چین میں امتحانات سے متعلق فراڈ: فیل ہونے والی نے پاس ہونے والی کا روپ دھار کر برسوں نوکری کی


چین

چین میں اس ہفتے ایک کروڑ طلبہ وہ امتحان دے رہے ہیں جو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ یہ امتحانات گاؤکاؤ کہلاتے ہیں اور حال میں افشا ہونے والی ایک خبر کے باعث اس ہفتے ان تمام طلبہ کے سر پر شدید خوف بھی سوار ہوگا۔

وہ خبر یہ تھی کہ کئی ہزار طلبہ جنھوں نے گاؤکاؤ کا امتحان دیا، ان کے نتائج شناخت کی چوری کے باعث منسوخ ہو گئے۔

چن چُنژیؤ کو امید تھی کہ یہ امتحان ان کی زندگی بدل دے گا۔ انھیں امید تھی کہ وہ، ایک کسان کی بیٹی، اگر اس گاؤکاؤ کے امتحان میں اچھی کارکردگی دکھائیں گی تو انھیں اپنی من پسند یونیورسٹی میں داخلے کا موقع ملے گا اور برے نتیجے کی صورت میں یہ خواب ٹوٹ جائے گا۔

چن چُنژیؤ اس امتحان میں فیل ہو گئیں۔

اپنے پسند کے کالج میں داخلہ نہ ملنے پر انھوں نے مختلف نوکریاں کیں۔ کبھی کسی فیکٹری میں کام کیا تو کہیں ویٹرس بن گئیں اور پھر انھوں نے بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کیا اور کنڈر گارٹن میں ٹیچر بن گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالب علم کی جگہ خود امتحان دینے پر استاد گرفتار

بہار: امتحانات میں جوتوں، جرابوں پر پابندی کیوں؟

انڈیا: ’ایک ساتھ 25 سرکاری سکولوں سے تنخواہ لینے والی‘ استانی گرفتار

مگر اس بات کے 16 سال بعد انھیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکہ لگا جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف گاؤکاؤ میں پاس ہو گئی تھیں بلکہ انھیں اپنی پسند کی شانڈونگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ بھی مل گیا تھا۔

ان کی محنت اور امتحان میں اعلیٰ نمبروں کا فائدہ اٹھانے والی ایک اور لڑکی تھی جس کے خاندان والوں نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے چن چُنژیؤ کی شناخت اور ان کا امتحان کا سکور چرا لیا اور ان کی جگہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لیا۔

چین

چن چُنژیؤ کا کیس ان 242 طلبا میں شامل ہے جن کی شناخت اور امتحانات کے نتائج شانڈونگ صوبے میں 2002 سے 2009 کے درمیان چرائے گئے تھے۔

گاؤکاؤ کے امتحانات انتہائی دشوار ہوتے ہیں جس میں طلبہ کو چینی زبان، ریاضی ، انگریزی اور ایک اور مضمون میں اپنی مہارت اور معلومات ثابت کرنی ہوتی ہیں۔

سنہ 50 کی دہائی سے چینی نظام تعلیم میں یہ امتحان مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن لاکھوں بلکہ کروڑں طلبا کے لیے یہ صرف ایک امتحان نہیں بلکہ مستقبل میں اچھی اور پر آسائش زندگی حاصل کرنے کا واحد نادر موقع ہوتا ہے۔

چن چُنژیؤ کی کہانی چینی میڈیا میں بڑے پیمانے پر نشر ہوئی۔ وہ ایک ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنھیں ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔

چن چُنژیؤ کے والدین غریب ہونے کی وجہ سے اپنے دونوں بچوں کو پڑھانے سے قاصر تھے اور انھوں نے ان کے بڑے بھائی کی قدرے کند ذہنی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ چن چُنژیؤ پر محنت کریں گے۔

چین کے دیہاتی علاقوں میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن چن چُنژیؤ ایک قابل طالبہ تھیں اور وہ توقع کر رہی تھیں کہ امتحان میں پاس ہو جائیں گی۔

اسی امید کے ساتھ چن چُنژیؤ نے 2004 میں گاؤکاؤ کا امتحان دیا۔ اس وقت چینی طلبہ کو ناکامی کی صورت میں اطلاع دینے کے لیے خط نہیں بھیجے جاتے تھے۔

چین

اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کو کامیابی کا خط نھیں ملا تو سمجھ جائیں کہ آپ ناکام ہو گئے۔

اس سال ستمبر تک انتظار کرنے کے بعد چن چُنژیؤ نے حالات سے سمجھوتا کر لیا کہ انھیں اب خط نہیں ملے گا اور شہر میں کام کرنا شروع کر دیا۔

اس سال مئی کے مہینے میں انھوں نے تعلیم بالغاں کے ایک کورس میں داخلہ لیا اور سرکاری ویب سائٹ پر اپنے کوائف ڈالے۔ اس ویب سائٹ کی مدد سے انھیں یہ انکشاف ہوا کہ وہ تو 2004 میں شانڈونگ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر 2007 میں وہاں سے فارغ التحصیل بھی ہو چکی ہیں۔

لیکن جو تصویر انھیں نظر آئی وہ ان کی نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ چن چُنژیؤ پر حقیقت آشکار ہوئی اور انھیں اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا بھیانک مذاق ہوا ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ژن ہوا کے مطابق جس لڑکی نے ان کا نام استعمال کیا تھا، ان کے ایک رشتہ دار حکومتی اہلکار تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے داخلہ دینے والے ایک مقامی ڈائریکٹر کی مدد سے چن چُنژیؤ کے کوائف چرائے۔

چن چُنژیؤ نے امتحان میں 750 میں سے 546 نمبر حاصل کیے جبکہ جس لڑکی نے ان کی شناخت چرائی تھی اس نے 303 نمبر حاصل کیے تھے۔ اس لڑکی کے والد نے چن چُنژیؤ کو کامیابی کی اطلاع دینے والے خط کو ڈاکخانے سے نکلوا لیا۔

چین

خبر کے مطابق انھوں نے چن چُنژیؤ کے سکول سے رابطہ کیا اور وہاں کے پرنسپل کی مدد سے چن چُنژیؤ کے سکول کے نتائج کو اُس لڑکی کے نام سے نئے سرے سے تیار کیا جو چن چُنژیؤ کی شناخت چوری کر رہی تھی۔

اُس لڑکی کے کچھ رشتے دار پولیس میں تھے اور کچھ شانڈونگ یونیورسٹی میں اور ان کی مدد سے داخلے کے مراحل اور دستاویزات کی جانچ بڑے آرام سے مکمل ہو گئی۔

ان تمام اثر و رسوخ والے لوگوں کی موجودگی میں چن چُنژیؤ کے لیے انصاف کا کوئی موقع نہیں تھا۔

شناخت چرانے والی لڑکی کا اصل نام چن یان پنگ ہے، اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے انھوں نے خود کو چن چُنژیؤ کے طور پر تبدیل کر لیا۔

میڈیا کے مطابق آج تک چن یان پنگ کے ساتھی انھیں چن چُنژیؤ کے طور پر جانتے ہیں مگر اب ان کی ڈگری منسوخ کر دی گئی ہے اور انھیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی بھی ایک تفتیش جاری ہے اور چن یان پنگ سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

چن چُنژیؤ نے چین کے سی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس لڑکی سے ملنا چاہتی ہیں تاکہ ان سے سوال کر سکیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔

‘آپ نے میری جگہ لے لی۔ کبھی یہ سوچا تھا کہ میرا کیا ہو گا؟ کیا آپ اتنی خود غرض ہیں؟’

چن چُنژیؤ کے ساتھ ہونے والے واقعے کے رد عمل میں عوام میں بڑے پیمانے پر اشتعال پایا جاتا ہے اور کئی نے سوالات کیے ہیں کہ ایک ایسے امتحان کے لیے اتنے پاپڑ پیلنے کی کیا ضرورت ہے، جہاں ایسا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp