پشاور: سوشل میڈیا پر بچی کے ریپ اور قتل کی جھوٹی خبر کا مقدمہ درج


سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے صارفین گاہے بگاہے ایسے افراد کے حق میں آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں جن کی شنوائی عام حالات میں ممکن نہیں ہوتی اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی بدولت بعض اوقات مسائل حل بھی ہو جاتے ہیں۔

تاہم جہاں آئے دن کئی ایسے ٹرینڈ دیکھنے میں آتے ہیں جن کے ذریعے کسی ضرورت مند کی مشکلات بیان کی جاتی ہیں یا کسی ناانصافی سے پردہ اٹھایا جاتا ہے وہیں سوشل میڈیا کو فراڈ کرنے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح کی ایک جھوٹی مہم کا انکشاف اس وقت ہوا جب خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے تھانہ مچنی میں ایک آٹھ سالہ بچی کے خاندان کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک جھوٹی مہم کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔

سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی پوسٹ میں اس بچی اور دو نوجوانوں کی تصاویر شیئر کی گئیں اور الزام لگایا گیا کہ ان دو فراد نے اس بچی کا ریپ کر کے اسے قتل کر دیا۔ پوسٹ میں کہا گیا کہ ’یہ ظلم کی انتہا ہے‘ اور ساتھ ہی ان نوجوانوں کی گرفتاری کے لیے تعاون کی اپیل کی گئی۔ پوسٹ کے ساتھ ایک موبائل نمبر بھی دیا گیا ہے۔

تاہم مچنی تھانے کی تفتیشی افسر امداد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بچی بالکل صحیح سلامت ہے اور بدھ کی رات تھانے بھی آئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے خاندان کی شکایت پر ٹیلی گراف ایکٹ اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

اسی حوالے سے پشاور کپیٹل سٹی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بچی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

بچی کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس مہم کے حوالے سے اطلاع بدھ کی شام کو ملی جب انھیں کسی نے فون کر کے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح خبر چل رہی ہے۔ جب انھوں نے گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ سب ٹھیک ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کے مطابق جن لڑکوں کی تصویریں ملزم کہہ کر شیئر کی جا رہی ہیں ان میں سے ایک رشتے میں ان کا بھانجا ہے۔

بی بی سی نے جب اس لڑکے کے خاندان سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا نویں جماعت کا طالب علم ہے۔ خاندان کے مطابق اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ اپنی والدہ، بہن اور بہنوئی کے ساتھ رہتا ہے۔ لڑکے کے بہنوئی نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی نے سراسر جھوٹی پوسٹ بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے اور ان کے خاندان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسی سے نہ تو دشمنی ہے نہ وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکے اور بچی دونوں کے خاندانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ وہ آپس میں رشتہ دار ہیں۔

خاندان سے بات چیت کے دوران بچے کو روتے ہوئے سنا جا سکتا تھا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اسے نہیں معلوم اس کے اکاؤنٹ سے تصاویر لے کر یہ پوسٹ کس نے شیئر کی۔ خاندان کے مطابق اس پورے واقعے سے ان کو سخت ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فیس بک، سائبر کرائم، بلیک میلنگ

لڑکے کے بہنوئی کے مطابق گھر کا ہر فرد سخت پریشان ہے اور لڑکے کی والدہ مسلسل رو رہی ہیں۔

آئے دن سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی ایسی پوسٹ شیئر کی جاتی ہے جس میں کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا حوالہ دیا جاتا ہے تاہم یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر صارفین ایسی معلومات بغیر تصدیق کے آگے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسی سنجیدہ نوعیت کی خبروں کو مستند ذرائع سے تصدیق کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ یا شیئر کرتے ہیں۔

پشاور کپیٹل سٹی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نامعلوم ملزمان نے سوشل میڈیا پر معصوم بچی کے ریپ اور قتل کی جھوٹی خبر وائرل کرنے کے ساتھ ساتھ بچی کی تصویر اور شناخت بھی ظاہر کی اور پولیس نے معاملے کی چھان بین کے لیے ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

بیان کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا جائے گا تاکہ اصل ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp