سوشل میڈیا کا طوفان اور شہرت یافتہ تعلیمی ادارے


سوشل میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں مجھے نہیں پتہ کہ ان کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق بھی وضع ہوا ہے یا نہیں۔ ہاں البتہ سائبر کرائمز کے لیے ضرور کچھ سزائیں ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ دور جدید کی یہ سوغاتیں ہمیں ویسٹ سے ملی ہیں۔ ان کے ساتھ جو اچھائیاں اور غلاظتیں لپٹی ہوئی ہیں وہ ویسٹ کی لیے تو قابل قبول ہیں کیونکہ یہ ان کی چیزیں ہیں۔ ان کے ہاں کے کھلے ڈلے معاملات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ بڑے رجے پجے سے لوگ ہیں۔ خود کو اپنے حالات اور ماحول کے مطابق چوڑا کرنے اور تنگ کرنے کا شعوری ادراک رکھتے ہیں۔

اصل مسئلہ تو ہمارے ساتھ ہے یعنی ہم پاکستانیوں کے ساتھ، جو اناڑی کے ہاتھ استرا آ جانے پر کہ وہ اپنے ہی گالوں کو چھیل ڈالتا ہے یا پھر رہٹ کی ٹنڈوں سے بہتے پانی کو ہاتھوں کی اوک بنا کر پیاس بجھانے والے دیہاتی کے پاس پیالہ آ جانے پر کہ وہ پانی پی پی کر ہی اپھر جاتا ہے والا معاملہ ہے۔ آرٹسٹوں اور فلم ٹی وی ستاروں کے ساتھ اخلاق سے گرے واقعات تو آئے دن ہی سنتے رہتے ہیں۔ مگر ابھی جن دو واقعات نے بہت سے سوالیہ نشان ہمارے سامنے کھڑے کر دیے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہیں۔

لاہور گرامر سکول کی طالبات کے ساتھ اساتذہ کے گھناؤنے کھیل تماشے ہی والدین کے لیے اضطراب کا باعث بنے ہوئے تھے کہ اسلام آباد کی فاسٹ یونیورسٹی کے طلبا کی اخلاقی گراوٹ کا جو کردار سامنے آیا ہے اس نے اور مضطرب کر دیا کہ ہم جا کہاں رہے ہیں؟ واقعے کی تھوڑی سی تفصیل گوش گزار ہے۔ یہ فون تھا ہماری ایسی ملنے والی خاتون کا جن کا تعلق بڑے وضع دار اور مذہبی گھرانے سے ہے۔ جن کی گھریلو روایت میں والدین اور بڑوں کا احترام لازمی ہے۔

گھر کا پہلوٹی کا پوتا فاسٹ یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ لاک ڈاؤن کا سیاپا شروع ہوا تو کوئی بیس پچیس طلبہ نے وٹس ایپ پر اپنا ایک گروپ بنایا۔ چند دنوں بعد کچھ لڑکوں نے ایک ایسی ویڈیو شیئر کی جسے محض فحش مواد والے کھاتے میں ہی ڈالا جاسکتا تھا۔ صالح گھروں کے سلجھے ہوئے بچوں نے اس پر شدید اعتراض کیا۔ تو تو میں میں اور گروپ سے علیحدگی کی دھمکی کے ساتھ انہیں فوراً سے پیشتر ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ کچھ لڑکوں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ اور اس یقین دہانی کا بھی عہد ہوا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی۔ مگر ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اس شیطانی ٹولے نے فیکلٹی کی لائق ترین میرٹ پر کام کرنے والے فیکلٹی کے میل و فی میل اساتذہ کے سروں کے نیچے ایسے شرمناک دھڑ لگا کر وائرل کر دیئے۔

یونیورسٹی میں کہرام مچ گیا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فوراً نوٹس لیا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے معاملے کی پوری ذمہ داری سے تفتیش کی۔ ڈاکٹر سمیرا سرفراز کی سرکردگی میں تمام امور کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔ ثبوتوں اور ان کے ساتھ جڑے حوالوں کی روشنی میں جو سزائیں تجویز ہوئیں انہیں دینا ازحد ضروری سمجھا گیا تھا۔ فیکلٹی کا کہنا تھا کہ ایسی پریکٹس نہ ہوئی تو پھر آپ خرابیوں کو پھلنے پھولنے کے راستے کھول دیتے ہیں۔

کمیٹی نے فیصلے اعترافی بیان کی روشنی میں کیے تھے۔ اور کہیں اس احساس کو غالب آنے نہیں دیا کہ جہاں کہا جا سکے کہ طلبا کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے کہ وہ بہرحال ابھی بچے ہیں۔ یونیورسٹی لیول پر اساتذہ اور طلباء میں باہمی تعلقات میں احترام اور ایک حد کے اندر بے تکلفی کا عنصر ضرور ہوتا ہے مگر بے تکلفی اور مذاق کی اپنی حدیں ہیں جنہیں پار کر کے اخلاقی گراوٹ کے پاتال میں گر جانے کو اس میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔

اب یونیورسٹی کو قانونی نوٹس دیے جا رہے ہیں کہ طلباء کو دی گئی سزائیں واپس لی جائیں کہ اس کے پاس سزائیں دینے کا اختیار نہیں۔ ہم بھی کیسے لوگ ہیں کہ جو غلط کاموں پر بچوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ سچی بات ہے ایک اچھی شہرت رکھنے والی یونیورسٹی کے لیے یہ معاملہ انتہائی سنجیدگی کا حامل تھا۔ میمز انٹرنیٹ سے فوری ہٹانے کے پس منظر میں خواتین اساتذہ کے مقام اور تقدس کی حرمت کا احساس تھا۔ یونیورسٹی کے ایک سابق ہونہار طالب علم کی گفتگو بڑی چشم کشا ہے کہ جس نے چھوٹتے ہی کہا ہے۔ ہمارے وقتوں میں فاسٹ کمپیوٹر سٹڈیز کی ایک بہترین یونیورسٹی شمار ہوتی تھی۔ جس میں طلبہ کی کردار سازی اولین اہمیت کی حامل تھی۔ طلبہ تنظیمیں اور غیر نصابی سرگرمیاں جو ان اذہان کو صحت مند سوچ اور با ادب با نصیب جیسے مدرسہ فکر کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی تھیں۔ تاسف اور دکھ بھرا لہجہ تھا طالب علم کا کہ جس نے کہا تھا کہ اب اس سوشل میڈیا نے ان سب قدروں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایک مخصوص سوچ اور نظریے کی پرموشن نے اداروں کو متاثر ہی نہیں تباہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔

یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر ایوب علوی ایک فرض شناس، انتہائی ایماندار اور بہترین منتظم سمجھے جاتے ہیں۔ میرٹ پر ان کے ہاں ذرہ بھر لچک کی گنجائش نہیں۔ ان کا یہ وصف یہ مرحوم ڈاکٹر اعجاز احسن کی طرح بدنامی کی حد تک شہرت رکھتا ہے۔ چند ماہ قبل بھی وہ ایسی ہی آزمائش سے گزرے تھے جب ایک بڑے عہدے دار کے بگڑے ہوئے صاحبزادے نے نچلے متوسط کلاس کے ایک طالب علم کو کسی چھوٹی سی بات پر سیخ پا ہوتے ہوئے اسے زناٹے کا تھپڑ مارا۔ غریب بچہ اپنی اور مخالف کی حیثیت سے آگاہ تھا۔ خاموش گال سہلا کر رہ گیا۔ بات چونکہ صریحاً زیادتی والی تھی اس لیے وی سی تک جا پہنچی۔ تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ پر طالب علم کو ایک ٹرم کے لیے یونیورسٹی سے نکال دینے کا نوٹس دیا گیا۔ بڑے باپ کا بیٹا دباؤ اور سفارشیں شروع ہو گئیں۔ مگر ایک پختہ انکار۔ والدین نے متاثر لڑکے کے والدین سے رجوع کیا۔ لڑکا اور اس کے والدین وی سی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ لڑکے کو معاف کرتے ہیں اور یونیورسٹی بھی اس کی سزا ختم کردے۔

وی سی نے تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کو معاف کرنے والے آپ کون ہیں؟ ہاں ہمارا قیمتی وقت اور محنت ضائع کرنے کی پاداش میں اب آپ کے بیٹے کو بھی ایک ٹرم کے لیے یونیورسٹی نکالے گی۔ اب پھر ملک کی مقتدر شخصیتوں کا ان پر بہت دباؤ ہے مگر وہ استقامت سے کھڑے صرف ایک بات کہتے ہیں۔ ایسی مادر پدر آزادی تعلیمی اداروں کو برباد کردے گی۔ ہمیں مضبوط ہاتھوں سے اپنی اقدار کی حفاظت کرنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments