سوال تو اٹھیں گے سراج الحق صاحب


محترم سراج الحق صاحب آپ نے مرکزی مجلس عاملہ کے بعد پریس کانفرنس میں ملکی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ آپ کے دائیں طرف سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کو دیکھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان جوش میں آئے ہوں گے اور بے شمار محروم اور بے روزگار نوجوانوں کی طرح یقیناً وہ بھی پریس کانفرنس میں کسی اہم فیصلے کے شدید منتظر رہے ہوں گے ۔ مجھے بھی یہ پریس کانفرنس دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں آپ نے ذکر کیا کہ پورا ملک مافیاز کے حوالے ہے اور انہی مافیاز کے سرمایہ دار الیکشن کے دوران انوسٹمنٹ کر کے اپنی پسند کے لوگ آگے لاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو صرف تذکرہ کرنے سے بھلا کیسے کوئی مان لیں کہ اتنے طاقتور لوگوں کو اس قبیح عمل سے روکا جاسکتا ہے۔ بے شمار پاکستانیوں کی طرح میں دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ مافیاز نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے لیکن میرا ایک سوال ہے کیا ان مافیاز کا پتا ابھی تک لوگوں کو نہیں تھا؟

میرا تو خیال ہے اس ملک کے بچے بچے کو بھی علم ہے کہ مافیاز نے اس ملک کے ہر ادارے کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ یہ علم تو ہر کسی کو ہے کہ اس ملک میں چھوٹے بڑے مافیاز ہیں اور وہ مفادات کی خاطر انسانوں تک کو بیچ ڈالتے ہیں۔ مافیاز کا یہ جال معمولی کلرک سے شروع ہوتا ہے اور پھر آپ سمجھ دار ہیں کہ اس جال کا آخری سرا کہاں جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں اس ملک کے لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح ان مافیاز نے ملک کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان انسان کو شدید بے بس کیا جس کی پوری زندگی بمطابق ان کے مافیاز کے خلاف لڑتے گزری۔ یہ نوحہ کیا بہت پرانا نہیں ہے کہ طاقتور کے ہاتھوں کمزور کا استحصال برسوں سے ہورہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں جس تحریک کے آپ سربراہ ہیں اس تحریک کے نظریاتی لوگ آج بھی کسی اہم اعلان کے منتظر تھے۔ وہ انتظار میں تھے کہ منور حسن مرحوم کی روح کو اذیت سے بچانے کی خاطر امیر جماعت اسلامی پاکستان اعلان کریں گے کہ ان مافیاز کے خلاف اب جماعت اسلامی کے لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور چن چن کر ثبوت لائیں گے کہ کون کون مافیاز کے سرغنہ ہیں۔ لیکن ان مافیاز کے خلاف آپ نے اپنا آخری فیصلہ نہیں سنایا۔ یہ آخری فیصلہ کون سنائے گا۔ اس دندناتی بربریت کو روکے گا کون۔ ماضی کا تذکرہ تو ہر کوئی ببانگ دہل کرتا ہے آپ سے امید تو یہی ہے کہ مستقبل کے حوالے سے ہی کوئی پلاننگ کر کے نڈر فیصلے کریں جن کی وجہ سے یہ ڈوبتی ناؤ تباہی سے بچ جائے۔

آپ کی یہ بات کہ ملک کا قرضہ اکتیس ہزار ارب سے چوالیس ہزار ارب تک پہنچ گیا جس کی وجہ سے اس ملک کا بچہ بچہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہے سن کر تو دل اور بھی ڈوب گیا کہ ایسی فریاد تو گلی کوچوں کے عام لوگ کرتے ہیں جن کے پاس ان قومی مسائل کا کوئی حل ہے ہی نہیں لگتا ہے جماعت اسلامی کے پاس بھی آپشنز نہیں ہیں۔

آپ نے بیرونی قرضوں کا ذکر تو کیا لیکن ان قرضوں کے نقصانات کا جو بوجھ غریب کے کندھوں پر ہے اس سے نجات کی کوئی راہ نہیں دکھائی۔ آپ کے چاہنے والے بے شک سب غریب ہیں اور بقول آپ کے اس ملک کا غریب اور مزدور محرومی میں کچھ اس شدت سے مبتلا ہے کہ بچوں کو دو وقت کی روٹی تک نہیں دے سکتا لیکن تمام غریب ایک بار پھر مایوس ہو گئے کہ نظام پٹڑی سے اتر رہا ہے اور تباہی کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی نہیں اور ایک آپ ہیں جو عام آدمی کی طرح بس ماتم ہی کر رہے ہیں۔

منور حسن مرحوم کو کون بھلا سکتا ہے۔ کتنی شدت سے لوگ ان کو نڈر فیصلوں کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ آج فیصلے کا ہی تو دن تھا کیونکہ آپ نے خود فرمایا کہ پینتالیس محکموں میں چھبیس محکموں کی نجکاری کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی تباہی کا پیش خیمہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ آپ جب یہ ذکر کر رہے تھے تو آپ کے اپنے چہرے کے تاثرات میں پریشانی عیاں تھی۔ سننے اور دیکھنے والوں کی بیقرار دھڑکنیں اس انتظار میں تھیں کہ آپ نظام بچانے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل دیں گے لیکن کہانی یہاں بھی ادھوری رہ گئی۔ آخر کون آئے گا بچانے۔ امام حسن البناء سے متاثر ہونے کے بعد بھلا ایسی کون سی رکاؤٹ درمیان میں حائل ہے جس کی وجہ سے پریس کانفرنس کرتے وقت آپ کو بھی یہ ذکر کرنا پڑا کہ انتخابات میں کامیاب ہوں گے کیونکہ ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔ آپ کیسے انتخابات میں کامیاب ہوسکتے ہیں جس پر مافیاز انوسٹمنٹ کرتی ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا انتخابات سے پہلے ان سے نمٹنا ازحد ضروری ہے۔

آپ نے اسٹیبلشمنٹ کی بات کی اور تفصیل سے اس کا ذکر کیا کہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ غیر ضروری مداخلت کرتی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ کیا کوئی نئی کہانی ہے۔ اس کہانی کو سنتے سنتے کل کے بچے جوان ہوئے اور آج کے نوجوان شاید بوڑھے ہوجائیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور پوری قوم ہی کیوں خمیازہ بھگتتی ہے۔ آپ یقین کیجئیے مولانا مودودی کے حقیقی پیروکار اس انتظار میں تھے کہ ان کے قافلے کا سالار اب اچانک ہی کوئی تاریخی فیصلہ کرے گا لیکن یہاں بھی جماعت اسلامی کے نظریاتی کارکنوں کی طرح آپ جیسے بے شمار غریب پاکستانی بھی ہاتھ ملتے رہ گئے۔

سوال اٹھیں گے جناب اور تب تک اٹھیں گے جب تک کوئی حقیقی راہنما دل سے اس ملک کے غریبوں کے لئے سیاست سے بالاتر ہو کر سوچے گا نہیں۔ آپ اگر ایک بار دیکھنے کی زحمت گوارا کیجئیے تو آپ کو خود اندازہ ہوگا کہ صرف پریس کانفرنس کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں غریبوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور جن نوالوں کا آپ اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں یہ نوالے دیکھنے کی سعادت ان کو کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے۔

ایسے میں آپ کو حقیقت میں کیا کرنا ہے وہ آپ اور آپ کی شوریٰ کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ مافیاز بھی بے شمار ہیں، مہنگائی بھی قابو سے باہر ہے، بے روزگاری بھی شدید ہے، نوجوانوں میں خاص طور پر مایوسی بے تحاشا ہے ایسے میں ایک قومی راہنما کے طور پر سامنے کیسے آنا ہے حقیقت میں سوچئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments