اطلاق ہوتا ہے۔

مناہل کا سنہ 2018 میں بھی ہاورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا تھا لیکن یونیورسٹی سے وظیفہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ یونیورسٹی نہیں جا سکیں، تاہم 2019 میں ان کا دوبارہ داخلہ ہو گیا اور آخر کار ان کو ادارے کی طرف سے مالی امداد بھی موصول ہو گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے بے حد خوشی کا موقع تھا کیوں کہ انھوں نے ایک نہیں دو مرتبہ داخلے کی کوشش کی۔ انھوں نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت بھی شروع کر دی۔

مناہل سے جب میں نے ان کی صورتحال اور مستقبل کی حکمت عملی دریافت کی تو وہ بالکل ناامید نظر آئیں۔ وہ متبادل راستے مثلاً کسی ایسی یونیورسٹی میں جانا جہاں تمام کورسز آن لائن نہیں ہیں، میں بھی جانے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں۔ وہ امریکہ اور اپنی یونیورسٹی دونوں سے مایوس ہیں۔

’انھوں نے اس فیصلے سے ہماری محنت اور ہمارے احساسات پر مکمل طور پر پانی پھیر دیا۔ نہ غیر ملکی طلبا سے بات کی گئی نہ انھیں اعتماد میں لیا گیا۔ پوری غیر ملکی طلبہ برادری کو یہ محسوس کروایا گیا کہ وہ ایک بوجھ ہیں۔‘

یونیورسٹی کے ردعمل پر اُن کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے اس اقدام کی مذمت کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ ہمارے لیے کیا کرنے والے ہیں، جو کہ عجیب بات ہے۔

مناہل کا کہنا تھا کہ جب امریکا کی حکومت کی پالیسی اتنی سخت ہے تو یونیورسٹی کتنی مدد دے سکتی ہیں۔

تاہم گذشتہ روز یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ہاورڈ یونیورسٹی اور میسیچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے امریکی حکومت کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے حکمِ امتناع کی درخواست کی ہے۔

بوسٹن کی ضلعی عدالت میں دائر کیے گئے اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ آئس کے اقدامات نے ’ہاورڈ اور ایم ای آئی سمیت امریکہ کے پورے اعلیٰ تعلیمی نظام کو افراتفری میں دھکیل دیا ہے۔‘

کورونا، امریکہ، پاکستان، طلبہ

آئس کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ نئے ضوابط کی پاسداری نہ کرنے والے طلبا کو ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

مناہل کہتی ہیں کہ وہ مالی امداد دینے پر اپنے شعبے کی شکر گزار ہیں لیکن اس پر وہ ٹیکس دیتی ہیں، امریکا کے مالی نظام میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور ان کی طرح باقی غیر ملکی بھی ٹیکس دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ سب ہونا مایوس کن ہے.

ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدام کی وجہ سے طلبا شدید ذہنی پریشانی میں ہیں۔ ’ان مہینوں میں رہائش کے لیے دوبارہ لیز پر دستخط کرنے ہوتے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ کریں یا نہ کریں۔ اس کے علاوہ یہ فکر بھی ہے کہ واپس اپنے ملک جانے کے لیے کیا تگ و دو کرنی پڑے گی۔‘

مناہل اپنے والدین کے لیے بھی پریشان ہیں کہ ان کو کورونا سے خطرہ ہے۔ اگر وہ واپس جاتی ہیں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ راستے میں انھیں وائرس لگ جائے اور ان سے ان کے والدین تک پہنچ جائے۔

انھوں نے اس حوالے سے بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ امریکہ کے مقامی میڈیا میں اتنی بڑی خبر پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے تھی۔

ایف-1 ویزا پر امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طالبعلم موسیٰ وڑائچ بھی کافی پریشان ہیں۔

جب میں نے ان سے سوال کیا کہ چونکہ ان کی یونیورسٹی ہائبرڈ ہے، تو وہ فکرمند کیوں ہیں، تو موسیٰ نے آئس کے نوٹیفکیشن کے ایک حصّے کی طرف توجہ دلائی جس کے بارے میں بالکل خاموشی ہے۔

دراصل مارچ میں جب وبا نیویارک شہر میں اپنے عروج پر تھی تو ایک دم سے موسیٰ کی یونیورسٹی نے ہاسٹل میں رہنے والے تمام طلبا کو ہاسٹل خالی کرنے کا کہا۔ موسیٰ نے عافیت اسی میں جانی کہ واپس پاکستان چلے جائیں۔ پاکستان کی پروازیں بند ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے موسیٰ وطن واپس چلے گئے۔

ان کا ارادہ تھا کہ وہ اب حالات ٹھیک ہونے تک پاکستان سے ہی آن لائن اپنی تعلیم مکمل کریں گے۔ لیکن آئس کے تفصیلی نوٹیفکیشن، جو ابتدائی لنک میں نہیں تھا، میں ایک جملے میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ ’صرف وہ طالب علم جن کی یونیورسٹی صرف آن لائن کورس کروا رہی ہے وہ اپنے ملک سے اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘

اس سے زیادہ کوئی معلومات نہیں تھیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کیا ہو گا۔ ایک جملے پر محیط اس مبہم بات سے کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

موسیٰ سے گفتگو کے دوران ہی نیویارک یونیورسٹی کی طرف سے اس موضوع پر ای میل پیغام موصول ہوا۔

یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ امریکہ سے باہر رہ کر اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتے ہیں تو نصابی حوالے سے آپ کو مسئلہ نہیں ہو گا لیکن ویزے سے متعلق کچھ دشواریاں ہو سکتی ہیں۔‘ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں کچھ اہم سوالوں پر متضاد رہنمائی دی ہے اور ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ انھیں ملکی انتظامیہ واضح ہدایات دے اور طلبا کو اس متعلق ہونے والی پیش رفت کے بارے میں جلد اطلاع دی جائے گی۔

ای میل میں یہ بھی بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے صدر اینڈریو ہیملٹن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر نظرِ ثانی کریں۔

موسٰی کا کہنا تھا کہ یہ اچھی خبر ہے لیکن وہ پھر بھی واپس جانے کی تیاری کریں گے کیونکہ صورتحال بہت غیر یقینی ہے۔ وہ اس بات پر بھی پریشان تھے کہ واپسی کیسے ہو پائے گی اور رہائش کا انتظام ایک دم سے کیسے کریں گے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد کیا ہے، جب مقامی میڈیا اس پر بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو ہمیں وہ سیاق و سباق نہیں معلوم ہو سکیں گے۔

مگر ایک بات واضح ہے کہ اس کے بعد سے غیر ملکی طلبا بہت پریشان ہیں اور سخت غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

اس سارے ماحول میں مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا اور حکمت عملی بنانا مشکل ہے خاص طور پہ جب انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بھی ابہام ہو اور ضروری چیزیں واضح نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp