کراچی: باران رحمت سے زحمت تک


جیسے جیسے گرمی کا موسم آتا ہے لوگ بارشوں کے لئے دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ میاں بارش بھیجیں تاکہ موسم کچھ بہتر ہو۔ بارشوں کا موسم سب کو اچھا لگتا ہے۔ جب موسم اچھا ہوتا ہے تو کھانوں کا موسم کے اعتبار سے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔

لیکن جہاں یہ موسم پسند کیا جاتا ہے وہیں کچھ لوگوں کے لئے یہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ اس دفعہ ساون کا موسم تھوڑا جلدی شروع ہو گیا ہے۔ کچھ علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ سلسلہ برائے نام ہوتا ہے جیسا کہ کراچی ’جہاں باقی جگہوں کی نسبت بارشیں برائے نام ہوتی ہیں۔ اور وہاں کے بسنے والے لوگ سارا سال بارش کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

کراچی کے لوگ بارش کو ترستے ہیں لیکن جب ہوتی ہے تو وہی لوگ بارش کے تھمنے کی دعا مانگنے لگتے ہیں اس دفعہ بھی جب بارش ہوئی تو صورتحال پہلے سے کچھ مختلف نہ تھی۔

حالیہ بارش محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے عین مطابق 6 جولائی 2020 کو ہوئی جس میں بارش کے بعد کراچی کی سڑکیں ندی نالوں کا سماں پیش کرتی ہیں۔ گلیاں کوچے بھر گئے سڑکیں ندیاں ’نالے بن گئیں لوگ اپنی گاڑیاں سڑکوں پر پانی میں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ کراچی اندھیرے میں ڈوب گیا ایسے میں لوگ کیسے سہانے موسم سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جب حبس والی گرمی میں بجلی نہ ملے جبکہ بجلی کے بل آسمان سے باتیں کرنے لگے ہوں۔ بجلی کا مسئلہ کراچی جیسے شہر میں بڑھتا جا رہا ہے جس سے لوگوں کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔

آزادی کے وقت جب کراچی پاکستان کا دار الحکومت تھا۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ 40 اور 50 کی دہائی میں حالات ٹھیک تھے صفائی کا یہ عالم تھا کہ سڑکیں روزانہ پانی سے دھلا کرتی تھی۔ 1960 کے وسط میں سیاسی تبدیلیاں آئیں اور کراچی بھی دار الحکومت نہ رہا۔ لیکن صنعتی و تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے آبادی بڑھتی گئی ساتھ ساتھ سیاسی مسائل بھی بڑھتے گئے۔

دہشت گردی کا بھی سامنا رہا۔ بھتہ مافیا اور سپاری کے نام بھی سننے میں آتے رہے۔ آہستہ آہستہ دہشت گردی ’غنڈہ گردی پر قابو پا لیا گیا لیکن دوسرے مسائل ابھی بھی وہیں کے وہیں ہیں۔

کراچی میں بہت سارے تعمیراتی کام تو ہوئے لیکن نکاسی آب کی طرف توجہ نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ ادھر دو بوند بارش کے گرے ادھر سڑکوں پر پانی اکٹھا ہو جاتا ہے اب چونکہ کوئی نکاسی کا نظام نہیں اور نالوں کی صفائی بھی نہیں کی جاتی تو پانی کے کھڑے ہونے سے صورتحال بہت خراب ہو جاتی ہے اور سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اوپر سے اللہ کا کرنا یہ کہ بجلی کی تاریں ننگی اور کمزور نظر آتی ہیں ان پر جیسے ہی پانی ڈلتا ہے ان سے چنگاریاں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور ٹرانسفارمر دھماکے کے ساتھ جل جاتے ہیں بجلی غیر معینہ مدت کے لئے غائب ہو جاتی ہے۔ اب حبس والی گرمی میں بجلی کا نہ ہونا کسی عذاب سے کم نہیں۔

بدقسمتی سے کراچی کے لوگ بارش سے توبہ مانگتے ہیں پچھلے دس بارہ سالوں میں ترقیاتی کام تو ہوئے لیکن اس میں نکاسی کا نظام بے توجہی کا شکار رہا انڈر پاس ’فلائی اوور تو بنے لیکن اصل مسئلہ وہیں رہا جس کی وجہ سے تھوڑی سی بارش بڑی تباہی کا باعث بنتی ہے۔

کراچی کے لوگوں کا خیال ہے سیاسی ہلچل تو ہوئی لیکن کام نہیں ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سیاسی طور پر یتیم ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔

کراچی کے لوگوں کو جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے امید ختم ہو گئی تو انھوں نے عمران خان کو اپنا مسیحا جانتے ہوئے ووٹ دیا اور عمران خان صاحب بھاری اکثریت سے کامیاب تو ہو گئے لیکن ان کے مطابق عمران خان کی حکومت کراچی کی ملکیت لینے میں ناکام رہی ہے اور مسائل ہیں کہ دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ وجوہات و محرکات جو بھی ہیں ’جو خواب کراچی کی عوام کو دکھائے گئے تھے وہ خواب ہی رہ گئے ہیں ان کو تعبیر نہیں مل سکی۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) جو پرائیویٹائز ہو کر کے الیکٹرک ہو گئی۔ کراچی کے لوگوں کے مطابق نام تو بدل گیا لیکن کارکردگی وہی رہی۔ بجلی کی پیداوار کی گنجائش ہونے کے باوجود اس کو مناسب طریقے سے منتظم نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے بجلی کی بندش کا سامنا کراچی کی عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ بارش کے نتیجہ میں بھی 12 گھنٹے بجلی بند رہی۔ معاملات گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں صنعت و تجارت کا مرکز کراچی اب اپنی رعنائی کھو چکا ہے۔

اس وقت مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جو وعدے کیے گئے تھے ان کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ مشکل وقت ضرور ہے لیکن مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی ہی اس بحران سے نکال سکتی ہے۔ صوبائی حکومت اور مئیر کراچی کے درمیان اختیارات و وسائل کی جنگ کو ختم کرنا چاہیے اور اختیارات مئیر کو دینے چاہیے تاکہ وہ وقتی فیصلے کراچی شہر کے لئے مثبت انداز میں لے سکے اور کراچی کے مسائل حل کر کے اس کی رونقوں کو بحال کر سکے۔ نیز وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے تاکہ ان پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments