ڈیٹ نائٹ


”ہاتھ چھوڑ دو ناں کوئی دیکھے گا“ وہ منمنائی، جواباً ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اس نے اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر دی۔ اس حرکت پہ سٹپٹا کے اسے دیکھا تو وہ بولا ”کوئی پہلی بار آئی ہو میرے ساتھ کیا؟ شرمانا کیسا؟ یہ شام انجوائے کرو یوں بھی بڑے دنوں بعد آتی ہے ہماری یہ ملاقات“ اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ”ہاں اور اس ایک ملاقات کے لیے پورا مہینہ انتظار کرنا پڑتا ہے، کبھی کبھی تو وقت جیسے ٹھہر ہی جاتا ہے بچوں کی دیکھ بھال، ساس کی خدمت اور گھر کے کام۔

ذمہ داریوں سے بھری اس زندگی میں ہماری یہ ڈیٹ نائٹ ہی تو ہے جو تازگی کا ایک جھونکا بن کے آتی ہے اور میری ساری تھکان دور کر دیتی ہے“ ۔ ”تو پھر مزا لو اس ملاقات کا اور امر کر لیں ان لمحات کو جو ہم اس مصروف زندگی کے دامن سے چپکے سے چرا لیتے ہیں“ وہ رسان سے بولا۔ ”بہت حسین لگ رہی ہو“ اس کا گال چھوا۔ ”کیسے نہ لگوں گی صرف تمھارے لئے اتنا دل سے تیار جو ہوئی ہوں“ وہ اترائی۔ ہلکی گلابی لپ اسٹک، گلابی بلشر اور گولڈن ہائی لائٹر نفاست سے چہرے پہ لگا رکھا تھا اور آنکھیں کاجل سے بھرپور۔

بہت سا مسکارا لگا کے آنکھوں کو اور بھی دلکش بنا لیا تھا۔ خوبصورت تھی، تیار ہو کے تو اور بھی زیادہ حسین لگتی۔ پرفیوم کی دھیمی دھیمی خوشبو اس کی کشش بڑھا رہی تھی۔ اسے اپنا آپ اچھا لگ رہا تھا اور وہ نظریں ہٹا نہیں پا رہا تھا یہ دیکھ کے وہ اترا رہی تھی، مسکرا رہی تھی، نازاں تھی۔ کتنا خوبصورت تھا یہ سب کچھ، ریستوران کا خوابناک ماحول اور اپنے محبوب کی قربت۔ نہ کسی کام کی جلدی اور نہ ہی کسی بات کی فکر۔ کاش یہ لمحے اور طویل ہوتے دل میں خواہش جاگی، اور یہ ملاقات اتنے دنوں بعد نہ ہوتی۔

”کچھ سیلفیز ہو جائیں“ وہ اس کے قریب آ گیا اور کھانا پیش ہونے تک وہ اسی میں مصروف رہے۔ وہ ہمیشہ اسی ریستوران میں ملتے تھے، کھانے سے بھی کہیں زیادہ انھیں یہاں کا ماحول پسند تھا۔ مدھم سی روشنی اور دھیما دھیما سا میوزک ان کی ڈیٹ کو اور بھی خوبصورت بنا دیتا۔ یہ شام بس ان دونوں کی ہوتی جس میں وہ ایک دوسرے سے بس اپنی باتیں کرتے، وہ باتیں جو بس ان کی تھیں جنہیں کہنے کو وہ تیس دن انتظار کیا کرتے۔ اور پھر یہ ایک شام انھیں وہ سب کچھ دے دیتی جو باقی کے تیس دن نہیں دے سکتے تھے۔

کیسی میکانکی تھی ان کی زندگی، دن رات صبح شام بس کام کی فکر اور ذمہ داریوں کا بوجھ۔ وہ مرد تھا اور فکر معاش میں مشغول تھا، وہ عورت تھی اور گھر کے کام ہی جان نہ چھوڑتے تھے۔ ان کے پاس اپنے لئے وقت ہی کہاں تھا وہ تو دوسروں کے لئے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے جی رہے تھے۔ یہ ڈیٹ انھیں احساس دلاتی تھی کہ وہ خود کتنے اہم، اور ایک دوسرے کو کتنے پیارے ہیں۔ اسی لئے تو کچھ بھی ہو وہ ہر ماہ کم از کم ایک بار ملتے ضرور تھے۔

ریستوران سے نکل کر گاڑی میں آ بیٹھے سر کاندھے پہ ٹک گیا اور وہ یونہی گاڑی یہاں وہاں دوڑاتا رہا۔ رات کافی بیت چکی تو گاڑی گھر کی جانب موڑ لی۔ وہ اتری، آہستگی سے گیٹ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔ اس نے ساس کے کمرے میں جھانکا وہ بے خبر سو رہی تھیں، دوسرے کمرے میں بچے گہری نیند سو رہے تھے۔ چپکے سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی، وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ ”سب سو رہے ہیں ناں؟“ اس نے تصدیق چاہی۔ ”جی“ جواب ملا۔ ”گڈ“ مسکراتے ہوئے بولا، ”تو کیسی رہی آج کی شام؟“ ، ”زبردست“ وہ قریب آ گئی۔ ”کتنے اچھے شوہر ہو تم“ وہ پیار سے بولی ”اچھی تو تم ہو جو ہم سب کا اتنا خیال رکھتی ہو، تمھارے پیار کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں“ اسے بازوؤں میں سمیٹ کر ماتھے پہ لب رکھ دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments