صدف زہرہ گھر بچانے کی کوشش میں موت کے گھاٹ اتر گئی


عورت مارچ، عورت مارچ، ان عورتوں کو کیا خبر مسائل کی۔ بس آزادی چاہیے، گھروں سے نکلنے کی، گھر میں کوئی ٹوکے نہ روکے، بس اپنی من مانیاں کرتی رہیں۔

صحیح تو کہتے ہیں لوگ، صدف نے بھی تو من مانی ہی کی۔ ایسے شوہر کو ایک آخری موقع دینے کی من مانی، جس کے بارے میں اسے سب خبر تھی۔ آئے روز گالیوں لاتوں مکوں سے تواضع ہونے سے لے کر، اس کے گھناؤنے کردار تک، خواتین کو بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی کا باپ ہوتے ہوئے بھی غیر خواتین سے تعلقات تک، صدف کو سب خبر تھی۔ ماں نے روکا، اب مت جاؤ، یہ شخص نہیں سدھرے گا۔ بہن نے بھی سمجھایا، لیکن اسے تو دھن سوار تھی، ماں کو جواب دیا، اماں آخری چانس دینے میں حرج نہیں اس نے عدہ کیا ہے اب وہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گا، بیٹی کی ماں ہوں، کل کو کوئی میری بیٹی کو طعنہ نہ دے کہ ماں کو طلاق لینے کا بڑا شوق تھا۔

وہ آخری وقت تک پر امید تھی کہ ایک روز اس کا شوہر تمام مجرمانہ سرگرمیاں چھوڑ کر اپنے رویے کو خوشگوار کرلے گا۔ یہی صدف کی زندگی کی آخری غلطی ثابت ہوئی۔ صدف کی لاش اپنی بیٹی کے سالگرہ کے روز پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی۔ وہ بیٹی کی پہلی سالگرہ کو یاد گار بنانا چاہتی تھی۔ سالگرہ ایسی یادگار ہوئی کہ اب شاید معصوم فرشتہ سی بچی کبھی اس روز خوشی نہ مناسکے۔

صدف اور علی سلمان علوی کے درمیان بات چیت کا آغاز ٹویٹر پر ہوا جو بعد میں محبت کی شادی میں ڈھل گیا۔ علی سلمان ایک پڑھا لکھا مشہور صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تھا۔ ساتھ ہی وہ مشہور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے ٹی وی شو کا پروگرام پروڈیوسر تھا۔ بظاہر روشن خیال اور عورتوں کے حقوق کا بھرپور علمبردار بھی۔ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف وہ بھرپور آواز اٹھاتا تھا۔ ایک پوسٹ میں موصوف لکھتے ہیں۔

”غیرت کے نام پر مرد ہمیشہ عورت کا ہی قتل کیوں کرتا ہے۔ خودکشی کیوں نہیں کرتا؟ معاشرہ ناسور سے پاک بھی ہو جائے اور یہ ظلم بھی بند ہو جائے۔“

صدف کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو ضرور متاثر ہوتی۔ نظریات و خیالات کی یکسانیت دونوں کو قریب لے آئی۔ اور انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ لیکن چند ماہ بعد ہی صدف کو یہ احساس ستانے لگا کہ اس کا انتخاب غلط تھا۔ دراصل علی سلمان وہ نہیں تھا جو بظاہر نظر آتا تھا۔ مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے خواتین کو بلیک میل کر کے پیسے بٹورنا اور اور کئی خواتین سے غلط تعلقات سامنے آنے کے بعد دونوں کے درمیان کھٹ پٹ شروع ہو گئی۔ بجائے شرمندہ ہونے کے بات گالیوں سے شروع ہو کر تشدد پر ختم ہوتی۔ لیکن ہر بار معافی تلافی کر کے وہ اپنی بیوی کو منا گھر واپس لے جاتا۔ علی سلمان کے اس روپ سے پوری دنیا ناواقف تھی، یہی وجہ ہے کہ عاصمہ شیرازی نے ٹویٹ میں وضاحت کی کہ وہ تمام حقائق جان کر اب تک حیران ہیں، علی سلمان کو فوری طور پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

صدف نے اپنے شوہر کی حرکتوں کا پردہ رکھا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی کہ بظاہر پڑھا لکھا، مہذب نظر آنے وال شخص اندر سے کس قدر گھناؤنے کردار کا مالک ہے۔ صدف کی سوشل میڈیا پوسٹس گھریلو تشدد کے حوالے سے بھری پڑی ہیں لیکن پڑھے لکھے ہونے کا نقصان یہ ہے کہ آپ کسی کو اپنے آنسو، جسم پر پڑنے والے نیل اور روح پر لگنے والے زخم نہیں دکھا سکتے۔ صدف نے بھی اپنے گھریلو مسائل کا دنیا سے پردہ رکھا، سوشل میڈیا پوسٹس میں وہ اپنی روح پر لگنے والے زخموں کو سہیلی کے دکھ کے نام سے پیش کرتی رہی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ یہ کسی اور کی نہیں بلکہ خود صدف کی داستان غم ہے۔

لوگ کہتے ہیں پڑھی لکھی ملازمت پیشہ عورتیں گھر بسانا نہیں جانتیں۔ صدف نے ثابت کیا کہ وہ ہر صورت اپنا گھر بچانا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے لیے اسے بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ عورت کو مر کر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ گھر توڑنا نہیں چاہتی تھی۔

چمکتی آنکھیں، روشن چہرے والی صد ف زہرہ اپنی شخصیت اور سوشل میڈیا پوسٹس سے بظاہر مضبوط عورت نظر آتی ہے۔ جو کسی کا ظلم برداشت نہیں کرے گی جو حق کے لیے آواز بلند کرے گی لیکن اندر سے وہ بھی وہی کمزور خوفزدہ عورت نکلی، گھر ٹوٹنے کا خوف، طلاق یافتہ ہونے کا خوف، بیٹی کے مستقبل کا خوف اور یہی سارے خوف اسے کھا گئے۔ اس کی پیاری ایک سالہ بیٹی کے سر سے ماں کا گھنا سایہ چھن گیا۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم لڑکیوں سے ہر قسم کے صبر، رواداری اور سمجھوتے کی توقع تو کرتے ہیں لیکن اپنے بیٹوں کو انسان بنانے پر تیار نہیں۔ اگر بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ برا برتاؤ کر رہا ہے۔ بیوی کے ساتھ مار پیٹ کر رہا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں، مردوں کے منہ لگنا ہی نہیں چاہیے۔ بیویوں کو چاہیے وہ صبر سے کام لیں۔ ایک روز آئے گا کہ ان کا اپنے گھر پر راج ہوگا، خدارا یہ راج دیکھنے اور دکھانے کے خواب بند کیجیے۔ حقیقت میں جینا سیکھیے۔ ایک طلاق یافتہ بیٹی، مردہ بیٹی سے بہتر ہے لیکن اس بات کا احاس اسی وقت ہوتا ہے جب بیاہی بیٹی کا جنازہ تیار رکھا ہو۔ بیٹیوں کی تربیت بہت ہو گئی، بیٹوں پر دھیان دیجیے انہیں ذہنی مریض اور مجرمانہ ذہنیت کا شخص بنانے کے بجائے انسان کا بچہ بنائیں۔

ملزم علی سلمان کو چودہ روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی قتل یا خودکشی کا فیصلہ ہوگا لیکن میری نظر میں قتل ہو یا خود کشی، اس کا سو فیصد ذمہ دار اس کا شوہر ہی ہے کہ اس نے اگر اپنے ہاتھوں سے بیوی کا قتل نہیں کیا تو اپنے رویے سے ایک خوبصورت، پڑھی لکھی باشعور عورت کو اس حال تک پہنچا دیا کہ وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments