عبداللہ حسین اور اداس نسلوں کا خالی انباکس


وہ ایم اے اردو کے دن تھے، جب اس سے پہلی ملاقات ایک کتاب کے سرورق پر ہوئی۔ اس کی خاموش آنکھوں اور پر اعتماد چہرے نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ چہرہ دوسرے ادیبوں سے کتنا الگ تھا۔ بھلا اردو کے تخلیق کاروں کے چہروں پر اتنا اعتماد اور غرور کہاں ہوتا ہے۔ ناول تو بعد میں پڑھا تھا لیکن اس ہالی وڈ کے چہرے والے ناول نگار کی شخصیت مجھے بہت بھا گئی تھی۔ مرد لکھاری محض ایک مرد کے طور پر بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اسی لیے اس ہالی وڈ ہیرو میں جو غرور اور وقار تھا وہ اپنی طرف کھنچے چلے جانے پر مجبور کرتا تھا لیکن یہ کشش ایک خاص طرح کی دوری بھی پیدا کرتی تھی۔ لیکن بھلا ہو اس سوشل میڈیا کا جس نے کچھ پرانے رومانوی قسم کے احساسات کو یکسر ختم کر دیا ہے۔ اسے اب کیا بتاؤں میری جنریشن کی لغت میں اب دوری، شرماہٹ، ہجر و وصال سب ختم ہوچکے ہیں۔ اب فیس بک کی ایک ”کلک“ سے لوگ دوست بن جاتے ہیں۔ ویوwave کے ایک اشارے سے یا Hi سے فاصلے ختم ہو جاتے ہیں۔ تو ایک دن یونہی اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر سے جھجکتے ہوئے میں نے اسے وہ ”کلک“ بھیج دیا۔ مجھے جواب کا یقین نہیں تھا۔ میں جانتی تھی کہ اسے نظر انداز کیا جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ مجھے ایک پیغام لکھا۔

Hi, Snobar, how are you doing. I ’m all right, attended LLF last week. Became very tired. Going into hospital for some surgery on medical advice. Let you know when/or if I come out. Love you.

اس پیغام نے مجھے چونکا دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ وہ بیمار ہے اور اگر ہسپتال سے زندہ واپس آیا تو مجھ سے ضرور بات کرے گا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ جس کی آنکھیں اتنی روشن اور پر اعتماد ہوں اسے موت کیسی دکھائی دیتی ہوگی؟ لیکن اس کے لفظ بتا رہے تھے کہ اس نے موت کو بھی ایک ناول کی طرح دیکھا ہوگا۔ اس کی جزئیات میں دلچسپی لی ہوگی۔ اسے سمجھنے کی کوشش کی ہوگی اور اسے اختتام کی طرف بڑھتے دیکھا ہوگا یا شاید اسے اپنے ناول کے کسی کردار کے طور پر لیا ہو۔ اس کے ساتھ سویا جاگا ہوگا۔ ہسپتال کے بستر پر اکیلے لیٹے اس سے باتیں کی ہوں گی ۔ اپنی تکلیفیں اسے سنائی ہوں گی ۔ عظیم ناول نگار جس نے کرداروں کو کٹھ پتلی کی طرح نچایا آج کتنا مجبور ہوگا۔ کہیں کسی کردار نے تو اسے اس حال تک نہیں پہنچایا۔ وہ جس طرح ان کے ساتھ سفاک رہا ہے۔ کہیں انہوں نے کوئی انتقام تو نہیں لیا اس سے۔ ۔ ۔ ممکن ہے کسی کردار نے انتقاماً اسے مارنے کا منصوبہ بنایا ہو۔ ممکن ہے نعیم اپنے بازو اور عذرا اس کی بے وفائی کا بدلہ لے رہی ہو۔ اس میسج کے آخر میں دو لفظ Love You ”“ ایسے تھے جس نے مجھے عجب مخمصے میں ڈال دیا تھا۔

میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ بس یونہی لکھ دیا تھا جیسے کسی کا شکریہ ادا کیا ہو لیکن میرے لیے یہ صرف شکریہ نہیں تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ ان دو لفظوں پر میں نے امکانات و خواہشات کا کوئی محل بنایا ہو لیکن دل میں کچھ ہوا تھا۔ ان دو لفظوں کی وجہ سے اس نے مجھے ایک ذمہ داری سی تو دے دی تھی۔ ان دو لفظوں کو بار بار پڑھنے کے لیے میں نے نجانے وہ میسج کتنی دفعہ پڑھا۔ بس ایسی ہی کسی خوش خیالی میں میں اسے فیس بک پر فالو کرتی رہی۔ میں دیکھتی رہی کہ وہ آن لائن ہے یا نہیں، کس کی پوسٹ پر کیا کمنٹ کر رہا ہے، کمنٹ خوشگوار ہے تو لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہو رہا ہے۔

مجھے اس کا وہ سٹیٹس اور میسج بھی یاد ہے جس میں اس نے مجھ سے معافی مانگی تھی اور بعد میں میسج کر کے بھی پوچھا کہ کیا میں نے اس کی معذرت دیکھی یا نہیں۔

Sanobar, did you read my apology to you in my status post a few days ago?

نجانے اسے ایسا کیوں لگا کہ میں عیسائی ہوں، اسے دکھ ہوا کہ اس کے کچھ ہم وطنوں نے میرے ”عیسائی“ لوگوں کے ساتھ زیادتی کی۔ وہ اس شدت پسندی پر دکھی تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں عیسائی تو نہیں لیکن اس دکھ میں شریک ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ احساسات کے سارے روپ بس اس کی جنریشن تک ہی تھے۔ وہ دو میسج کے تعلق کی بنا پر مجھ سے معافی مانگنے اور میری ہمت بندھانے چلا آیا۔ شاید وہ بھی ان دو لفظوں کی لاج رکھنا جانتا تھا۔ کمال ہے وہ بھی۔ ۔ ۔

پھر ایک دن جب فیس بک پر اس کی طویل غیر حاضری کو محسوس کیا تو ڈرتے ڈرتے خیریت پوچھ ڈالی۔ تو اس نے بتایا کہ

I ’m undergoing chemotherapy. So far the results are somewhat encouraging. Thanks for showing concern. You are sweet girl.

آہ۔ تو اسے کینسر تھا۔ مجھے شدید جھٹکا لگا۔ اپنے ناولوں میں شدید قسم کا حقیقت پسند لگنے والا! اپنے تخیل میں تکلیفوں کو کیسے آسان کر لیتا ہوگا؟ مجھ اجنبی لڑکی کو سویٹ گرل کہہ کر شاید اس نے اپنا دکھ اور تکلیف چھپائے تھے۔

سویٹ گرل کا خطاب ملنے پر میری ہمت بندھی اور سوچا کچھ اور کہوں۔ ایم اے پاس طالبہ کے پاس اس گھسے پٹے سوال کے سوا کچھ نہ تھا کہ آپ کا نیا ناول کب آ رہا ہے لیکن وہ تو ادیب تھا۔ اسے جواب دینا آتا تھا۔ اس نے کہا:

Wait. They also serve who wait, as Milton said

سنو ہم تمہارے چاہنے والے ابھی بھی انتظار میں ہیں۔ کہ تم ہمیشہ کی طرح کچھ تلخ اور کچھ چونکا دینے والا لکھو۔ تمہیں پتہ ہے ہمارے پاس اب کوئی ایسا نہیں جو کھرا سچ لکھے۔ جو صاف کھردرے لفظوں میں بتائے کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ تقدس میں قید گندگی دکھائے، جو ہمیں محبت کے جعلی تخیل سے نکالے، جو تصوف کا ڈھونگ نہ رچائے، جو بار بار ماضی میں نہ جائے۔ جو صاحب حال ہو، حال کو دیکھے، خود بھی روئے اور ہمیں بھی رلائے۔

کچھ دن بعد میں نے اسے بتایا کہ اس کی کہانیوں کا ایک مجموعہ مجھے ملا ہے اور میں وہ پڑھ رہی ہوں۔ اس نے لکھا:

Read it and let me know what you think. A girl here is also doing a MS thesis on it.

پیارے ادیب! میں تمہیں نہیں بتا سکی کہ مجھے وہ کہانیاں کیسی لگی اور نہ تم مجھ سے پوچھنے کے لیے دوبارہ انباکس میں آئے۔ شاید تم فنا کے انباکس میں جا چکے تھے۔ اخبار کی خبریں، فیس بک کی پوسٹیں اور ٹی وی کے تبصرے یہی بتا رہے تھے۔

میرے پسندیدہ ادیب عبداللہ حسین! تم سے ان کہانیوں کے بارے میں پوچھنے کے لیے میں نے ایک سوالنامہ بنایا تھا جو پانچ سالوں سے اسی کتاب میں دھرا ہے۔ مجھے اب ان سوالوں کے جواب نہیں چاہئیں۔ ہاں لیکن کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اگر حیات بعد الموت کے مفروضے درست ہوئے تو میں اپنا سوالنامہ تھامے تمہارے ساتھ ایک لمبی واک پر جاؤں گی اور تم سے یہ بھی پوچھوں گی کہ تمہیں بطور ہیرو اپنی کہانی کا انجام کیسا لگا؟ جس کے پبلشر کو اپنے کاروبار سے کوئی غرض نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments