عیاد کشمیری اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی


سیاست پر لکھنے سے کبھی کبھار دل اُوبھ جاتا ہے لیکن کیا کیجئے کہ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے آپ کا تعلق ہو کہیں نہ کہیں آپ کو سیاست سے واسطہ ضرور پڑ جاتا ہے۔ وطن عزیز میں تو ویسے بھی چائے کے ڈھابے سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوان تک ہر کوئی اپنے تئیں سیاست کا ماہر ہے۔ اسی غیر سنجید ہ طرز فکر کے زیر اثر ہم نے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدل دیا ہے۔ یہ دشمنی اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ ہم انسانی المیوں کو بھی ٹوئٹر اور فیس بک کی چند پوسٹوں میں دوچار دنوں یا ہفتے دو ہفتے میں نمٹا دیتے ہیں۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر سے سوپور جانے والی شاہراہ پر بشیر احمد کے لہولہان لاشے پر درد سے بلبلاتے اس کے ننھے نواسے عیاد کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ کچھ ٹوئٹس، فیس بک کی کچھ سطریں، اخبارات کی چند سرخیاں، دو چار ٹیلی ویژن کے مباحثے اور کھیل ختم۔ اب آپ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، اخبارات اور ٹی وی مباحثوں میں اس المیے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس پانچ اگست کو لاگو کئے گئے سیاسی بندوبست کو ایک برس ہونے والا ہے۔ لے دے کر ایک پاکستان ٹیلی ویژن ہے جس کی سکرین پر آپ کو روزانہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ایک خبر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

سنتے ہیں حکومت اگلے مہینے پانچ اگست منانے کی بھرپور تیاریاں کر رہی ہے۔ دنیا بھر کے سفارت خانوں سے رابطے کئے جائیں گے تاکہ اقوام عالم کو دنیا کے اس عظیم انسانی المیے کی سنگینی سے آگاہ کیا جا سکے۔ سوال مگر یہ ہے کہ گزرے ایک برس میں ہم نے مسئلہ کشمیر پرجمع خرچ کیاہے؟ مودی کے آنے سے حالات کے بہتر ہونے کی امید کا سفر مودی کو ایک نفسیاتی مریض قراردے کر اختتام کو پہنچا۔

کنٹرول لائن پر حالات وہی ہیں جو میرے جیسے پاکستانیوں نے ہوش سنبھالتے ہی دیکھے تھے۔ بھارتی فوج بلااشتعال فائرنگ کرتی ہے جس سے نہ صرف پاک فوج کے جوان شہید ہوتے ہیں بلکہ معصوم شہری بھی بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سے ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے بھارتی فوج کی چوکیوں پر بھرپور گولہ باری کرتے ہوئے دشمن کی توپوں کو خاموش کروا دیا۔ برا ہو اِن موئی بھارتی توپوں کا جو چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد پھر سے تازہ دم ہو کر ہماری جان کو آجاتی ہیں۔

خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خواجہ ناظم الدین کے بھتیجے اور اے آر ڈی کے پہلے سیکرٹری جنرل خواجہ خیرالدین کے بیٹے ڈاکٹرخواجہ علقمہ کا شاگرد ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں خواجہ صاحب کی رائے اور تجزیے کو جھٹلانا آسان نہیں۔ خواجہ صاحب کا فرمانا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کے پاس تین نادر مواقع تھے۔ ایک انیس سو اڑتالیس، دوسرا انیس سو باسٹھ کی چین بھارت جنگ جب پاکستان بزور طاقت کشمیر حاصل کر سکتا تھا۔ تیسرا موقع بھارتی وزیراعظم واجپائی کا دورہ لاہور جس سے یہ قوی امید تھی کہ دونوں ملکوں کی قیادت مل بیٹھ کر مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کر سکتی تھی۔ اس سے جنوبی ایشیامیں امن اور استحکام قائم ہوتا اور پھر یہ خطہ اپنی جغرافیائی اہمیت کی بدولت دنیا بھر کی معیشت کا مرکز بن جاتا۔

بدقسمتی سے ہم نے تینوں مواقع ضائع کر دیئے۔ تیسرا موقع تو ہمارے کمانڈو جرنیل پرویز مشرف کی بھرپور کوششوں سے ضائع کیا گیا۔ کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اسی پرویز مشرف نے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منہ نہ لگانے پر خود بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی نشست پر جاکر ان سے مصافحہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا یہ مصافحہ کسی کام نہ آیا۔ یہی پرویز مشرف ہیرو بننے کے شوق میں آگرہ بھی پدھارے تھے لیکن مشترکہ اعلامیہ کا انتظار کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں بدل گیا اور ہم خیر سے گھر لوٹ آئے۔

وقت ایسے مواقع بار بار فراہم نہیں کرتا۔ آج ہم اس مرحلے پر ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر مسئلہ کشمیر پر کوئی مشترکہ احتجاج تک نہیں کر سکتیں۔ اپوزیشن کھلے عام یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ حکومت نے کشمیر بیچ کھایا ہے۔ کیا ان حالات میں ہم کشمیر لینے کی بات کر سکتے ہیں؟ چین کی کامیابیوں اور شاندار نظام حکومت کی ہم بہت تعریف کرتے ہیں۔ ہمیں لداخ میں کچھ دن پہلے ہوئی جھڑپ سے ہی کچھ سیکھنا چاہئے جہاں چینی فوج نے بغیر ایک گولی چلائے بھارتی سینا کا بھرکس نکال دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ لداخ کی سرحد پر بفرزون اُس پٹی پر بنایا گیا ہے جسے بھارتی حکومت بھارت کی سرزمین کہتی ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ بھارتی فوج کی پٹائی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کا کردار کیا ہے؟ پاکستان کا نفع یا نقصان کیا ہے؟

باوجود کوشش کے خاکساراس واقعے سے صرف ایک نتیجہ اخذ کر سکا ہے اور وہ ہے طاقت۔ معاف کیجئے گا اگر آپ مجھے جنگ کا حامی ہونے کا طعنہ دینا چاہتے ہیں تو بسرو چشم، لیکن حقائق اکثرو بیشتر تلخ ہوا کرتے ہیں۔ اس وقت جنوبی ایشیا دوررس بصیرت رکھنے والی سیاسی قیادت سے محروم ہے اور مستقبل قریب میں بھی ایسی باصلاحیت قیادت کی دستیابی کا کوئی امکان نہیں تو ایسے میں طاقت کے استعمال کے سوا کیا ممکن ہو سکتا ہے؟ چین اور بھارت میں لداخ کے معاملے پر حال ہی میں ہونے والی جھڑپ اس کی واضح مثال ہے کہ اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد بھارت خود مذاکرات کی میز پر تشریف لایا۔ منت سماجت، انسانی حقوق کے واسطے اور عالمی برادری سے اپیلیں کرنے سے آج تک دنیا کا کوئی مسئلہ حل ہوا تو بتائیے؟ اب آپ کہیں گے کہ پاکستانی فوج اپنے سے کئی گنا بڑی فوج سے جنگ کر کے کشمیر کیسے لے سکتی ہے؟

یاد رکھئے !جنگ لڑنے کے لئے بہترین تربیت یافتہ فوج کے ساتھ ساتھ گولہ بارود کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ گولہ بارود بنانے یا حاصل کرنے کے لئے اربوں، کھربوں کا دفاعی بجٹ اور مسلسل نمو پاتی معیشت بنیادی ضرورت ہے۔ معیشت کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو جدید تعلیم سے آراستہ کرے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی مانگ پیدا کرے۔ عالمی برادری سے تجارتی مواقع پیدا کرے اور ان سے بھرپور فائدہ بھی اٹھائے۔ موجودہ دنیا پولیٹیکل اکانومی کی دنیا ہے۔ بھارت اور چین بھی باہمی دشمنی کے باوجود اربوں ڈالر سالانہ کی تجارت کرتے ہیں۔ جب پاکستان کے مفادات عالمی برادری کے ساتھ مشترک ہوں گے تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے شائد طاقت کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ تاجر اپنے مفادات پر کبھی زد نہیں پڑنے دیتا۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات سیاسی تعلقات کی بہتری کے لئے معاون ثابت ہوں گے اور یہی تجارتی اورسیاسی تعلقات عالمی برادری کو مجبور کردیں گے کہ وہ جنوبی ایشیا کی دوایٹمی طاقتوں کے مابین اختلافات کو میدان جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے۔

دوسری صورت میں آنے والی نسلوں میں کئی عیاد پیدا ہوں گے، ایل اوسی پر فائرنگ ہوگی، دشمن کی توپیں خاموش ہوں گی اور تازہ دم ہو کر پھر گولہ باری کریں گی۔ لیکن ہمیں اس سے کیا ہم مسئلہ کشمیر سے بھی کہیں اہم عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کا تنازعہ تو نمٹا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments