کورونا وائرس: ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کیسے اینٹی باڈی اشرافیہ کو جنم دے سکتے ہیں
دنیا بھر میں حکومتیں اپنی شہریوں کے کورونا وائرس اینٹی باڈی ٹیسٹ کروا رہی ہیں تاکہ ان میں کووڈ19 کے مرض کی ماضی میں موجودگی کا تعین کیا جا سکے۔
بعض ملک ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ جاری کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ دوسرے بھی ان کی تقلید کریں۔
یہ ایک طرح سے اس بات کا ثبوت ہوگا کہ آپ کو کورونا وائرس لگ چکا ہے اور اب اس کے دوبارہ لگنے یا دوسرے کو لگانے کا احتمال نہیں ہے۔ یعنی ایسے پاسپورٹ کے حامل افراد پر لاک ڈاؤن کا اطلاق نہیں ہوگا۔
مگر کیا یہ خیال درست ہے؟ اور کیا یہ ایک ایسے اشرافیہ طبقے کو جنم دے گا جس میں کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز یعنی مدافعت پائی جاتی ہو اور جو اپنی مرضی سے ڈیٹ (وصل یا محبوب سے ملاقات کرنا)، سفر اور کام پر جا سکتا ہے جبکہ دوسرے افراد کو مسلسل صحت سے متعلق احتیاطی تدابیر سے کام لینا ہوگا؟
یہ بھی پڑھیے
’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کورونا کی وبا کو پھیلا سکتے ہیں: ڈبلیو ایچ او
کورونا وائرس کو سمجھنے کے لیے ’R` نمبر کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟
’میں جانتا ہوں کہ میں پاک ہوں، چلو ملتے ہیں‘
ایبرڈین کی رہائشی پیم ایوانز کو حال ہی میں انٹرنیٹ ڈیٹنگ کا ناخوشگوار تجربہ ہوا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک آدمی نے جو ان سے ملنا چاہتا تھی ایک نئی روش اپنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اختتام ہفتہ پر ایک آدمی سے بات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ پچھلے ہفتے اس کا کووڈ کا ٹیسٹ منفی آیا ہے اور وہ اس بیماری سے پاک ہے، اس لیے کہیں ملنا چاہیے۔ میں نے اس سے کہا کہ بالکل نہیں۔ وہ تو فوراً ہی بدتمیزی پر اتر آیا۔‘
پیم کا ممکنہ محبوب بظاہر اپنے منفی کورونا ٹیسٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملنے کے لیے لاک ڈاؤن کے ضوابط توڑنا چاہتا تھا۔
تو کیا ایسے لوگ جنھیں کورونا وائرس لگنے کی سند مل چکی ہے اس کا اس طرح سے فائدہ اٹھائیں گے؟
نیو یارک میں بعض لوگ خود میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز کی موجودگی کا فائدہ یوں اٹھا رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انھیں یا ان سے کسی کو کوروناوائرس لگنے کا خطرہ نہیں ہے لہذا ان سے ڈیٹ مارنا محفوظ ہے۔
’امیونیٹی پاسپورٹ‘
تصور یہ ہے کہ اگر آپ میں اینٹی باڈیز ہیں تو یہ مرض آپ کو دوبارہ لاحق نہیں ہو سکتا۔
امیونیٹی پاسپورٹ کا مطلب ایسی سند ہے جس کی بنیاد پر آپ ان مقامات پر بلا روک ٹوک جا سکیں گے جہاں دوسرے لوگوں کے جانے پر پابندی ہوگی۔
مگر اس کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ آپ کو کورونا وائرس لگ چکا ہو۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ایسٹونیا ایک ایسا ہی امیونیٹی پاسپورٹ تیار کر رہا ہے جبکہ چِلی ایک ’ریلیز سرٹیفیکیٹ` بنانے میں مصروف ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر امیونیٹی موجود ہے تو جن لوگوں میں یہ پائی جاتی ہے انھیں دوسرے کے مقابلے میں کچھ آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
ایسی ایپس پر کام ہو رہا ہے جو اینٹی باڈیز، اور ممکنہ طور پر امیونیٹی دکھا سکیں۔ ایک مثال آنفیِڈو ہے۔ اس کے بنانے والے حسین کاسئی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بعض ہوٹل اس ایپ کے ذریعے امیونیٹی پاسپورٹ قبول کر رہے ہیں۔
ان کے بقول ’یہ زیادہ تر ان مہمانوں کے لیے ہے جو سپا یا جِم جانا چاہتے ہیں جہاں پر سماجی فاصلہ رکھنے کا امکان کم ہوتا ہے۔‘
اینٹی باڈی اشرافیہ
مگر اس سے کہیں کووڈ امیون اشرافیہ کے پیدا ہونے کا تو کوئی خدشہ نہیں ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر رابرٹ ویسٹ کو ایک ’منقسم سماج‘ کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
وہ کہتے ہیں ’آپ سوچیں کہ اگر آپ ایسی کوئی سند حاصل کر لیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے بہت سے ایسے دروازے کھول دے گی جو دوسروں کے لیے بند رہیں گے۔‘
پروفیسر ویسٹ کے مطابق ’یہ ایک ایسے سماج کو جنم دے گا جس کے کئی درجے ہوں گے اور اس سے امتیاز اور عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔‘ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اس سے امیونیٹی کے تصور کی بنیاد ہی کمزور پڑ جائے گی کیونکہ یہ ٹھوس سائنسی شواہد پر استوار نہیں ہوگی۔
پروفیسر ویسٹ کے خیال میں ایک ایسا وقت آ سکتا ہے جب اینٹی باڈی سرٹیفیکیٹ کے حامل افراد کو اسپتالوں اور تیمارداری مراکز میں زیادہ کمزور افراد کے ساتھ کام کرنے کے لیے ترجیح دی جائے گی، اور ایسے ادارے امیونیٹی سندیافتہ عملے کو اپنی تجارتی مہم میں استعمال کریں گے۔
مگر ان کے مطابق ابھی اس بات کے شواہد نا کافی ہیں کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی کا مطلب ہے کہ آپ وائرس نہیں پھیلا سکتے۔
’خطرے کی بات نہیں، اس میں اینٹی باڈیز ہیں‘
عالمی وبا نے خاص طور سے ہوائی صنعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور یورپ میں سب سے زیادہ مصروف لندن ہیتھرو ایئرپورٹ کے چیف ایگزیکٹیو جان ہالینڈ چاہتے ہیں کہ تمام حکومتیں امیونیٹی سرٹیفیکس کو تسلیم کریں۔
ان کے بقول ’آپ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ جس ملک میں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ کا ہیلتھ سرٹیفیکیٹ قابل قبول ہے اور یہ کہ وطن واپسی پر آپ کو قرنطینہ سے نہیں گزرنا پڑے گا۔‘
امریکہ میں ہارورڈ لا سکول سے وابستہ کارمل شیکر کو خدشہ ہے کہ اس طرح تو لوگ چاہیں گے کہ انھیں کووڈ19 لاحق ہو جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سے تو بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ مثلاً لوگ کام پر واپس جانے کے لیے اس مہلک مرض کا شکار ہونا چاہیں گے، یا پھر کمپنیاں اپنے ملازمین سے ان کی صحت کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کر دیں گے، وہ پوچھیں گی کہ آپ کو کووڈ19 ہو چکا ہے۔
کارمل شیکر کے خیال میں بعض صنعتوں کے لیے اس کے تجارتی فوائد واضح ہیں: ’میں اگر کسی ریستوان میں کام کرتی ہوں تو کیا میرا مینیجر کسٹمرز سے کہہ سکتا ہے، ’اوہ خطرے کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ان میں اینٹی باڈیز ہیں۔‘‘
شیکر کہتی ہیں کہ امیونیٹی کے بارے میں معلوم ہونے میں بڑا فائدہ ہے: ’آپ کووڈ کے مریضوں کی تیمارداری کرنے والے عملے سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ان میں قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ لوگ اس عالمگیر وبا سے پہلے کے دور میں جانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ سمجھوتہ کرنے پر تیار ہیں۔
اہم سوالات
دنیا بھر کے ممالک بھی ’نیو نارمل‘ کو جلد از جلد اپنانا چاہتے ہیں۔ مگر بہت سوں کے لیے پوری آبادی کا اینٹی باڈی ٹیسٹ کرنا اس وقت مشکل ہے۔
جرمنی البتہ بڑے پیمانے پر اینٹی باڈی ٹیسٹنگ کر رہا ہے۔
مگر بعض ٹیسٹو کے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں قائم کووڈ19 ٹیسٹنگ پراجیکٹ نے مئی میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس کے مطابق 12 ٹیسٹ ایسے تھے جو 81 سے 100 فی صد تک درست پائے گئے تھے۔
جبکہ امریکی سینٹرز فار ڈیزیزز اینڈ پری وینشن نے خبردار کیا تھا کہ بعض ٹیسٹ اینٹی باڈیز کی موجودگی کے بارے میں 50 فی صد تک غلط ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو کووڈ19 نہیں ہوا وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور یوں غیر حقیقی تحفظ کے احاس کی وجہ سے خود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
اور اگر اینٹی باڈی ٹیسٹ کا نتیجہ درست ہو بھی تو کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ میں اس مرض کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے؟ عالمی ادارۂ صحت اس بارے میں شبہات کا اظہار کر چکا ہے۔
ایبرڈین کی رہائشی پیم بھی اینٹی باڈی ٹیسٹنگ سے متعلق دلائل کی قائل نہیں لگتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نہیں جانتے کہ یہ امیونیٹی کب تک برقرار رہے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جن لوگوں میں علامات پائی گئیں کیا ان میں 100 فیصد امیونیٹی پیدا ہوگئی ہے۔
’ویسے بھی میں پہلی ملاقات میں بوس و کنار کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ تو میرے لیے دو میٹر کے فاصلے کا فائدہ یہ ہے کہ سامنے والا ایک دم سے آپ کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتا۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).