مندر اور مسجد کی سیاست


برصغیر زمین کا ایک ایسا خطہ رہا ہے۔ جہاں لوگ بہت پرامن طور طریقوں سے زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں۔ برصغیر پر کئی خاندانوں کی حکومت رہی جن کا تعلق مختلف مذاہب سے رہا ہے لیکن انگریز حکومت نے برصغیر پر جو اثرات چھوڑے ہیں ان کی حدت آج تک بہت شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ انگریز دور نے مذہبی منافرت کا جو بیج ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان بویا ہے نا جانے وہ کب ختم ہوگا۔ انگریز جاتے جاتے دونوں قوموں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے سے مستقل نفرت پر مہر ثبت کر گئے۔

تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کی گاڑی کا پہیہ چلنے لگا تو ایسا لگا کہ شاید حالات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن پھر یکے بعد دیگرے جنگوں نے دشمنی کو اور ہوا دی۔ اور پھر ایسا دور بھی آیا کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگا کر سیاست میں ووٹ حاصل کیے جانے لگے۔ بھارتی انتخابی منشوروں میں سیاسی جماعتیں پاکستان مخالف نعرے لگا کر حکومت بنانے لگیں۔ بھارتی جنتا پارٹی، جو کہ ایک سیکولر ملک کی جماعت ہے، نے اپنے منشور میں بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر بنانے کاوعدہ بھی کیا جس پر عدالتی فیصلے کے بعد کام شروع ہو بھی چکاہے۔

اس عدالتی، سیاسی اور غیر جانبدار فیصلے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی۔ دوسری طرف پاکستان جو کہ مذہب کے نام پر بنائی جانے والی ریاست تھی۔ پاکستان کے لوگوں میں اوائل سالوں میں شدت پسندی کے رجحانات اس قدر سخت نہ تھے۔ پاکستان کے لوگوں میں شدت پسندی کے رجحانات کے بڑھنے کی ایک وجہ بھارت میں مسلمانوں کا استحصال اور بابری مسجد کا واقعہ بھی ہے۔ ان واقعات سے پاکستان میں ہندو مخالف رجحانات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کبھی کبھی مخالفت کے لئے کسی ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری نہیں بھی ہوتا بلکہ مخالفت برائے مخالفت کا فارمولا ہی چھا جاتا ہے۔ پاکستان کی ہندو برادی بہت محب وطن ہیں اور پوری محنت اور محبت سے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی پاکستان میں بسنے والے ہندووں کے جذبہ حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی جسارت کی جانی چاہیے۔ ہندو دلت برادری کا پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار ہے اس لئے تو قائداعظم تقسیم کے وقت جوگندر ناتھ منڈل جو بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی بنے کو اپنے ہمراہ پاکستان لائے۔

جس سے قائداعظم کی وسیع سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں اپنے قارئین کے ساتھ چند اعداد و شمار بھی ساجھے کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک پاکستان میں بسنے والے ہندووں کی آبادی کے تناسب میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جب کہ مسلمانوں کے آبادی میں تناسب میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجوہات ملک میں مذہبی انتہا پسندی، جوان ہندو لڑکیوں کی گمشدگیاں اور تبدیلی مذہب کے لئے دباؤ جیسے چند مرکزی مسائل درپیش ہیں۔

کسی بھی اقلیت کا پرامن طریقے سے کسی بھی معاشرے میں آزادی سے گھل مل کر رہنا ایک صحت مند معاشرے کی نشانی سمجھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس حوالے سے کاوشوں میں سرگرم عمل نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی مثال کرتا پور راہداری جیسے عظیم و شان پراجیکٹ کا افتتاح تھا اور اب حکومت اسلام آباد میں ایک وسیع و عریز انٹر فیتھ ہارمنی انکلیو کی تعمیر کے لئے کوشاں ہے جس میں ملک کے اندر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے گا اور مزید اس کے علاوہ پاکستان کے دہشتگردی سے تباہ شدہ تصور کو سافٹ بنانے میں مدد ملے گی۔

اس کے ساتھ انتہائی افسوس کے ساتھ اس امر کا بھی اظہار کرنا ضروری ہے کہ حکومت ملک مذہبی شدت پسند گروپوں کے آگے جھکی اور ڈری ہوئی معلوم ہوتی ہے جبکہ یہی ایک وقت ہے کہ جب حکومت اپنے اقلیتی شہریوں کے لئے ایک ٹھوس قدم اٹھائے اور اپنی رٹ کو بحال کرئے جو کہ وقت کی ایک ضرورت بھی ہے۔ پاکستان کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہ عرصہ دراز سے مذہبی انتہا پسندوں کے نرغے میں رہا ہے اور اس کے اثرات ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی لڑائیوں کی شکل مرتب ہو رہے ہیں۔ ملک میں فی الفور مذہبی انتہا پسندوں کو نکیل ڈالنا نظر ضرورت ہے ورنہ ملک کو عالمی شرمندگی سے بچا پانا بہت مشکل ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments